یکساں نصاب تعلیم اور ریسرچ

 وزیر اعظم عمران خان مسلسل یکساں نصاب تعلیم کی اہمیت اجاگر کر رہے ہیں۔ جہلم میں القادر یونیورسٹی میں تقریب سے خطاب کے دوران بھی انہوں نے یکساں نصاب تعلیم کی بات کی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا نظام تعلیم ہی ہماری ترقی کے لیے بڑی رکاوٹ بن گیا ہے۔وہ انگلش میڈیم کو نوآبادیاتی نظام کے تحت تشکیل پانے والانصاب قرار دیتے ہیں، اردو کونہ تیتر ، نہ ہی بٹیرکا لقب دیتے ہیں۔ دینی مدارس میں نظام تعلیم کا ذکر بھی محتاط طور پر کرتے ہیں۔اس سب سے تین مختلف منتشر الخیال قومیں سامنے آرہی ہیں۔
آئین پاکستان، قرآن و سنت کے مطابق یکساں نصاب کی ضرورت ہمیشہ رہی ہے۔ دین تعلیم کو محدود نہیں کرتا۔ یہ دنیا میں پھیلنے، کائینات کے راز جاننے ، مسخر کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ سائنس، ریاضی، ٹیکنالوجی میں تحقیق کی دعوت دیتا ہے۔ ہماری ریسرچ کا یہ حال ہے کہ پاکستان کی کوئی یونیورسٹی عالمی رینکنگ میں پہلی پانچ یا دس کیا،پہلی پانچ سو یونیورسٹیوں میں بھی شامل نہیں۔یہاں جدید تقاضوں کے مطابق ریسرچ کا کوئی وجود ہی نہیں۔ نقالی ہی معیار بنایا گیا ہے۔تا ہم وزیر اعظم کا یہ درست کہنا ہے کہ مسلمان عاشق رسول ﷺ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اپنے معمولات زندگی میں سیرت النبی ﷺ کے فرمودات کو نہیں اپناتا۔یہ بھی سچ ہے کہ مسلمانوں کے اعلیٰ کردار کی وجہ سے ملائیشیا اور انڈونیشیا ہی نہیں بلکہ دنیا میں لاکھوں لوگ مسلمان ہوگئے۔یہ بھی سچ ہے کہ مغربی طرز معاشرت کو دیکھ کر ہمارا نوجوان تذبذب کا شکار ہے، مغربی ممالک سائنس و اینڈ ٹیکنالوجی کی وجہ سے ترقی کررہے ہیں لیکن روحانی اعتبار سے تنزلی کا شکار ہیں جس کا اظہار خود ویٹی کن پوپ نے بھی کیا ہے۔
تحقیق کی اہمیت ہے۔ جو ملکی ترجیحات میں سر فہرست ہوتی ہے۔

صوبوں اور وفاق نے طویل مشاورت کے بعد یکساں تعلیمی نصاب تعلیم پر اتفاق کیا ۔پھراگست 2021سے پرائمری جماعتوں میں رواں یکساں نصاب کی پڑھائی شروع کرنے کا اعلان ہوا۔اس کے بعد دوسرے اور تیسرے مرحلے میں سیکنڈری اور ہائر کلاسوں میں اس کا اطلاق ہونا ہے۔سرکاری، پرائیویٹ، دینی مدارس نے یکساں نصاب شروع کرنا ہے۔ کورونا نے گزشتہ دو سال سے تعلیم کا نظام درہم برہم کر رکھا ہے۔ اب اس کی نئی قسم ’’اومیکرون‘‘ سے لوگوں کو خوفزدہ کیا جا رہا ہے۔ جو برطانیہ میں بھی پہنچ چکی ہے۔ اس لئے پاکستان اور کشمیر میں اس کا داخل ہونا مشکل نہیں۔اس سے پہلے بعض سکولوں نے آن لائن سسٹم متعارف کیا۔ مگر یہ بھی ان کی فیس کی حد تک خانہ پری اور جواز تک محدود رہا۔ بچوں کے دو قیمتی سال متاثر ہوئے۔ قومی نصابی کونسل متحرک رہی۔ بلاشبہ یکساں قومی نصاب ہم سب کے دلوں کے بہت قریب ہے۔ یہ طبقاتی نظام تعلیم کو ختم کرنے میں کتنا معاون ثابت ہوگا، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ یکساں قومی نصاب میں زبان کے مسئلے پر کوئی ابہام نہ ہو، جس زبان میں بچے کو بہتر سمجھنے میں آسانی ہو، اساتذہ اسی زبان میں پڑھائیں ۔ انگریزی کو غیر ملکی زبان کے طور پر پڑھایا جائے۔ وفاقی حکومت ماڈل ٹیکسٹ بک تیار کررہی ہے جسے تمام صوبوں اور اکائیوں کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ صوبے اضافی مواد بھی متعارف کرا سکتے ہیں، تاہم یہ خیال رکھا جائے کہ بچوں پر اضافی بوجھ نہ پڑے۔ پبلشرز کتابوں کی اشاعت سے متعلق اخراجات سے پریشان ہیں۔ اگر ایک کتاب کی اشاعت کے لئے متحدہ علماء بورڈ، بیرونی جائزہ کمیٹی، ٹیکسٹ بک بورڈکو این او سی کی مد میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے دینا پڑیں تو وہ اسی کی آڑ میں مہنگی کتب مارکیٹ میں لائیں گے۔

اگر یکساں نظام تعلیم کا بنیادی مقصد تعلیم کے حصول میں ناانصافیوں کا خاتمہ اور تعلیم کے میدان میں طبقاتی خلیج کا سدباب کرنا ہے توپھر مہنگی تعلیم اور اجارہ داری سسٹم کا خاتمہ کرنا بھی ضروری ہے۔۔ تعلیمی ادارے نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور ذہن وکردار سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مستقبل کو روشن بناتے ہیں۔ان کا مقصدصرف کاروبار یا کمائی نہیں ہوتا۔ یہ دکانیں یا سٹورز نہیں ۔ اس لئے سکول کے انتخاب میں احتیاط لازمی سمجھی جاتی ہے۔ جب نیا تعلیمی سال شروع ہو تا ہے ، والدین کتابیں، سٹیشنری، یونیفارم، سکول بیگز، جوتے وغیرہ خریدنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ کتب خانوں اور سٹیشنری کی دکانوں پر رش لگ جاتا ہے۔ لوگ من مانی کرتے ہیں۔تعلیم کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں انتہائی بنیادی اور اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بچے ہی قوموں کا مستقبل ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت اسی مقصد کے تحت کی جاتی ہے۔ اس پر قومیں بہت توجہ بھی دیتی ہیں۔ لیکن لوگ تشویش میں مبتلا ہیں کہ آج کی تعلیم اور تعلیمی نظا م پڑھے لکھے ان پڑھ پیدا کر رہا ہے۔ ہم انسان کو ایک اچھا و ذمہ دارشہری بنانے کے بجائے اسے کمائی کی مشین بنا رہے ہیں۔ ہم تعلیم کو تجارتی مقصد کے تحت ہی دیکھتے ہیں۔ کمائی جس شعبہ میں زیادہ ہو، اس کا رحجان زیادہ ہوتا ہے۔بعض لوگ پڑھے لکھے بے روزگاروں کو دیکھ کر بچوں کو سکول جانے سے روک دیتے ہیں۔یہ گریجویٹ، ماسٹرز ، ڈگریاں رکھنے کے باوجود ڈگریاں ہاتھ میں اٹھائے سڑکیں ماپ رہے ہوتے ہیں۔ وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ بچے کوحوش سنبھالنے پر کسی ہنر یا کام پر لگا دیا جائے۔یہ اس طبقہ کا تعلیم سے اظہار ناراضی ہے۔ غم و غصہ کا اظہار ہے۔مگر ٹیکنیکل تعلیم کی اہمیت بیان کرتا ہے۔تعلیمی نصاب یکساں نہ ہونے سے ہر ایک کاا پنا نصاب ہے۔نگرانی اور قواعد و ضوابط کے بغیر قوم کا مستقبل تباہ کرنے والوں کو من مانی کی اجازت ملی ہوتی ہے۔ یا اس میں متعلقہ حکام بھی شریک ہوتے ہیں۔ بار بار کی یقین دہانیوں ، وعدوں اور اعلانات کے باوجود ایک نصاب تعلیم نہ بنایا گیا۔جیسے تعلیم وتربیت کو سنجیدہ ہی نہیں لیا گیا۔صرف این ٹی ایس یا کسی ٹیسٹنگ سروس کی خدمات سے نظام بہتر نہیں ہو سکتا۔ ان سروسز کی معتبریت یا کریڈیبلٹی پر بھی سوال اٹھے ہیں۔ادھر سرکاری سکولوں کی بہتاتمیں نجی تعلیمی ادارے پھل پھول رہے ہیں۔ نجی سیکٹر قابل قدر ہو گا اگر یہ کاروبار سے اوپر اٹھ کر دیکھے۔یکساں تعلیمی نصاب سے ذہنی انتشار اور خلفشار پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔کورونا وبا پھوٹ پڑنے کے بعد سے بچوں کا تعلیمی کیریئر متاثر ہوا تو بعض تعلیمی ادارے آن لائن تعلیم کی جانب متوجہ ہوئے۔ تا ہم اصلاحات کی کافی گنجائش ہے۔ معیار تعلیم کا مطلب ہم صرف زیادہ یا کم نمبرات یا نتائج کے حساب سے لیتے ہیں۔ رٹہ سسٹم ہے۔ درسی کتب اور نصاب مکمل نہیں کیا جاتا۔ چند سوال بچوں کو رٹنے کے لئے دیئے جاتے ہیں۔بچوں کو مضمون کو سمجھانے کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ہر گلی محلے میں آئے روز ایک کمرہ سکول کھلتے ہیں۔سکولوں نے من پسند نصاب مقرر کر رکھے ہیں۔بعض کا مقصد جیسے صرف کمائی بن گیا ہے۔ معصوم بچوں پر بھاری کتابیں لادھ دی جاتی ہیں۔ وہ کتابوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔والدین کے پاس بچوں کے لئے وقت نہیں۔کتابی اورذہنی بوجھ سے بچے کی نشو و نما رک جاتی ہے۔ اس کے پٹھے متاثر ہوتے ہیں۔ ہڈیاں دب جاتی ہیں۔ قد نہیں بڑھتا۔ شریانوں پر دباؤ سے خون کی گردش کم ہو جاتی ہے۔ زیادہ بوجھ خون کی گردش روکنے کا باعث بنتا ہے۔ یہ جسمانی نقصان ہے۔ سب سے بڑا اور تباہ کن نقصان زہنی ہے۔ کلاس ورک اور ہوم ورک سمجھنے کے بجائے رٹنے کی پریشانی۔ یہ بچے کی نفسیات پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ وہ ہر وقت دباؤ اور ٹینشن کا شکار رہتا ہے۔ اب تو کئی بچے اپنے ساتھ گھریلو ملازم لاتے ہیں۔ یا ان کے والدین ان کا کتابوں بھرا بستہ لے کر چلتے ہیں۔ جو بچہ بچپن سے دوسروں پر انحصار کا عادی ہویا اپنا بوجھ والدین پر لادھ کر چلنے پر مجبور ہو تو بڑا ہو کر اس کی کیفیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اپنا کام خود کرنے کی یہ حوصلہ شکنی ہے۔