سیلاب آفت یا بد انتظامی


سال 2022 کا مون سون ایک بڑے سانحے کو جنم دے چکا ہے۔ 14 جون سے شروع ہونے والا تباہی کا یہ سلسلہ تاحال تھم نہ سکا۔ حالیہ سیلاب پچھلے بیس سالوں میں آنے والی یہ چوتھی بڑی تباہی ہے جس نے ملک کو ایک بڑے بحران سے دوچار کر دیا ہے۔

این ڈی ایم اے کی رپورٹ کے مطابق اس سیلاب میں 1300 افراد جاں بحق جبکہ تین کروڑ سے زائد افراد اس سے متاثر ہوئے۔ چند ہی دنوں میں سرسبز و شاداب علاقے ، ہرے بھرے کھیت اور آبادیاں تالاب کا منظر پیش کرنے لگیں۔

33 فیصد سے زائد علاقہ زیر آب آنے سے اربوں مالیت کے گھر، سڑکیں، پل اور مارکیٹیں تباہ ہوگئے، لاکھوں مویشی پانی کی نظر ہوگئے۔ کئی علاقوں کا دوسرے علاقوں سے زمینی رابطہ منقطعہ ہوگیا اور مواصلات کا نظام درہم برہم ہو کے رہ گیا۔

اسی اثنا میں سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی کو سیلاب زدگان سے یہ کہتے سنا گیا کہ یہ سیلاب تمہاری غلطیوں کے لیے تم لوگوں پر اللہ کے عذاب کی نشانی ہے۔ یہ سن کر میں وہ غلطیاں سوچنے لگا کہ کہیں ہماری عوام دودھ میں ملاوٹ تو نہیں کرتی، کہیں ہماری عوام جھوٹ بول کر منافع تو نہیں کماتی، کہیں یہ عوام بحران میں بھی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرکے ناجائز منافع خوری تو نہیں کرتی، کہیں یہ عوام ناپ تول میں کمی جیسے گناہ میں شامل تو نہیں ،کہیں اس عوام میں جنسی بد فعلی، بے حیائی، زنا پرستی اور جسم فروشی جیسا عنصر پروان تو نہیں چڑھ رہا، کہیں یہ عوام منافع خوری کے لیے حلال اور حرام کا فرق تو نہیں بھول رہی۔اور پھر بد قسمتی سے میرے ذہن میں آئے ان تمام سوالوں کا جواب ایک ہی تھا۔ جی ہاں یہ قوم عمومی طور پر ان تمام برائیوں میں مبتلا ہے جن سے اللہ کے عذاب آسکتے اور اس کی پکڑ ہو سکتی ہے۔

مگر اسی کے ساتھ ساتھ مجھے ان ریاستوں کا خیال آیا جہاں مذاہب کا وجود ہی نہیں۔ مگر ایسی کسی بھی آفت کو وہ تمام ریاستیں نہ صرف بروقت سنبھال لیتی ہیں۔ بلکہ اس کا ازسرنو جائزہ لے کر مستقبل میں ایسی آفات سے بچاؤ کے لیے حکمت عملی اور اقدامات اختیار کرتی ہیں۔ جسے ہمارے نااہل حکمران باآسانی عذاب یا آفت کا نام دیتے ہیں، مہذب معاشروں میں اسے مس مینجمنٹ/ بد انتظامی کا نام دیا جاتا ہے۔ اور ان تما م ریاستوں کے حکمران اپنی نااہلی کا بوجھ عوام کے گناہوں پر ڈال کر خود بری الذمہ نہیں ہوتے۔

اگر بات کی جائے پاکستان کی تو پاکستان کے پاس صرف 30 دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ پچھلے چالیس سالوں میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے نہ تو پاکستان میں کوئی نئے ڈیم بن سکے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی اقدامات اٹھائے گئے۔ساتھ ہی ساتھ جنگلات کی کٹائی سے موسمیاتی تبدیلیوں میں مزید تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کے باعث پاکستان دنیا میں ماحولیاتی تبدیلوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔ جس کے سبب گلیشیرز جو کہ پاکستان آبی ذخائر کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں، تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

ڈان نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کے باعث دریاؤں میں پانی کے بہاؤ سے پاکستان کی معیشت کو سا لانہ 29 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔حکومتی سطح پر ایسے کوئی بھی اقدامات نظر نہیں آتے جو مستقبل میں پاکستان کو ایسے خطرات سے بچانے کے لیے کیے جا رہے ہوں۔

نتیجتاً میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ بالا ذکر گناہوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کا سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ یہ اپنے مستقبل کا فیصلہ چند پیسوں اور ایک بریانی کی پلیٹ کے بدلے ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیتے ہیں۔ جو اس قابل ہی نہیں کہ ان کے ہاتھوں میں ملک کی باگ دوڑ دی جا سکے۔ جو ووٹ لینے کے بعد عوام کو کیڑے مکوڑے گردانتے ہیں۔ جو عوام کو اتنا حقیر سمجھتے ہیں کہ اپنے قریب تر نہیں بھٹکنے دیتے۔ جو عام آدمی کو اتنا کمزور سمجھتے ہیں کہ اپنے قریب آنے والوں کو دھتکار کے دور کر دیتے ہیں۔ جن کا سارا دھیان ملک کی ترقی کے بجائے ذاتی ترقی پر مرکوز ہے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے (آمین)
 

Rizwan Firasat
About the Author: Rizwan Firasat Read More Articles by Rizwan Firasat: 4 Articles with 1395 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.