سلیتے میں میخ نہ رکھیو

سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل جہانگیر کرامت کے درمیان ایک سازش کے تحت اختلافات کا بیج بویا گیاتو جنرل جہانگیر کرامت نے ٹیک اوور کا مشورہ نہ مانا اور استعفٰی دے دیا۔ میاں نواز شریف دوبارہ بلکہ سہ بارہ اقتدار میں آئے تو نیشنل سیکورٹی کا ادارہ نہ صرف قائم ہو چکا تھا بلکہ اس ادارے کا سربراہ بھی موجود تھا۔

نوائے وقت نے جنرل کرامت کے استعفے پر تبصرہ کرتے ہوئے حضرت امیر خسرو کا شعر نقل کیا ،
سلیتے میں میخ نہ رکھیو۔۔۔۔۔۔۔۔لشکر میں شیخ نہ رکھیو

حضرت امیر خسرو ، حضرت نظام الدین اولیا شیخ الہند کے مرید خاص ، ماہر فوجی جرنیل ، بے مثال شاعر ، ادیب ، محقق اور علم موسیقی کے ماہر استاد اور کئی سروں کے موجد تھے۔حضرت امیر خسرو کے اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ بوری یا توڑے میں میخ یا کیل نہ رکھیں ۔ غلے کی بوری میں رکھی میخ یا کیل بوری میں سوراخ کر دیتا ہے اور آخر کار بوری پھٹ جاتی ہے، اسی طرح فوج میں کاروباری لوگوں کو شامل نہ کریں چونکہ ان کا ذہن عسکریت کی طرف مائل نہیں ہو سکتا۔بہرحال یہ حضرت امیر خسرو کی رائے ہے جسے نوائے وقت نے نقل کیا ۔جنرل جہانگیر کرامت کا تعلق سیالکوٹ کی شیخ برادری سے ہے۔ وہ ایک مدبر جرنیل اور نفیس شخصیت کے مالک ہیں اور سنا ہے آج کل امریکہ میں کسی تھنک ٹینک کے سربراہ ہیں۔

لفظ شیخ کے معنی وسیع ہیں یہ کوئی قوم یا قبیلہ نہیں بلکہ وصف اور پیشہ ہے۔ اسی طرح راجپوتی ایک وصف ہے۔ قوم یا قبیلہ نہیں فی زمانہ بہت سی قومیں اور قبیلے مفادات کے پیش نظر باہم ملکر ایک کارٹیل ، مافیا یا گروہ کی صورت اختیار کر لیتے ہیںاور دیگر قبائل کے خلاف ہم آہنگ ہو کر برادری ازم ، قبائلی، علاقائی اور لسانی تعصب ، بغض، کینہ ، غیر اخلاقی ، غیر سماجی اور غیر انسانی رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔ ایسے رویوں کے حامل اشخاص ریاست اور معاشرے کے وجود کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ریاست اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے، اور معاشرہ بکھر کر قصہ ماضی بن جاتا ہے ۔ میرے نزدیک کشمیر کی غلامی اور کشمیریوں کی بدحالی میں ایسے رویوں کا بھی عمل دخل ہے۔ ایسی شخصیات کی ایک بڑی کھیپ کرپشن ، لوٹ کھسوٹ اور منشیات فروشی جیسے گھناونے کاروبار کی کمائی سے ارب پتی بن کر کشمیر کی سیاست کے مدارالمہام ہیں ۔ اور ان کی برادریاں اور قبیلے ان پر اس لیے فخر کرتے ہیں چونکہ انھوں نے حکومتی زور پر دیگر برادریوں اور قبیلوں کے نہ صرف حقوق چھین رکھے ہیں بلکہ انھیں غلاموں سے بھی بد تر سطح پر لا رکھا ہے۔ جس خطہ زمین یا ریاست پر ایسے پست ذھن اور جرائم پیشہ حکمران ہوں وہاں آذادی اور انسانیت کی بات کرنا مخلوق خدا اور الہٰی احکامات کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔

کشمیر کی غلامی کی تاریخ گواہ ہے کہ پانچ سو سالہ مسلسل غلامی کی بنیاد فرقہ واریت، قبائلی تعصب، برادری ازم، نفرت اور ذہنی و اخلاقی پستی پر استوارکی گئی۔ شیخ سعدی فرماتے ہیں،
گل مزن کا گل مزن دیوار بے بنیاد را
خدمت یک سگ نہ از آدم کم زاد را

