مقام امت سید المرسلین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم

ٓاعوذبا للہ من الشیطن الرجیم العین ومن اتبعہ اجمعین
ارشاد رب العالمین ہے۔ وکذلک جعلنکم امة وسطا لتکونوا شھداءعلی الناس ویکون الرسول علیکم شھیدا (سورة بقرة آیہ نمبر ۳۴۱)اردو مفہوم ( اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ (ترجمہ اعلٰی حضرت بریلوی رحمة اللہ علیہ)یہ ہے وہ اعلٰی ترین ترین اعزاز جو سیدالعالمین ﷺ پر ایمان لانے والوں کو رب ذوالجلال نے عطا فرمایا۔ اس تحریر کا مقصد بھٹکے ہوئے نادان مسلمانوں کی رہنمائی کرنا ہے کہ جو متاع دنیوی کی چمک دمک کو اپنی متاع ایمانی بیچ بیٹھے اور صلیبیوں کے کاسہ لیس فرمانبردار بن گئے ہیں۔ امت افراد کے مجموعہ کا نام ہے ۔ جن افراد نے دل و جان سے اللہ کی وحدانیت اور ربوبیت کا اقرار کیا وہ قوم رسول ھاشمی کی اکائیاں بن گئے۔ یہیں سے قوم کی تشکیل وجود پاتی ہے۔ بقول حضرت علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ ۔ اپنی ملت کو قیاس اقوام، مغرب سے نہ کر ۔ خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ھاشمی۔ ترکیبی عناصر ایک اللہ کی حاکمیت کا اقرار کرنا ، اسکے رسول ﷺ پر صدق دل سے ایمان لانا اور اللہ کے دیئے گئے ضابطہ کائنات قرآن پاک کی عملی تفسیر بن جانا۔ اسی بنا پر اللہ پاک نے فرمایا کہ میرے محبوب ﷺ کی امت بروز قیامت تمام لوگوں پر گواہی دے گی۔ کس بات کی گواہی دے گی؟ انبیا سابقین تشریف لائے ، انہوں نے اللہ کی رسالتیں لوگوں تک پہنچائیں۔ رسول کی صداقت اور انکے فرائض کی مکمل ادائیگی پر شہادت وہ لوگ دیں گے جو صدیوں بعد پیدا ہوئے جبکہ شہادت کے لیئے شاہد کا وقوعہ پر وجود ہونا شہادت کی صحت کے لیئے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ سرور کون و مکاں کی امت کو اللہ نے یہ اعزاز دیا کہ اللہ کے حبیب ﷺ کی تعلیمات سے انکا ایمان اور ایقان اس قدر عین الیقین اور حق الیقین ہے کہ اس میں فتیلہ برابر تشکیک کا وجود نہیں۔ اور پھر سیدالمرسلین ﷺ کی شہادت عظمی بطور مہر حقیقت ہوگی۔

اب اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا یہ امت قابل تقسیم ہے؟ کیا رنگ ، نسل، علاقہ یا زبان پر اسکی ذیل امتیں تشکیل پا سکتی ہیں؟ اگر ایسا سوچا جائے تو یہ کفر ہوگا کیونکہ یہ بات قرآنی نظریہ امت کی نفی کرتا ہے۔ جو بات قرآنی نظریات کی نفی کرے وہ کفر ہے اور مردود ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مکہ معظمہ میں دعوت حق دی جاتی ہے، داعی ﷺ کا تعلق ذی احترام قبیلہ بنو ہاشم ہے،اب دعوت حق قبول کرنے والوں میں غلام، آزاد ، قریشی، ہاشمی اور گورے کالے ہر طرح کے لوگ شامل ہیں۔ یہ لوگ اکھٹے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے ہمدرد ہیں ۔ یہی مسلمان نام ہے انکا، ان کا طرز عمل اللہ وحدہ لاشریک کی وحدانیت کا برملا اعلان ، خاتم الانبیا ء ﷺ کے پروانے بنتے جارہے ہیں۔ اور کفار مکہ بھی انہیں ایک علیحدہ حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی ہیں کہ جو پہلے اپنے آبا و اجداد کے نامو ں پر تفاخر کے میدان گرم کرتے تھے۔ اب صرف مسلمان ہیں۔ یہی نام اللہ نے قرآن میں عطا کیا ۔ امت وسط وجود میں آگئی، ابتدا میں چند نفوس پر اسکی اساس تھی پھر بتدریج گھٹائے رحمت نے پورے حجاز کو اپنی لپیٹ میں لیا اور کھل کر برسی۔ ملت چند نفوس سے ہزاروں ، ہزاروں سے لاکھوں ، لاکھوں سے کروڑوں اور اب اربوں میں پہنچی۔ براعظم ایشیاءسے افریقہ اور افریقہ سے یورپ نور حق سے منور ہوا۔ اب اس میں مختلف زبانوں والے، کالے ، گورے، سرد علاقوں والے گرم علاقوں والے، معدل آب و ہوا والے لوگ شامل ہوگئے ۔ اب انکی ثقافت، معاشرت،تہذیبی اقدار مذہبی روایات کا اشتراک اس قدر نمایاں ہوا کہ دنیا میں جہاں کہیں کوئی مسلمان جاتا ہے تو وہاں جاکر وہ اجنبیت محسوس نہیں کرتا۔ پانچوں وقت مساجد سے صدائے اذان سے وہ اپنے آپکو اپنے گھر میں تصور کرتا ہے۔ مسجد میں وضو کرتے، نماز پڑھتے، قرآن پاک کی تلاوت کرتے وہ اسے اپنا گھر تصور کرتا ہے، دوسرے رنگ اور زبان کے لوگ پیار سے ملتے ہیں، بات نہیں سمجھتے مگر اشاروں سے اپنائیت کا پیغام دیتے ہیں۔ عید آگئی، وہی ماحول پایا، نماز پڑھی، گلے ملے، طرح طرح کے پاکیزہ کھانے کھائے، کوئی نکاح کی محفل دیکھی وہی ایجاب و قبول کے طریقے۔ جبھی تو علامہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں صلیبیوں اور بت پرستوں کو واشگاف الفاظ میں پیغام دیا کہ ہم مسلمان اللہ اور رسول کو ماننے والے، قرآن پرعمل کرنے والے ہماری تہذیب و معاشرت علیحدہ ممتاز مقام رکھتی ہے ۔ ہمارے تمام اصول تم سے منفرد ہیں ہمارا غیر مسلموں کے ساتھ مل جل کر رہنا ناممکن ہے۔ پاکستان چاہیئے۔ پاکستان بنا لیا۔مگر انگریز بڑا کایاں اور دور کی سوچ میں سازشوں کے جال پھیلانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ مثلا ایک بڑی داڑھی والے کے ذریعہ نیءنسل کو سنت رسول ﷺ سے با ضابطہ طور پر دور کیا، اس نے کہا کہ جب تک تم لوگ انگریزی آداب لباس، آداب طعام ، آداب گفتگو،غرضیکہ اپنی تہذیب و معاشرت کی جگہ انگریزی طریقہ نہیں اپناتے اس وقت تک تم انگریز سرکار کا قرب حاصل نہیں کرسکتے اور سرکاری ملازمتوں کے دریچے تم پر بند رہیں گے۔ پھر اس نے منظم طریقہ سے کھانے کے ٹیبل کرسیاں لگواکر چھری کانٹے سے کھانے کی تربیت دینا شروع کی، لباس میں شلوار قمیص ، پاجامہ کی جگہ کوٹ پتلون اور گلے میں صلیب کا نشان ٹائی پہنائی، سر ننگا یا اس پر انگریزی ٹوپ رکھا۔ رفع حاجت کے کے لیئے انگریزی طریقہ کھڑے ہو کر ، کھانے میں حرام حلال کی تمیز ختم کردی،السلام علیکم کی جگہ وقت کے مطابق good کا لفظ استعما ل کیا۔ کھانے کے طریقہ میں انداز وحوش (چلتے پھرتے چرنا چگنا) کی تربیت بطور خاص دی۔ ان تمام تر امور میں اس امر کو ملحوظ خاطر رکھا گیا کہ کہیں سنت رسول ﷺ درانداز نہ ہو۔ہمارے سیدھے سادھے مسلمان ان چالوں کو نہ سمجھے ۔ مگر انگریز نے بغیر کسی لیت لعل کے برصغیر سے اپنا بوریا بسترا کیوں لپیٹا، وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکا تھا۔ کہ جس مقصد کے لیئے علامہ اقبال، قائد اعظم اور دوسرے مفکرین امت جدوجہد کررہے تھے ، اس مقصد کی کی تکمیل کو کسی حد تک ناممکن بنا دیا۔ نظام تعلیم اس قدر ناکارہ اور بھونڈا کردیا کہ مسلم قوم کا مستقبل دھندلا گیا۔ انگریز اس بات کو خوب جانتا تھا کہ مسلمانوں پر اللہ تعالٰی کی رحمتوں کا فقط ایک ذریعہ ہے اور وہ ہے لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة حضور سیدالمرسلین ﷺ کے سنت مبارکہ پر عمل اللہ کی رحمتوں کے حصول کا واحد ذریعہ ہے۔ اسی سے مسلم امہ کا تشخص قائم ہوتا ہے جب ایک سازش کے ذریعہ اس تشخص کو ختم کردیا گیا اور نظام تعلیم کو کفر کے رنگ میں ڈبو دیا گیا تو اب کیا خاک نتیجہ نکلے گا۔ حصول پاکستان میں کامیابی کے بعد یہ مملکت اسلامی تشخص کی آئینہ دار ہوتی اگر ارباب حکومت پورے اسلام میں داخل ہوتے۔ 1949 میں قرارداد مقاصد کی منظوری گویا کہ اسلامی پاکستان کی بنیاد رکھ دی گئی۔ مگر وہ کون لوگ تھے جنہوں نے چھ سال تک پاکستان کا آئین نہ بننے دیا۔ حقیقت کے اظہار میں کوئی باق رکھنا منافقت ہوگی۔یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے لمبی داڑھی والے سے تربیت حاصل کی تھی اور پاکستان کے تمام محکمو ں پر آکر قابض ہوگئے۔ بلاتاخیر انہوں نے انگریزی زبان کو دفتری زبان بنایا۔ انکی طرز معاشرت فرنگی تھی۔ نظام وہی تھافرق صرف یہ تھا کہ فرنگی ان کا آقا تھا یہ اسکے غلام۔ ذرا اس دور کا تہذیبی نقشہ بھی سامنے آجائے۔ انگریز کی تہذیب میں کلبوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ جہاں تمام اخلاقی، مذہبی قیود سے آزاد ہوکر گناہ آلود ہونے کے مواقع بلا لعن طعن میسر ہوتے تھے انگریز کے جانے کے بعد ہمارے ارباب اقتدار و افسران نےاس خباثت کو برقرار رکھا ۔ جہاں اپنی بیگم کے ساتھ داخلہ انگریزی سوٹ ٹائی اور خاتون نیم برہنہ ممکن تھا۔پھر اندر جاکر اپنی پرائی بیگمات کی تمیز ختم ہوجاتی۔ بے حیائی اور بے غیرتی یہاں تک کہ کئی افسران کی بیگمات شراب کے نشہ میں بے سدھ فرش پر پڑی ہوتیں اور کلب کے بعض من چلے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہتے۔ لباس تلاش کرنے میں خاصی دواری ہوتی اور بعض اوقات صاحب کو گھر فون کرکے لباس طلب کرتیں۔ اللہ بھلاکرے جنرل ٹکا خان کا کہ اسے غیرت نے ان خرافات کو بند کرنے پر مجبور کیا ۔ جناب شہید وزیراعظم نے شراب نوشی پر پابندی لگائی، کلبوں اور میسوں میں شراب نوشی بند کردی گئی، فوجی چھاﺅنیوں میں مساجد کی تعمیر اور نماز کا کلچرجناب جنرل ضیاءالحق صاحب کے دور میں قائم ہوامگر لائی لگ تھے اسلامی کلچر قائم کرنے کے لیئے جو اقدامات انہوں نے کیئے وہ پروان نہ چڑھ سکے کیونکہ ان میں قوت ارادی کی کمی تھی۔ اور کچھ صلیبی طاقتوں کے لیئے نرم گوشہ بھی رکھتے تھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جناب ذوالفقار علی بھٹو کو امریکہ کے کہنے پر شہید نہ کرتے بلکہ انکے شانہ بشانہ کام کرتے۔ ہاں ایک اور کام جو انہوں نے کیاوہ پاکستانی لباس کا احترام تھا، شلوار قمیص اور شیروانی کے استعمال سے بڑے ہوٹلوں ، غیر ملکی دوروں اور وہاں کی تقریبات میں شلوار قمیص اور شیروانی نظرآنے لگی، بوقت نماز نماز کی ادائیگی اور اقوام متحدہ کے اجلاس میں قرآن کریم کی تلاوت ایک خاصا مسلم تشخص کا اظہار تھا۔ مزید انہوں نے نظام تعلیم میں زبان کی اہمیت کو سمجھا اور اردو کو ذریعہ تعلیم قرار دیا۔ اس پر مقتدرہ قوم زبان نے سائنسی اصطلاحات کے لیئے انگلش کی جگہ اردو کے الفاظ نکالے اور تمام کام مکمل ہوگیا۔ قوم زبان میں تعلیم اور اسلامی و عربی مضامین باقاعدہ مشنری سکول میں بھی رائج ہوگئے۔ امید کی جارہی تھی کہ اب قوم کو صحیح سمت مل گئی ہے مگر پھر وہی ہوا کہ جنرل صاحب کی غیر مستقل مزاجی رنگ لائی کچھ اپنوں اور کچھ غیروں کے دباﺅ میں آکر انہوں نے قوم تشخص ختم کردیا۔ اب بتائی کہ مسلم امہ کس طرح اپنی شان برقرار رکھے۔ اچھا آپ حضرات نے اکثر میڈیا پر دیکھا ہوگا کہ ہمارے عربی بھائی غیرملکی لوگوں سے ملاقات کے وقت اپنا قومی لباس زیب تن کیئے ہوتے ہیں، انگریزی جاننے کے باوجود عربی میں کلام کرتے ہیں اور مترجم کے ذریعے بات سمجھائی جاتی ہے۔ ہمارے چینی دوست بھی ایسا کرتے ہیں۔ لیکن اپنے پاکستان کے حکمرانوں ، اراکین اسمبلی، ججوں ، وکیلوں غرضیکہ کہ ہر سطح کے لوگوں کی ذہنی پستی یہ ہے کہ بولنے والے پاکستانی اور اردو باننے والے، سننے والے اردو بولنے اور سننے والے، اسمبلی میں انگریزی ٹپے اور عدالتوں میں انگریزی کی بالادستی دو طرح سے ہے اولا تو فرنگی کی خوشنودی کیونکہ متذکرہ بالا طبقہ ہر ماہ دوسرے ماہ فرنگی کی یاترا کےلیئے جاتا ہے خوفزدہ ہے کہ وہ جاتے ہی کھنچائی نہ کردیں کہ تم نے اپنے کلچر کی بات کیوں کی، دوسرا ہے احساس کمتری کہ اگر ہم نے اردو یا علاقائی زبان میں بات کی تو عوام کہیں گے کہ یہ کوئی لکھا پڑھا نہیں ہے۔ جیسا کہ ایک دفعہ میرے ساتھ ہوا کراچی کے ایک ہوٹل میں میں چائے پی رہاتھا کہ ایک آدمی ایک کاغذلیئے ہوٹل میں داخل ہوااس نے ہوٹل میں نظر دوڑائی دوتین آدمی سوٹ ٹائی والے بیٹھے تھے وہ انکے پاس گیا اور کاغذ دکھایا مگر انہوں نے معذرت کی ۔ وہ میری طرف نہ آیا کیوں کہ میں شلوار قمیص میں ملبوس اور اسوقت کچھ مختصر سی داڑھی بھی تھی۔ میں نے اسے بلایا تو اس نے کہا جی فرمائیے کیا بات ہے ۔ میں نے کہا یہ کاغذ دکھاﺅ۔ تو اس نے کہا کہ یہ تار ہے گھر سے آئی ہے اور انگریزی میں ہے۔ میںنے کہا یار دکھاﺅ تو سہی شائد میں پڑھ لوں۔ بادل نخواستہ اس نے کاغذ دیا اور میں نے اسے پڑھ کر اردو میں سمجھا دیا۔ اب میں نے اس سے پوچھا کہ آپ سب کے پاس گئے میرے پاس کیوں نہ آئے، جواب دیا کہ آپ حلیئے سے انگریزی لکھے پڑھے نہ لگتے رہے تھے۔ دیکھیئے یہ سوچ ہمیں ہمارے ارباب اقتدار و اختیار نے دی۔ خیر اب ایسا نہیں ہے۔ کئی اعلٰی تعلیم یافتہ افراد نے سنت رسول داڑھیاں رکھ لی ہیں اور کئی سنت رسول رکھنے والے افراد نے علم میں بھی کمال حاصل کیا ہے۔ یہی تو اسلامی تشخص ہے جو ہمیں قائم کرنا تھا۔ برسبیل تذکرہ سنت رسول سے اعراض کرنے والوں کے لیئے توجہ دلاﺅ نوٹس ہے کہ بابا گرونانک دنیا سے کنارہ کش، جنگلوں بیابانوں میں رہتے رہے اور انکے جسم کے تمام بال افزائش پاتے رہے اور حضرت اسی انداز میں دنیا سے تشریف لے گئے لیکن انکے ماننے والوں نے اور تو انکی کسی بات پر عمل نہیں کیا مگر افزائش گیسو(جسم کے تمام حصوںپر) میں اپنی مثال آپ ہی ہیں۔ اچھا تو انہوں نے اسے مذہبی فریضہ سمجھا ۔ سر کے کیس اوپر پگڑی اور بغل میں کرپان ، سکھوں کا تشخص بن گیا۔ جبکہ بابا صاحب کی گرنتھ میں سرور کون و مکاں صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت شریف اور حمد باری تعالٰی پر سکھ قوم نے توجہ نہیں دی۔ طرہ یہ کہ بابا صاحب کوئی تہذیبی، تمدنی یا دیگر شعبہ ہائے زندگی کے بارے ضابطہ نہیں دیا۔ لیکن افسوس ان نام نہاد مسلمانوں پر کہ اللہ کے آخری رسول ﷺ کا دیا ہوا پاکیزہ ضابطہ حیات ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اس ذات اقدس کے طریقوں کے خلاف عمل کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا قل ان کنتم تحبون اللہ فا تبعونی یحببکم اللہ ویغفرلکم اے محبو ب فرمادو کہ اگر تم اللہ پاک سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو پھر اللہ پاک تم سے محبت کرے گا اور تمہاری بخشش فرمائے گا۔ زندگی کے ہر پہلومیں کتنی پاکیزہ اور عمدہ رہنمائی ہے۔ قومی تشخص اخلاق و کردار، تہذیب و تمدن ، معیشت ، عدل و نصفت، عبادات، مجاھدات، جہاد، حقوق اللہ و حقوق العباد کی حسین و جمیل ، پرکیف ، پرسکون اسوة حسنة کے نادرو نایاب گراں مایہ عالم وجود سے عالم فنا کی جانب جانے تک کے یہ ضابطے امت کے لیئے قابل فخر سرمایہ ہے۔ ڈھاکہ کے پلٹن میدان کا اندوہ ناک منظر دیکھیئے ایک لاکھ مسلم افواج ایک طرف کھڑی ہیں انکا سپہ سالار انکے آگے کھڑا ہے۔ چہروں پر افسردگی، مارے خجالت کے گردنیں جھکی جھکی، سامنے سومنات کے پجاری خوشی و مسرت کے شادیانے بجا رہے ہیں، آج محمود غزنوی، شہاب الدین غوری کوئی نہیں کہ جنہیں دیکھ کر بت پرستوں کے گٹوں سے انکا بول و براز بہ جائے، ان کا جرنیل بابا گرونانک کا پیروکارطویل ریش اور سر پر روائتی مذہبی تشخص کی نشانی پگڑی بڑے کروفر کے ساتھ آتا ہے، لشکر اسلام کی حالت زار دیکھ کر فرشتے افسردہ ہیں، آسمان ماتم کنا ں ہے کیوں کہ انہوں نے یوم الفرقان کا منظر بھی دیکھا جب نہتے تین صد تیرہ نے شان و شوکت والے لشکر کی تباہی کردی۔ پھر انہوں نے قرآں کریم کی ان آیات کریمہ کو بھی سنا کہ تم دس ایمان والے سو کافروں پر بھاری ہونگے اور اگر تم کمزور بھی ہوئے تو پھر بھی سو دو سو پر غالب ہونگے ۔ عجب منظر ہے کہ آج ایک لاکھ مجاہدین سومنات کے پجاریوں کے سامنے چوہے بنے ہوئے ہیں۔ اب دل کو دہلانے والا منظر دیکھا کہ سرور کون و مکاں کے امتی ہونے کا دعویدار کلین شیو آگے بڑھتا ہے اور گرونانک کے پیروکار کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے۔یہ ذلت آمیز نظارہ چشم فلک نے پہلے تو کبھی نہ دیکھا تھا۔ آخر آج کیوں دیکھا؟ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ وانتم اعلون ان کنتم مومنین اگر تم مومن رہے تو تم ہی غالب رہو گے۔ اس ذلت کی بنیا د رسول الثقلین ﷺ کی مسلسل نافرمانیوں میں مضمر ہے۔ آپ استفسار فرمائیں گے کہ وہ کیسے؟ ذاتی اعمال میں قرآن پاک کی تعلیم سے روگردانی، نماز روزہ اور حقوق اللہ سے فرار، حقوق العباد کی پامالی، مسلمان بھائیوں کا مال بے دریغ غصب کرنا کہ جسے اللہ نے حرام فرمایا۔ مسلمان بھائیوں کی عزتین لوٹنا کہ جنہیں اللہ نے حرام فرمایا، مسلمان بھائیوں کا بلاتامل خون بہانہ اور انکا قتل عام کرنا کہ جسے اللہ نے حرام فرمایا، اپنوں کو چھوڑ کر کفار سے امیدیں رکھنا، امریکہ کا ساتواں بحری بیڑا امیدو ں کا سہارا کیوں بنایا۔ اتنی عبرتناک سزا ملی۔ سومنات کے پجاری ایک لاکھ مسلمان مجاہدین کو ہانک کر لے گئے۔ بت پرستوں نے انکے ساتھ کیا سلوک کیا۔ اس بارے اگر کوئی جنگی قیدی مل جائے تو اس سے پوچھ لیں۔ حضرت اقبال ایسے واقعات پر فرماتے ہیں: ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خوگر ہیں ۔ امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں
بت شکن اٹھ گئے ، باقی جو رہے بت گر ہیں تھا براہیم پدر، اور پسر آزر ہیں

پرویز مشرف نے کہا کہ کیا ہم نے دنیا بھر کے مسلمانوں کا ٹھیکہ لے رکھاہے، اس نے خود اقرار کیا ہے کہ اس چھ صد سے زائد مسلمان مجاہدین کو پکڑ کر صلیبیوں کے سردار امریکہ کے حوالے کیا تھا اور ڈالر لیئے تھے، قارئین کرام ! کیا اسلام میں مسلمان کو پکڑ کر کفار کے حوالے کرنا جائز ہے؟ جبکہ قرآن فرماتا ہے کہ انما المومنون اخوة بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ کیا کبھی کسی فرنگی صلیبی نے بھی اپنے کسی ہم مذہب کو پکڑ کر مسلمانوں کے حوالے کیا؟ خبیث گستا خ امریکی پادری نے کتنا بڑا جرم کیا، ہمارے مسلمان حکمرانوں نے کیا کیا ؟ محض چند بیانات دے کر عامة النا س کو خاموش کردیا، کتنے خبیثوں نے سرور کون و مکاں ﷺ کی شان میں گستاخیاں کیں ، بائیں مسلم حکمران کہ انہوں نے کبھی غیرت ایمانی کا مظاہرہ کیا؟ کیا خبیث صلیبیوں سے ان گستاخوں کو قرار واقعی سزا دینے کے لیئے حوالگی کا مطالبہ کیا؟ ہائے افسوس ! اب یہ اقتدار اور دولت کے پجاری غیرت ایمانی سے ناآشنا ہوگئے ہیں: علامہ فرماتے ہیں ۔ منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک ۔ ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی ، اللہ بھی ، قرآن بھی ایک ۔ کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

ہمارے حکمران ہی دین سے دور ہیں: کون ہے تارک آئین رسول مختار؟ ۔ مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعار اغیار؟ ۔ ہوگئی کس کی نگاہ طرز سلف سے بیزار؟

ایسے ہی ایمان باختہ ارباب اقتدار و اختیار کے بارے علامہ نے فرمایا: قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں ۔ کچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہیں!

یہ لوگ صلیبیوں کی رضا چاہتے ہیں انہیں اللہ اور رسول ﷺ کی رضا کی پرواہ نہیں۔ یہ تو چاہتے ہیں کہ امریکی صلیبی خبیث بس اتنا کہہ دیں کہ یہ لوگ اپنے مسلمان بھائیوں کو خوب قتل کر رہے ہیں بس اس پر پھولے نہیں سماتے۔ مجاہدین اسلام کے قتل پر اظہار مسرت کرتے ہیں، امریکی خبیث ہمارے غیرتمند قبائلی مسلمانوں پر ڈروں حملے کرکے جوانوں، بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کا قتل عام کررہے ہیں، سینکڑوں میل دور پہاڑی علاقوں میں مسلمان امریکی بربریت کا شکار ہوتے ہیں تو ہمارے وزیر داخلہ امریکی خوشنودی کے حصول کے لیئے مبارکبادی کا بیان جاری کرتا ہے۔ خبیثوں کا ساتھی بھی خبیث ہے۔ کیا یہی ان کی مسلمانی ہے؟ انہی کے بارے حضرت علامہ نے فرمایا:
شور ہے ہوگئے دنیا سے مسلمان نابود ۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود؟
انکی شکلیں دیکھو۔ وضع میں تم ہو نصاری، تو تمدن میں ہنود ۔ یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود!

یہ حکمران نہیں سمجھتے نہ سمجھیں ، یہ صرف رضائے صلیبیاں کے طالب ہیں مگر یاد رکھو : ہے عیاں یورش تاتار کے فسانے سے ۔ پاسباں مل گئے کعبے کو بت خانے سے

مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں ، جسم میں کسی عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم تکلیف میں بے چین ہوجاتاہے۔ اگر آج مسلم حکمرانوں میں روح اسلام ہوتی تو امریکہ اور اسکے صلیبی ساتھیوں کے اسلامی جمہوریہ لیبیا پر بلاجواز حملوں کا جواب دیتے ۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 127361 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More