یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آ گئے

اب امتحان ہے ان کا جو کہتے تھے نیازی نیب گٹھ جوڑ نے ملک تباہ کر دیا ہے مہنگائی نے غریبوں کے چولہے ٹھنڈے کر دئیے ہیں اب دیکھتے ہیں وہ کیسے اپنی اننگز کھیلتے ہیں۔خان صاحب بظاہر امریکہ کے سامنے ڈٹ جانے کا جھوٹا تاثر دیتے رہے مگر سی پیک سمیت ہر اس منصوبے سے ہاتھ کھینچ لیا جس سے امریکہ بہادر کے ناراض ہونے کا خدشہ تھا۔اب اگر سی پیک پر پوری لگن سے کام شروع ہوا تو اصل تکلیف سب سے زیادہ امریکہ کو ہونی ہے دیکھتے ہیں کون کتنا کس حد تک ڈٹ سکتا ہے۔یہ لوگ اگر نیازی صاحب کے نقش قدم پہ چلے سلطان راہی کا گنڈاسہ سنبھالے رکھا اوے اوے میں کسے نو ں نہیں چھڈاں گا اورگالم گلوچ ،گلیاں ہو جانڑ سنجیاں وچ مرزا یار پھرے والی خواہش ہوئی تو انجام بھی یاد رکھیں۔أئین اور قانون سب سے مقدم ہے اور الحمد الﷲ اب اس ملک کی عدالتیں کافی حد تک بیدار ہو چکی ہیں اگر رات کو بارہ بجے عدالت کے دروازے نہ کھلتے چیف جسٹس رات کو نہ پہنچتے تو سابق حکمرانوں کے ارادے کیاتھے وہ سب کے سامنے ہیں اور کچھ سامنے أ رہے ہیں اس کے علاوہ ابھی بہت کچھ سامنے آے گا کہ ان شیخ رشیدوں بابر اعوانوں فواد چوہدریوں اور قاسم سوریوں نے کیا کیا پلاننگ کی ہوئی تھی ایک عدالت أئین کے دفاع کے لیے کھولی گئی تو دوسری عدالت غیر أئینی اقدام کو ریورس کرنے کے لیے تیار تھی۔جب أپ أئین کو مذاق بنا لیں اور شہنشاہ بننے کی کوشش کریں تو یہی کچھ ہوتا ہے جو اس رات کو ہوا،اسی لیے چند دن قبل ہم نے کہا تھا کہ ویلے دیاں نمازاں تے کوویلے دیاں ٹکراں،ہاے اس زودو پشیماں کا پریشاں ہونا،اب اپنا تو ستیاناس کیا ہی ساتھ پارٹی کی جڑوں میں بھی بیٹھ گئے جاتے جاتے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ زبردستی کی بجاے عزت سے جاتے۔مگر یہاں ایسا چلن ہے ہی نہیں نہ یورپ کو سب سے زیادہ جاننے والوں نے ہی ایسا کلچر پروان چڑھنے دیا۔سو اب أپ بھی اسلام أباد سے میانوالی بائی روڈ جائیں اور ہر شہر میں رک کر یہ سوال ضرور کریں کہ مجھے کیوں نکالابلکہ اس طرح کیوں نکالا حالانکہ وجہ آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ آپ اپنا کوئی ایک بھی وعدہ پورا نہ کر سکے ،ایک کروڑ نوکریاں۔پچاس لاکھ گھر۔پی ایم ہاوس میں یونیورسٹی۔گورنر ہاوسز میں لائبریریاں۔لوٹی دولت کی واپسی۔چھوٹی کا بینہ۔آئی ایم ایف سے آزادی ورنہ خودکشی۔سائیکل پر دفتر آناجانا۔لوٹوں کا ساتھ نہ رکھنا۔جھوٹ نہ بولنا۔ریاست مدینہ قائم کرنا۔ان وعدوں کے بجائے نہ صرف خود گالیاں دیں بلکہ بد زبانوں کی ایک فوج تیار کی۔ غرور اور تکبر کیا۔اپنے چوروں کا دفاع کیا۔فواد چودھری، شیخ رشید، شاہ محمود قریشی، سرورخان، خسروبختیار، عمرایوب، mqm اور گجرات کے چودھریوں کی ہر جائز ناجائز خواہش پوری کی گئی۔کرپشن کو ترقی دی۔مہنگائی سے عوام کی زندگی اجیرن کی۔آئین شکنی کی۔اقتدار سے چمٹ ہی گئے۔اردگان اور مہاتیر کو دھوکہ دیا۔