مولانا عبدالحامد بدایونی کؒے کردار کی ایک جھلک

مولانا عبدالحامد بدایونی کؒے کردار کی ایک جھلک

ریاست رامپور اپنی اہمیت اور جاہ و حشمت کی وجہ سے ہندوستان بھرمیں ایک اہم مقام کا حامل تھا۔اِس ریاست میں امراء و رؤساء کے بے شمار خانوادے تھے۔اِن خانوادوں میں نواب دولہا کی خوب شہرت تھی۔اُن کا اصل نام "تجمل شاہ خان"تھا۔اُن کے گھر میں 1908ءمیں ایک بچی نے جنم لیا ۔بچی کی ولادت اذانِ فجر سے ذراقبل ہوئی اِس لئے اُس کا نام "نورالصباح”رکھا گیا ۔

25/26دسمبر1920ءمیں نورالصباح ریاست شیر پور کے چشم و چراغ "محمد ظہیر الدین خان "کے ساتھ شادی کےبندھن میں بندھ گئیں۔اُس وقت اُن کی عمر صرف 12سال تھی اور تیرہویں میں قدم رکھا تھا۔نواب شیر پور کا شمار یو پی کی اہم شخصیت میں ہوتا تھا۔وہ 1911ء سے کانگریس کے پلیٹ فارم سے سیاست میں کلیدی رول ادا کررہے تھے۔تحریکِِ آزادی میں اُنہیں ایک خاص اہمیت حاصل تھی۔شوہر کی وجہ سے وہ بھی سیاست میں دلچسپی لینے لگیں۔1922 ءمیں اُن کی زندگی میں ایک اہم موڑ تب آیا کہ جب وہ اپنے شوہر کے ہمراہ خلافت موومنٹ کی جانب راغب ہوئیں اور اُن کی ملاقات”بی امّاں”سے ہوئی۔

مولانا محمد علی و مولانا شوکت علی کی والدہ "بی امّاں”نے نور الصباح کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ماضی میں اُن کےکپڑے،جوتے،خوشبویات وغیرہ سب لندن سے آتے تھےاور وہ شیر پور میں شہزادیوں کی سی زندگی بسر کیا کرتی تھیں۔مگر'' بی امّاں ''سے ملاقات کےبعد اُنہوں نے اپنا سب کچھ غرباء میں تقسیم کر دیا اور معمولی سوتی کپڑے زیب تن کرنے لگیں۔

1937ءمیں تحریکِ پاکستان کی گونج شیر پور میں پہنچی تو اُنہوں نے "آل انڈیا مسلم لیگ”میں دلچسپی لینا شروع کر دی ۔بچوں کی پڑھائی کی وجہ سے وہ 1941ءمیں دہلی منتقل ہو گئیں اور وہاں خواتین کی معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لینےلگیں۔1945ءمیں قائدِاعظم نے اُن سے ملاقات کی،اور مسلم لیگ دہلی کی پہلی سیکریٹری پھر صدر بنا دیا۔یہ نورالصباح کے لیے بہت اہمیت کی بات تھی کیونکہ بیگم مولانا محمد علی جوہر کے بعد وہی ایک ایسی خاتون تھیں جو مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی میں شامل تھیں۔ اُنہوں نے مسلم امراء و رؤساء اور افسران کی بیگمات کو مسلم لیگ میں شامل کرانے کی مہم شروع کی ۔

وہ دور ہی کچھ ایسا تھا کہ مسلمان افسران بھی تحریک پاکستان کے نام سے گھبراتے تھے،مگر وہ بےخوف ہو کر اُن کی بیگمات کو جلسے میں کھینچ کر لےآتیں اور پھر اُنہوں نے پرانی دلُی کا رخ کیا اور روایت کی پابند عورتوں کو جلسوں میں لانے کا انتظام کرنے لگیں۔

فروی1947ءمیں نورالصباح خضر حیات ٹوانہ کی حکومت کے خلاف چلائی گئی مہم میں حصہ لینے کےلیے لاہور آئیں تواُنہیں گرفتار کر لیا گیا ۔ 1945ءہی میں بیگم مولانا محمد علی جوہر نے مسلم لیگ شعبہ خواتین کل ہند بنیاد پر تشکیل دی، تووہ مرکزی کمیٹی کی ممبر منتخب ہوگئیں۔بالآخر اُن کی اور
اُن جیسی ہزاروں دیگر خواتین اور مردوں کی کوششیں رنگ لائیں،اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔

وہ ریاست شیر پور کی جائداد اور خزانہ سب کچھ پاکستان کے نام پر قربان کر کے 17ستمبر 1947ءکو پاکستان منتقل ہوگئیں۔پاکستان بننے کے بعد اُنہیں مسلم لیگ سندھ ورکنگ کمیٹی اور کاؤنسل آف آل پاکستان مسلم لیگ کاممبربنالیا گیا،لیکن جب 1958ءمیں مارشل لاء نافذ ہوا تو اُنہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی اورلکھنےلکھانے کا شوق پورا کرنے لگیں۔

14،جولائی1978ءکو نورالصباح اپنے7 بچوں کو روتا بلکتا چھوڑ کر شیرپور ہاؤس کراچی میں انتقال کر گئیں ۔ بعد ازمرگ14،اگست 1992ء کو وزیراعظم پاکستان نے اُنہیں گولڈمیڈل دیا اوراِس محسن پاکستان"نور الصباح بیگم”کو کو خراجِ تحسین پیش کیا ۔