بعض سکولوں کا کتب خانوں ،یونیفارم ڈیلرزاور سٹیشنرز کے ساتھ جیسے ساز باز ہوتاہے۔یا یہ کمیشن لیتے ہیں۔یا تحائف کے لئے مک مکا ہوتا ہے۔ ایک کتاب کی بازار میں قیمت پچاس روپے ہے تو اس پر 20تا 60فی صد ڈسکاؤنٹ ملتا ہے۔ زیادہ خریداری پر اس سے بھی زیادہ دیا جاتا ہے۔ پبلشرز کا یہی طریقہ واردات ہے۔ وہ بھی من پسند قیمت لکھ دیتے ہیں۔ پھر جو وصول ہو ، غنیمت ہے۔ یہ ساز باز اور بڑا گٹھ جوڑ ہے۔

بعض سکول بچوں کو اپنے ادارے کی تشہیر کی خاطر ہی اپنے نام کے رجسٹر، کاپیاں ، وردیاں، سٹیشنری خریدنے پر مجبور کرتے ہیں۔ جو کاپی، رجسٹر بازار میں 50روپے کا ہو، اسے طالب علم سکول کے نام کی تشہیر کی وجہ سے سو ڈیڑھ سو روپے میں خریدنے پرمجبور ہوتا ہے۔سکولوں کے نام کی سٹیشنری معمول بن رہی ہے۔ جو والدین نرسری کلاس کے بچوں کی کتابیں پانچ پانچ ہزار میں خریدیں گے ۔ ان کی یونیفارم، لنچ، ٹرانسپورٹ کا بندوبست کیسے کریں گے۔ فیسیں بھی بھاری ہیں۔ کتابیں، سٹیشنری کی آسمان کو چھوتی قیمتیں۔ یونیفارم کے منہ مانگے دام۔ یہ سب کاروبار ایک مافیا کی شکل اختیار کر رہا ہے۔بعض ادارے ڈونیشن کے نام پر لوٹ مار کر رہے ہیں۔ لیکن کوئی احتساب، پوچھنے والا نہیں۔ اس پر مضحکہ خیز بات یہ کہ سکول کسی مخصوص کتب خانے یا یونیفارم دکان کے ساتھ سمجھوتہ کر کے والدین کو وہاں من مانی قیمت ادا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ جس استاد کا رزلٹ سرکاری سکول میں صفر ہے وہی استاد اپنی اکیڈمی کھول کراچھا رزلٹ دیتا ہے۔ سرکاری سکول کا استاد اپنا بچہ پرائیویٹ سکول میں داخل کرتا ہے۔ تمام سرکاری ملازمین پر ان کے بچے سرکاری سکولوں میں داخل کرنے اور علاج سرکاری ہسپتالوں سے کرانے کی پابندی ہوتو سرکاری سکولوں ، ہسپتالوں کا معیار بلند ہو سکتا ہے۔ اس سے پہلے تعلیمی پالیسی پر خاص توجہ نہیں دی گئی۔ دینی تعلیم کو نصاب میں شامل کرنے سے بچوں کی اخلاقیات درست ہوں گی۔تعلیم وفاق کے پاس رہے تو ملک بھر میں قومی تعلیمی پالیسی تشکیل کامیاب گی۔ سکولوں کی رینکنگ کا نظام ہو۔انکریمنٹ ترقیابی کارکردگی سے مشروط ہوں، سرکاری تعلیمی اداروں میں تعینات اساتذہ اپنے بچے پرائیویٹ اداروں کے بجائے اپنے ادارے میں داخل کریں۔ وزیر، مشیر،بیوروکریٹس ، اعلیٰ عہدیدار اپنے بچے اپنے علاقے کے سرکاری ادارے میں داخل کریں، تب بہتری متوقع ہے۔ تعلیمی نصاب ایک ہو،تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ہو،تمام شعبہ جات میں جدیدریسرچ کوترجیح دی جائے تو یکساں تعلیمی نصاب قومی سوچ پیدا کر نے میں مددگار ثابت ہو سکے گا۔



 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 484051 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More