ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کی کتاب "خاندانیت" کی تقریب رونمائی ۔

حلقہ خواتین جماعت اسلامی پاکستان کے زیر اہتمام ،حجاب کانفرنس بعنوان " نوجوان اور ہمارے سماجی روئیے" میں ،ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کی کتاب " خاندانیت Familyism " کی تقریب_ رونمائی کا انعقاد پرل کانٹینینٹل ہوٹل لاہور میں کیا گیا۔تقریب کا آغاز وقار چترالی صاحب کی پر اثر تلاوت سے ہوا جس کے بعد نعت پیش کی گئ۔ڈائریکٹر ادارہ معارفِ اسلامی حافظ ساجد انور نے قرآن و حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنا شیطان کا کام ہے۔ابلیس اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے اور اس شیطان کی سب سے زیادہ حوصلہ افزائی کرتا ہے جس نے میاں بیوی میں جدائی ڈال دی،آج کی یہ تقریب اس سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ ہمیں خاندان کے ادارے کو آگے بڑھانا ہے۔انھوں نے کہا کہ بیٹی دو خاندانوں میں نور کی برسات ہے۔اس تقریب کی میزبانی ڈپٹی ڈائریکٹر ادارہ معارفِ اسلامی انور گوندل صاحب کر رہے تھے۔

ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے شرکاء محفل اور مہمانانِ گرامی کا شکریہ ادا کرتے ہوۓ ،ان کے سامنے اپنی والدہ محترمہ ام_ کلثوم قاضی کا ذکر بہت محبت سے کیا کہ میری امی مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتی تھیں ،آج امی کی دعاؤں نے مجھے ڈاکٹر بنا ہی دیا،انھوں نے اپنے بھائی انس قاضی ،بیٹے محمد ابراہیم قاضی، اپنی بہو کی آمد کا بھی شکریہ ادا کیا۔آپ نے کہا کہ جماعتِ اسلامی بھی میرا خاندان ہے ،میں اس خاندان کا بھی شکریہ ادا کرتی ہوں۔ڈاکٹر محمد طاہر مصطفیٰ نے سابق امیر جماعتِ اسلامی قاضی حسین احمد کے بچپن کا ایک واقعہ سنایا کہ جب وہ پانچ سال کے تھے اور بولتے نہیں تھے تو ان کے والد صاحب جو معروف عالم دین حسین احمد مدنی کے مرید تھے،وہ ان کے پاس لے گئے۔مدنی صاحب نے اپنا لعاب قاضی صاحب کو چٹادیا اور دعا کی ،قاضی صاحب اسی وقت بولنے لگ گئے بلکہ ایسا بولے کہ بڑے بڑوں کو چپ کروادیا۔میری بہن نے اپنی کتاب میں خاندانیت کو درپیش خطرات کی نشان دہی کی ہے ۔میں کہوں گا کہ جب بیٹی رخصت کرنے لگیں تو قرآن پاک کا سایہ کرنے کے ساتھ یہ کتاب بھی جہیز میں دیں کیوں کہ حقوق اللہ کی قضا ہے ،حقوق العباد کی قضا نہیں ہے۔حفیظ اللہ نیازی صاحب نے کتاب "خاندانیت Familyism" کو ہدیہء تبریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے ،سرسری پڑھنے والی کتاب نہیں ہے،اس میں سے مذید کتابچے بنانے کی ضرورت ہے۔مولانا مودودی نے بھی مضامین لکھنے سے ابتدا کی اور پھر کتابچے لکھے تھے۔ہم لوگ اس لئے مغلوب ہوگئے ہیں مغرب میں جا کر کہ ہمیں ایسا تربیت کرنے والا لٹریچر نہیں ملا ۔قرآن کا موضوع میں ہوں یعنی انسان اور خاندانیت انسان سے تعلق رکھتی ہے۔UMT سے ڈاکٹر ممتاز اختر صاحبہ،ڈین ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے کتاب پہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر سمیحہ نے رشتوں کو بڑی محبت سے بیان کیا ہے۔اپنے شوہر جمیل کے نام جو لکھا کہ اس شہر میں سب کچھ ہے بس تیری کمی ہے ، آنکھوں کو نم کردیتا ہے-خاندان کا ادارہ ،تہذیب کا گہوارہ،پہلا مدرسہ اور پناہ گاہ ہے-مغرب میں ایسی نسلیں پروان چڑھ رہی ہیں جن میں انسانی اقدار کی کوئی اہمیت نہیں ۔یہ کتاب ایک انسائیکلوپیڈیا ہے جس میں تحقیق کے ساتھ جذبات بھی شامل ہیں ۔یہ کتاب نئ نسل کے لئے ممد و معاون ثابت ہو گی۔آپ پر تحریک_ اسلامی ناز کرتی ہے۔معروف سکالر اوریا مقبول جان نے اپنی مختصر و جامع گفتگو میں اعتراف کیا کہ اللہ نے جتنی بصیرت میری بہن سمیحہ راحیل کو دی ہے ،بہت کم لوگ اتنی بصیرت رکھتے ہیں۔کوئ ایسا ادارہ قائم کیا جائے جو گھر سے نکلی ہوئی عورت کو واپس گھر لے آئے ۔دنیا کی تاریخ میں ایسا کوئ معاشرہ نہیں ہے جہان عورت کی کوئ اہمیت تھی۔1920ء کو میں Cut of point کہتا ہوں جب روتھ شیلڈ ( یہودی) اپنے 60 لوگوں کو لے کر تل ابیب پہنچا اور کہا کہ یہاں بستی آباد کرنی ہے۔اس وقت خاندان کے ادارے پر سب سے پہلا حملہ ہوا جب عورتوں کو ماڈل بناکے پیش کیا گیا۔1920ء جب پہلا مقابلہء حسن ہوا ۔ کوئ تمغہ ایسی ماں کے لئے کیوں نہیں رکھا جاتا جس نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان قوم کو دیا۔خواتین کی تعلیم کے شعبہ جات 80٪ ایسے ہیں جن کا کوئ تعلق ،ان کی عملی زندگی سے نہیں ہوتا۔ خواتین کے لئے Master's in family sciences کی فیلڈ کا آغاز کیا جاۓ،اللہ تعالیٰ راحیل باجی کا یہ خواب پورا کردے۔

