قوم کو مبارک ہو

28 جنوری بعد از نماز جمعہ پاکستان کے دانشور وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے دونوں پاوں جوڑ کرشرمندہ شرمندہ پریس کانفرنس میں 22 کروڑ پاکستانیوں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اکیلا عمران خان ساری اپوزیشن پر بھاری ہے۔ فرمایا کہ اپوزیشن سینٹ سے دم دبا کر بھاگ گئی اور حکومت سٹیٹ بینک آف پاکستان کی مالی خودمختاری کابل پاس کروانے میں کامیاب ہو گئی۔ جناب فواد چوہدری جھوٹ نما سچ یا پھر سچ نما جھوٹ بولتے ہوئے ہرگز خوش نہیں تھے، چونکہ وہ جس چھری کے تیز ہونے پر قوم کو مبارکباد دے رہے تھے سال سوا سال بعد وہ بھی اسی چھری کی زد میں ہوں گے ۔صحت کارڈ، لنگر خانے اور شلٹر ہاوس ،نوجوانوں کو ورغلانے والے پروگرام، ترکی کے پل کے نیچے زیر تعمیر القادر یونیورسٹی اور دیگر ٹوٹکے سوائے قومی خزانہ کھنڈروں اور نالوں میں بہانے کے کچھ بھی نہیں ۔ یہی حال الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا ہوگا۔ اگر ان اللوں تلوں کا حساب لگایا جائے تو اب تک حکومت ایسے نا پائیدار اور فضول منصوبوں پر کئی سو ارب ڈالر خرچ کر چکی ہے۔ اگر عمران خان کی سوچ میں پختگی اور سیاست میں توازن ہوتا تو وہ یہی رقم بچا کرپانی اور بجلی کے چھوٹے منصوبوں ، صحت ،تعلیم ، چھوٹی صنعتوں اور دیہی علاقوں کی ترقی پر لگاتا تو نئے پاکستان کے کچھ خدوخال ظاہر ہوتے۔

پولیس اور عدلیہ میں اصلاحات کو اولیت دیتا اور کرائے کے مشیروں کی جگہ اپنی پار ٹی کے قابل افراد پر بھروسہ کرتا تو ریاست مدینہ نہ سہی ایک ویلفئیر اسٹیٹ کا کچھ نقشہ سامنے آجاتا۔