چین کو ناراض کیا سعودی شہزداے کے حکم پر ملائشیا نہ گئے پھر اسی شہزادے کا نام سر عام بتا کر اسے بھی ناراض کر دیا، ایک گروہ تھا، چلا گیا۔کاش اب قوم سمجھے کہ کھلاڑی اور حکمران میں فرق ہوتا ہے۔اب pdm کے ان لوگوں کا امتحان ہے جو اس سے قبل بار بار حاکم بنے اور ایک ناکامی کی وسیع لسٹ ان کے نامہ اعمال میں موجود ہے، خود دار ی کا بھاشن دینے والے صاحب جب ٹرمپ سے مل کرواپس أے تو قوم کو بتایا گیا کہ دوسرا ورلڈ کپ جیت کر أیا ہوں۔ٹرمپ سری لنکا یا بنگلہ دیش کا صدر تو نہیں تھا،الیکشن کمپین میں عافیہ کی مظلومیت کا رونا روتے رہے اور اپنے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں یا ٹرمپ سے ملاقات کے وقت تک اس مظلومہ کا نام ہی بھول گئے ،اب جب حکومت جاتی نظر آئی تو آپ کو حمیت و خود داری یاد آ گئی ،گریس بھی کوئی چیز ہوتی ہے خواہ مخواہ کا رونا پٹنا جاری۔بھائی اکثریت نہیں رہی گھر جاو اگلے الیکشن کی تیاری کرو نئے سرے سے پھر أومنتخب ہو کے ۔۔یہ کسی کی جاگیر تھوڑی ہے اﷲ نہ کرے شہباز اینڈ کمپنی بھی فرعون بنے دعا ہے کہ او میں کسے نوں نہیں چھڈاں گا میں ان کو رلاوں گا کے ڈائیلاگ سے سب سبق سیکھیں،یاد رکھیں غرور اور تکبر کا انجام ڈلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔۔تکبر اﷲ کو پسند نہیں پسندیدہ عمل عاجزی و انکساری ہے۔۔۔اگر عاجزی کی بجاے تکبر اور نخوت سے کام لیا تو انجام نیازی یاد رکھیں،رہی عوام تو وہ ہر دفعہ نئے آنے والے سے توقعات وابستہ کر لیتے ہیں ،ہر دفہ ان کے کواب ٹوٹتے ہیں اور وہ ہر دفہ ایک نئی امید باندھ لیتے ہیں ،عمران خان سے سب سے زیادہ امیدیں وابستہ کی گئی تھیں کہ یہ پاکستان کو بدل دے گا ،جن لوگوں نے ملک کو لوٹا ان سے لوٹا ہوا مال نہ صرف برآمد کیاجاے گا بلکہ سارے چور اچکے جیلوں میں جائیں گے ،مگر یہاں کیا ہوا کہ نہ کسی سے ایک روپیہ برآمد ہوا نہ کوئی لٹیرا ہی اندر ہواالٹا ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے لوگوں کو اعلی عہدوں سے نوازا گیا جن پر کرپشن کے الزامات اور کیسز تھے،کسی نے عوام کی رتی بھر پرواہ نہ کی کہ وہ کیسے اور کن حالات میں گذارا کر رہے ہیں غریب مزدور جس کی کل آمدن نو سو روپے یومیہ ہے وہ کیسے پانچ سو روپے کا کلو گھی اور ایک سوبیس روپے کی چینی خریدے گا بچوں کی فیس کیسے ادا کرے گا گھر کا کرایہ اور دوائیں کہاں سے لے گا اب عمران خان تو چلا گیا نئے لوگ آ گئے نیا جوش و ولولہ لیکر مگر خیال رہے کہ یہ آزمائے ہوئے ہیں ان کو اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہو گا ورنہ اگر یہی چلن رہے جو ان سے پہلی حکومت اور حاکموں کے تھے تو وہ وقت دور نہیں جب لوگوں نے تخت کو تختہ بنا دینا ہے خدارا اب بس کر دیں سب مل کر اس ملک اور عوام کے بارے میں سوچیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے،عوام ہر دفعہ یہ سوچ کر خواب بیچنے بازار میں آ جاتے ہیں کہ شاید غم کے خریدار آ گئے ہیں مگر یہ خریدار بلکہ ساہو کار ان کی خوشیاں بھی اونیپونے خرید کر چلتے بنتے ہیں ،،اﷲ ہم پررحم فرمائے۔