سینئیر رہنما جماعتِ اسلامی ،ڈاکٹر فرید احمد پراچہ صاحب نے ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کو کتاب "خاندانیت" لکھنے پر ہدیہء تبریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ خاندانیت نام بہت اہم ہے ،یہ طرزِ معاشرت ہے، حکم الٰہی کی تعمیل ہے، مہارت کا کام ہے،تعمیر سیرت کا ذریعہ ہے ،نسل انسانی کا دائرہ ہے ،ازم بھی ہے ،عزم بھی ہے۔ ایک جنت کا خاندان ہے ،اہل ایمان کو ہمیشہ کی جنتوں میں بھیجا جائے گا ،پورا خاندان جنت میں اکٹھا ہوگا۔جنت سے خاندان کا سلسلہ چلتا ہے اور جنت تک پہنچتا ہے۔حکم بھی یہی ہے کہ بچاؤ اپنے آپ کو اور اہل خانہ کو جہنم کی آگ سے۔یورپ نے میاں بیوی کو گاڑی کے دو پہیے کہا ،سب سے بہترین اصطلاح قرآن کی ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں۔ہم خاندان کے خلاف غیر ملکی ایجنڈے کے سیلاب کے سامنے قومی غیرت و حمیت کا بند باندھیں گے۔

الخدمت فاؤنڈیشن کے صدر عبد الشکور صاحب نے اپنی گفتگو میں کہا کہ کتاب میں نے پڑھی نہیں لہذا اس پہ تبصرہ نہیں کروں گا۔میں آج سے تقریباً 28 سال قبل امریکہ سے پاکستان آگیا تھا اس لئے کہ وہاں اور یہاں کی تربیت کا جو فرق ہے ،اسے انجوائے کروں ،میں کسی کام سے امریکہ گیا تو میرے دوست نے مجھے کہا کہ اپنے لباس یعنی اہلیہ کے ساتھ آیا کرو۔آج کی تقریب کا موضوع " لباس" بھی ہوسکتا ہے۔معروف کالم نگار سجاد نیازی صاحب نے قاضی حسین احمد کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ میں قاضی صاحب کا نیازمند ہوں۔کسی تہذیب کی بنیاد ،عورت اور مرد کے مابین مساوات پر بنتی ہے۔ سوشل سائنٹسٹ کہتے ہیں کہ اب عورت کا کردار بدلتا جارہا ہے۔یورپ میں جب فیمینزم کا لفظ استعمال ہوا ،اسی وقت یہاں فیملی ازم کا لفظ استعمال ہوا ،مسلم معاشرہ اپنے لحاظ سے یورپ کو جواب دے رہا ہے۔صنعتی انقلاب نے خاندانی نظام اور تہذیب کو برباد کیا ہے، جس معاشرے میں ترقی ہوچکی ہے ،وہاں عورتیں گھروں کو واپس آگئ ہیں ۔