فواد چودھری کی مبارکبادی پر دو لطیفے یادآگئے ، کہتے ہیں کہ ایک امریکی سارجنٹ ایک پلاٹون لے کر ساحل سمندر پر چلا گیا بلکہ پیراشوٹ کے ذریعے لینڈ کر گیا۔ ساحل پر اترتے ہیں سارجنٹ نے کہا میرے جوانوں آپ کے لیے ایک خوشخبری اور ایک بری خبر ہے۔ بری خبر یہ ہے کہ شام تک آپ کوایک ہزار بیگ ریت سے بھرنے ہیں ۔ موسم گرم ہے۔ خوراک اور پانی ایک ہی دن کا ہے ۔ رات گزارنے کا کوئی بندوبست نہیں ۔ سمندری طوفان کا بھی اندیشہ ہے اور حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ خوشخبری یہ ہے کہ بیلچے اور خالی بیگ موجود ہیں اورر یت کی بھی کوئی کمی نہیں ۔ جناب فواد چوہدری نے اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کی خوشخبری پر قوم کومبارکباد دی ہے مگر اس خودمختاری سے قوم کا جو حشر ہوگاانھیں نانی نہیں بلکہ کڑنانی یاد آجائے گی ۔ فیاض شوکت ترین کے ما ہرانہ منی بجٹ نے قوم کی چیخیں تو نکال دی ہیں اب اجتماعی خودکشیوں کا سلسلہ جاری ہونے والا ہے۔ نام بھی کیسے عظیم ہیں مگر کام کا ایک بھی نہیں۔ نہ فواد کا کوئی فائدہ ہے اور نہ فیاض میں فیاضی، شفقت اور شوکت ہے۔ سن رہے تھے کہ کرپشن اور مالی بے ضابطگیوں کی وجہ سے وہ جلد ہی نیب کی تحویل میں ہوں گے۔ اسی دوران وہ اپنی شان و شوکت بچانے کے بہانے تلاش کرنے لگے اور حکومت کے خلاف حسب روایت بیان بازی کاسلسلہ شروع کر دیا۔ کھینچا تانی کا سلسلہ جاری تھا کہ عمران خان نے حسب عادت چھکا لگایا تو حفیظ شیخ آوٹ اور شوکت ترین ا ن ہوگیا۔ البتہ حماد اظہر کی نوکری پکی ہے اور بدستور فائلیں اٹھانے اور غلط جگہوں پر رکھنے کا کام کر رہا ہے ۔ اسد عمر اور محمد زبیر اپنی اپنی جگہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں ،جبکہ شیخ رشید کا کلا ہمیشہ کی طرح قائم ہے ۔اگر وزارت چلی بھی گئی تو اگلی حکومت میں پھر مل جائے گی ۔ کہتے ہیں کہ ایک گاوں میں صبح صبح میراثی آدھمکاچودھری صاحب نے لسی کا پیالہ پی کر حقے کی نے منہ میں لی ہی تھی کہ میراثی نے با آواز بلند سلام کیا ۔خچر ایک طرف باندھا اورہاتھ باندھ کر چوہدری کے سامنے کھڑا ہو گیا ۔ چوہدری کا سات پشتوں پر مشتمل شجرہ سنایاتو چوہدری نے نوکروں کو حکم دیا کہ میراثی کی خچر پر پڑی چھٹ غلے سے بھر دو ۔ چھٹ بھر گئی تو میراثی کا لڑکا خچر لے کر گاوں سے نکل گیا ۔تھوڑی خاموشی کے بعد میراثی پھر کھڑا ہوا اور کہنے لگا چودھری صاحب میرے پاس ایک خوشخبری ہے اور ایک بری خبر ہے۔ بری خبر یہ ہے کہ آپ کے دشمنوں نے ندی کے بندمیں شگاف ڈال دیا ہے شام تک بند ٹوٹ جائے گا اورپھر نہ یہ گاوں ہو گا اور نہ اس کے کھیت کھلیان۔خوشخبری یہ ہے کہ حکومت متاثرین کو جو معاوضہ دے گی وہ آپکے ذریعے ہی پٹواری تقسیم کرے گا۔ آپ پٹواری سے فورا رابطہ کریںشام سے پہلے گاوں کی ساری زمین اپنے نام لکھوا کر کاغذ لیں اورچپکے سے گاوں چھوڑ دیں ۔آپ کو جتنا سرکار معاوضہ دے گی اس سے ایک اور گاوں آباد ہو جائے گا سیلاب کے بعد یہ زمینیں بھی آپ ہی کی ہوں گی اور نئے گاوں اور نئی زمینوں کے بھی آپ ہی مالک ہوں گے ۔ کل تک یہ گاوں تباہ اور گاوں والے موت کی نیند میںہوں گے ۔ میراثی کی بات پر چوہدری نے اسے شاباش دی اور شام سے پہلے چوہدری اور پٹواری محفوظ جگہ پر منتقل ہوگئے۔

اہل پاکستان کو جناب فواد چوہدری نے ایسی ہی مبارکباد دی ہے۔ سینٹ کے قابل احترام ممبران نے نئے پاکستان کے لیے ایسا بل پاس کیا ہے جو مہنگائی کے سیلاب کے علاوہ ملک کی خودمختاری اور قومی تحفظ پر کاری ضرب لگانے کے مترادف ہے ۔وزیراعظم پہلے ہی خوشخبری دے چکے ہیں کہ جو ادارے قرض دیتے ہیں وہ ہمارے خفیہ رازوں تک رسائی بھی رکھتے ہیں۔ اس بل کے منظور ہونے کے بعد اب پاکستان کا ہر عہدہ اور ادارہ بے وقعت اور بے حیثیت ہو گیا ہے ۔عوام اورملکی تحفظ اور بقا کے ذمہ دار ادارے اب آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے نمائندے رضا باقر کے رحم و کرم پر ہیں ۔اگلے پانچ سال تک پاکستان کا مختار کل اور ان داتا تعینات کر دیا گیا ہے۔ دفاع ، تعلیم ،صحت اور ریسرچ سب سے زیادہ متاثرہوں گے ۔اب رضا باقر کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کس کو کتنا صدقہ وخیرات دیتا ہے۔اگر کسی نے تڑ تڑ کی توعالمی مالی ادارے اس کی گردن پر پاوں رکھ دیں گے ۔پاکستان کو عالمی سطح پر ہر طرح کی پابندیوں کا سامنا کرنا ہوگااور ملک دیوالیہ بھی ہوسکتا ہے ۔

بہرحال امیروں ،وزیروں، مشیروں اور مافیا کے لیے خوشخبری ہے کہ ان کی دولت میںاضافہ ہوگا اور گاوں کے نمبردار اور پٹواری کو نئی زمینیں آباد کرنے کے لیے خطیر معاوضہ بھی ملے گا۔


 

asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 89405 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.