جمعہ نامہ: اسماء و فاطمہ کا صبرو ثبات

ارشادِ ربانی ہے:’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ‘‘۔ نماز کیا ہے ؟ کب پڑھی جاتی اور کیسے پڑھی جاتی ہے؟ یہ سب جانتے ہیں لیکن صبر کیا ہے؟ کب کیا جاتا ہے ؟اور کیسے کیا جاتا ہے؟ یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں بلکہ اکثرو بیشتر صبر کا مطلب بے بسی اور مجبوری سمجھاجاتاہے۔ ایمانی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اپنا سب کچھ قربان کرکے مخالف کو عاجز کرنے کو صبر نہیں سمجھا جاتا۔ صبرو و ثبات کا کمال یہ ہے کہ ظالم اپنے سارے حربے استعمال کرنے بعد بھی مومن کو زیر کرنے میں ناکام ہو کرخود کو شرمندہ اور شکست خوردہ محسوس کرے۔ یہی وجہ ہے کہ نمرود کی آگ کے فلک شگاف شعلے بھی صابر و شاکر ابراہیم ؑ کو دل شکستہ نہیں کرپاتے ۔ صبر کب کیا جاتا ہے ؟ اس سوال کا جواب آگے کی آیات میں دیا گیا ہے۔ فرمانِ ربانی ہے:’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مُردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا‘‘۔

صبر کا ایک بلند موقع کسی قریب ترین فرد کی شہادت کا ہوتا ہے۔ ایک ماں کو اپنے 16؍سال اکلوتے بچے سے زیادہ محبت کس سے ہوسکتی ہے؟ لیکن وہی مدثر جب رانچی کی سڑکوں پر ناموسِ رسالت ﷺ کی خاطر احتجاج کرتے ہوئے جام ِ شہادت نوش کرلیتا ہے تو اس کی دلیر ماں اسماء کہتی ہے چونکہ وہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوا ہے اس لیے انہیں کوئی افسوس نہیں ہے ۔ ظالموں کے لیے سزا کا پرزور مطالبہ کرتے ہوئے فخر سے اسماء کہتی ہیں :’’ شیر بچہ پیدا کیا ہے ۔ اسلام زندہ باد تھا، اسلام زندہ باد ہے اور اسلام زندہ باد رہے گا‘‘۔ تاریخ کے اوراق میں صبرو استقامت کے بے شمار نمونے موجود ہیں لیکن عصرِ حاضر میں اس کا ایک نمونہ شہید مدثر کی والدہ نے پیش کرکےبتادیا کہ ایسے نازک وقت میں صبر کیسے کیا جاتا ہے؟ اسماء جانتی ہیں کہ ان کابیٹا جنت کے حسین باغات میں زندہ ہے ۔ مدثر کی رحلت پر حیرت اور اس کاماتم کرنے والے دراصل اس زندگی کا شعور نہیں رکھتے۔

قرآن حکیم میں آگے آزمائش کی دیگر صورتوں کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے کہ :’’ اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے ‘‘۔ آج کل اترپردیش کی جیلوں سے مسلم نوجوانوں کے زدوکوب کرنے کی ویڈیو اسی لیے نشر کی جارہی ہیں تاکہ اہل ایمان کو ڈرایا دھمکایا جاسکے ۔ مقدمات قائم کرکے پوسٹرس لگانے کا بھی یہی مقصد ہے کہ امت کو متوقع خطرات سے خوفزدہ کردیا جائے لیکن صبروتوکل کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹے رہنا وہ نسخہ ٔ کیمیا ہے جو ظالموں کے تمام حربوں کو ناکام کردے گا۔ گھروں اور دوکانوں پر بلڈوزر کا استعمال مالی نقصان کا آلۂ کار ہے۔ قرآن کریم کے مطابق اہل ایمان کو اس آزمائش میں بھی صبر و ثبات کا دامن تھامے رہنا پڑے گا۔ اس کی مثال پریاگ راج میں جاوید محمد اور ان کے اہل خانہ نے پیش کی ۔ جماعت اسلامی ہند کی مقامی شاخ کے ناظم جاوید محمد الہٰ باد کی معروف شخصیت ہیں۔ شہر کے اندر مختلف ملی اور قومی سرگرمیوں میں پیش پیش رہے ہیں۔ ان کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں بلکہ امن کمیٹیوں ان کا نام سرِ فہرست رہا ہے۔ ان کو انتالیس جھوٹے مقدمات پھنسا کر جیل بھیج دیا گیا اور اہلیہ پروین فاطمہ کےآبائی مکان کو ڈھا دیا گیا۔

ڈاکٹر سید قاسم رسول کی اہلیہ نے جب پروین فاطمہ سے فون پر بات کی تو خود رونے لگیں ۔ اس پر پروین فاطمہ نے الٹا انہیں ڈھارس بندھاتے ہوئے کمال صبرو تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا پریشانی کی بات نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔ خوابوں کا محل جب ٹوٹ کر بکھر جائے تو صبر کیسے کیا جاتا ہے یہ پروین فاطمہ نے بتا دیا۔اسماء اور پروین جیسی شجاعت کا پیکر خواتین کو قرآن حکیم میں بشارت دی گئی ہے:’’ اِن حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے، تو کہیں کہ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے‘‘ انہیں خوش خبری دے دو ان پر رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں‘‘۔ آخری سوال یہ ہے کہ اہل ایمان پر ایسی آزمائش کیوں آتی ہے ؟ کتاب الٰہی اس کا یہ جواب دیتی ہے کہ:’’ اور ہم ضرور تم لوگوں کو آزمائیں گے تاکہ ہم تم میں سے جہاد کرنے والوں اور صبر کرنےوالوں کو معلوم (و ممیز) کریں اور تمہارے حالات کی جانچ کر لیں‘‘۔بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسماء ،مدثر، جاویداور پروین جیسی پاکیزہ نفوس کو ممتاز و ممیز فرمادیا ۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1222329 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.