ڈاکٹر غلام علی خاں صاحب یوں سخن گو ہوئے کہ خاندان وہ مقدس قلعہ ہے جس میں پروان چڑھنے والا فرد،رشتوں کے بندھن میں بندھ کے انسانیت کی معراج تک پہنچتا ہے۔ عورت کی چادر پہ حملہ کسی صورت میں ہو ،یہ سارے میزائل ہیں جن کا مقصد ،عورت کو اس کے قلعہ سے باہر نکالنا ہے۔اگر ڈاکٹر صاحبہ اس ساری ضخامت کا 50٪ لکھ دیتیں تو انھیں ڈگری مل جانی تھی لیکن انھوں نے نہایت جذب_ دروں سے ہر موضوع کو خاندان سے جوڑا ہے۔فرد کو آباؤ اجداد کی چھتری تلے پروان چڑھانے والا ادارہ خاندان ہے ۔اگر لوگوں کو جماعتِ اسلامی سے خدا واسطے کا بیر نہ ہوتا تو ڈاکٹر صاحبہ کا نسوانی حقوق کے علمبرداروں میں چیمپئین کا مقام ہوتا۔

ڈاکٹر ممتاز سالک یوں گویا ہوئے کہ خاندانی نظام کو بچانا صرف جماعتِ اسلامی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ انسانیت کا اور عالم_ اسلام کا مسئلہ ہے۔کس کی حکومت آتی ہے ،اس بات کو چھوڑیں ،یہ دیکھیں کہ ہماری نوجوان نسل تباہ ہورہی ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں لائحہ عمل تیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ڈاکٹر مہر سعید صاحب نے سمیحہ راحیل قاضی کی کاوش کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایک عورت نے مردانہ وار کام کیا ہے اور اتنا شاندار کام کیا ہے کہ ہمارے بھی سارے کفارے ادا ہوگئے ہیں ۔اس کتاب میں سات براعظموں کے مصنفین quote ہوئے ہیں ۔اس کتاب کے چھوٹے چھوٹے حصے نیٹ پہ ڈالے جائیں ،مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا جائے ،یونیورسٹی کے پروفیسرز کو سب سے زیادہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔

کانفرنس کے اختتامی خطاب میں حافظ محمد ادریس صاحب نے کتاب " خاندانیت" کے بارے میں کہا کہ اگر اس کتاب کے مختلف حصے لوگوں میں تقسیم کردئیے جاتے اور وہ ان پہ گفتگو کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔اس کتاب کا ایک اہم حصہ "تحفظ حقوقِ نسواں بل" ہے جو مشرف دور میں تیار کیا گیا تھا اور جماعت اسلامی ،اس بل کے خلاف_اسلام ہونے کے سبب اس کی مخالفت میں مہم چلارہی تھی۔ مجھے اس جدو جہد کی بنا پر جیل بھیجا گیا تھا ۔اس وقت پرویز الٰہی صاحب وزیر اعلٰی تھے۔بعد میں مجھ سے معذرت کی گئ کہ چونکہ آپ کے خیالات حکومت کے خلاف ہیں لہذا ہمیں یہ سب کچھ کرنا پڑا۔عزیزہ سمیحہ راحیل نے قاضی صاحب کی گود میں پرورش پائی ہے ،اس لئے ان کے اندر جو جذبہء جہاد تھا ،وہ اس کتاب میں نظر آتا ہے ۔ایک بار ناروے میں جنرل حمید گُل مرحوم اور میں ایک پروگرام میں مدعو تھے ،وہاں ناروے کا وزیر_انصاف بھی موجود تھا ،دوران_ ملاقات، جنرل حمید گُل نے کہا کہ ہمارے مسلم معاشرے میں بھی اولڈ ہاؤسز کا انتظام ہونا چاہئے تو میں نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ نہیں ایسا بالکل نہ کرنا کیوں کہ ہمارے معاشرے میں والدین رحمت اور برکت ہیں،انھیں اولڈ ایج میں گھر سے نہیں نکالا جاتا۔ ان کے وزیرِ انصاف نے کہا کہ میں آپ کے معاشرے کی ساری برائیوں کو جانتا ہوں لیکن میں داد دیتا ہوں کہ آپ کے معاشرے کے اندر بزرگوں کا احترام موجود ہے جب کہ ہمارے معاشرے میں بڑوں کا ادب موجود نہیں ہے۔ مسلمانوں کے پاس ایمان کی ایسی قوت موجود ہے جو یورپ کے پاس نہیں ہے۔کانفرنس سے سیکرٹری جنرل جماعتِ اسلامی پاکستان امیرالعظیم صاحب نے خصوصی خطاب فرمایا۔کانفرنس کا اختتام مولانا عبد المالک کی دعا سے ہوا،اور پھر جیسے ہی چاۓ کی خوشبو ہال میں آئی تو شرکاء بے تابی سے میزوں کی طرف لپکے اور لذت دہن کے سامان سے دل شاد کیا ۔
#