نور الصباح بیگم تحریک پاکستان کی نامور خاتون رہنما ادیبہ اور شاعرہ بھی تھیں۔ اُنہوں نے متعدد کتب لکھیں۔''پاکستان کی مشہور شخصیتیں میری نظر میں'' اُن کی مشہور کتاب ہے ۔جس وہ تحریک پاکستان کے مشہور رہنماء فاتح سرحد مولانا عبدالحامد بدایونیؒ کے بارے میں اپنی ملاقاتوں کےتاثرات بیان کرتے ہوئے اُن کے کردار وعمل کانقشہ یوں کھینچتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
''اچھا خاصا رنگ قدرے گورا سا۔اُونچی ناک لانبا چہرہ۔درمیانی قسم کی آنکھیں۔چہرے پر داڑھی۔لانبا قددبلا جسم۔

مولانا کو دور دور سے دیکھا۔مگر جب چودھری خلیق الزماں نے تمام اسلامی ممالک کی ایک کانفرنس کراچی میں بلانا چاہی تو اُنہوں نے پہلے ایک کمیٹی ترتیب دی جس میں کراچی کے معزز لوگ شامل تھے۔اِس اسلامی اجتماع کا نام ''شعوب الاسلامیہ'' منتخب ہوا۔اِس کمیٹی میں دو خواتین بھی تھیں۔اُن ہی میں ایک میں بھی تھی۔

ہمارے مولانا کو بے پردہ ہونا سخت ناپسند تھا۔میٹنگ میں وہ ہمیشہ ہماری طرف سے نظریں نیچی رکھتے ۔خیر کانفرنس ہوئی اور بہت زوروں پہ ہوئی۔اِس کانفرنس میں شرکت کے لیے مصر کے ایک لیڈر محمد رمضان بھی آئے تھے۔اُن کی شادی کی تاریخ مقرر ہوچکی تھی۔اِس لیے وہ اپنی ہونے والی بیوی فاطمہ کو بھی ہمراہ لے آئے۔پیر علی محمد راشدی نے ہوٹل میڑو پول میں اِس شادی کا انتظام کیا اور معززین شہر اور اُن کی بیگمات کو مدعو کیا۔دلہن کو تیار کرکے لانا ہمارے سپرد تھا۔۔۔۔ہم نے لاکر اُس کو محفل میں دولہا کے قریب صوفے پر بیٹھادیا۔اتنے میں نکاح پڑھانے مولانا عبدالحامد بدایونی تشریف لے آئے۔اور جیسے ہی اُن کی نظر محفل میں بیٹھی بے شمار خواتین پر پڑی اور دلہن کو اُنہوں نے دیکھاجو کھلے منہ دولہا کے پاس بیٹھی تھی۔لاحول پڑھتے ہوئے واپس چلے گئے۔بہتیرا اُن کو راشدی صاحب نے سمجھایا کہ یہ مصری لڑکی ہے مگر اُنہوں نے کہا میں ایسا نکاح نہیں پڑھا سکتا جہاں تمام عورتیں اور دلہن بے پردہ ہو۔

قبل از تقسیم ِہند مولانا یوپی اسمبلی کے مسلم لیگی ممبر تھے۔اُنہوں نے حصول پاکستان کے لیے بہت جدوجہد کی اور ایسے علماء سے ٹکر لی جو کہ نیشنلسٹ تھے۔پاکستان میں وہ قانون ساز اسمبلی کے رکن تھے۔اُنہوں نے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر وزیر اعظم لیاقت علی خاں کے دور میں پاکستان کے آئین کے لیے اسلامی نقطہ نظر سے چند بہترین تجاویز تیار کرکے قرطاس کی شکل میں پیش کیں جو کہ اگر اُس دور میں آئین تیار ہوجاتا اور نافذ ہوجاتیں تو ملک کے ہزاروں خرابیوں سے بچانے کا باعث ہوتیں۔''

ایوب کے دور میں نافذ کردہ عائلی قانون کے حوالے سے محترمہ لکھتی ہیں کہ ''صدر ایوب نے ایک کمیٹی ترتیب دی جس کا مقصد یہ تھا کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے اصلاحات پیش کرے۔جس میں چند خواتین ،چند مرد اور خود مولانا عبدالحامد بدایونی تھے۔جب یہ اصلاحات صدر ایوب کی منظوری کے لیے پیش ہوئیں تو مولانا نے اُن کو منظور کراتے ہوئے ایک اختلافی نوٹ بھی ساتھ لگادیا تھا۔''جس سے واضح ہوتا ہے کہ مولانا عبدالحامد بدایونی عائلی قوانین کی بعض اصلاحات بالخصوص''پہلی بیوی کی اجازت سے مشروط مرد کی دوسری شادی''،جیسی شرائط کو شرعی نقظہ نظر سے درست نہیں سمجھتے تھے۔
اقتباس ''پاکستان کی مشہور شخصیتیں میری نظر میں''از۔نور الصباح بیگم ،صفحہ 55 ،تا 56۔ شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلیشرز
 

M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 315 Articles with 307959 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More