جس دیوار کی بنیاد کمزور ہو اس پر سیمنٹ لگانے سے مضبوطی نہیں آتی۔ اسی طرح بہتر ہے کہ ایک کتے کی خدمت کرو نہ کہ کم ظرف اور کم مائیہ شخص کے پیچھے چلو۔ آگے فرماتے ہیں کہ ،
آدم کمزاد گر عاقل شو د ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گردن زند استاد را
کمینہ ، کم ظرف اور کم مائیہ شخص اگر عقلمند ہو جائے تو وہ سب سے پہلے اپنے استاد کی گردن کاٹتا ہے۔ اسی ضمن میں لکھتے ہیں کہ
گرگ ذادہ گرگ شود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گرچہ باصحبت آدمی شود

بھیڑئیے کا بچہ بھیڑیا ہی رہتا ہے چاہیے اس کی پرورش آدمیوں کے درمیان ہی کیوں نہ ہو۔ امام غزالی نے سیاست کے چار درجے ، ابن خلدون نے دو اور میکاولی نے ایک لکھا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ حکمران کو لومڑی کی طرح مکار اور بھیڑئیے کی طرح خونخوار ہونا چاہیے۔ کوتیلیہ چانکیہ بھی ایسے ہی خیالات کا حامی ہے ۔ یونانی فلاسفہ ان سے بھی دو ہاتھ آگے تھے۔ وہ بد اخلاق ، بے اصول اور قوانین سے مبرا اشرافیہ کو معاشرے میں اعلٰی مقام دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک غلاموں، عورتوں اور عام لوگوں کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی ان کے کوئی حقوق ہیں۔

فرمان الہٰی ہے کہ مخلوق میرا کنبہ ہے۔ پھر فرمایا قتل سے فساد ذیادہ بدتر اور گھنائوناں جرم ہے۔ جس نے ایک شخص کو ناحق قتل کیا گویا اس نے سارے انسانوں کا قتل کیا۔ جس نے کسی کی ایک انچ زمین پر ناجائز قبضہ کیا گویا اس نے ساری دنیا کی زمین پر قبضہ کیا۔ دیکھا جائے تو پاکستان اور آزادکشمیر ایسے قاتلوں اور مجرموں کی آماجگاہ ہے۔ کارٹل، مافیا اور قاتل سیاست اور حکومت پر قابض ہیں اور ان کے ہمنوا ایسے گھناونے کرداروں کے ترجمان ہیں ۔ میں نے اپنی مشروح تحریر میں گوتی تاریخ کا احوال اپنی جانب سے نہیں بلکہ مصنفین اور محقیقین کے حوالوں سے کیا تھا۔ گزشتہ تحریر کا مقصد ابن خلدون کے فلسفہ عصبیت کی بنیاد پر یہ کہنا مقصود تھا کہ جب تک عام لوگ خاندانی عصبیت کی پہچان نہ کر پائیگے تو وہ برادری ازم ، تعصب و نفرت کی دلدل میں پھنسے رہنگے۔ فرمان ہے کہ جس نے اپنی ذات کو پہچان لیا گویا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ فلسفہ عصبیت کی بنیاد اسی فرمان پر رکھی گئی ہے اور عصبیت کا مطلب تعصب نہیں بلکہ قبائلی ، خاندانی اور نسلی اوصاف کی پہچان ہے۔ فرمایا اے لوگو میں نے تمھیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ۔ پھر فرمایا تمھارے قبیلے ، خاندان اور برادریاںرکھیںتاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ اسلام کے اس عالمگیر پیغام کے ضمن میں علمائے حق ، اولیائے کاملین نے ضیغیم کتابیں لکھیں تاکہ انسان تعصب ، بخل اور شیطانی حربوں سے محفوظ ہو کر انسانیت اور آدمیت کے معیار پر قائم رہے۔ حدیث نبوی ہے کہ میری امت ایک دیوار کی مانند ہے اس کی ہر اینٹ دوسری سے جڑی ہوئی ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو انسانیت کی بنیاد اخوت، محبت اور بھائی چارے پر قائم ہے۔ ان اصولوں کی روح تقوٰی و پرہیز گاری ہے، نہ کہ جاہلیت اور ریاکاری۔ میرے گزشتہ مضمون کے ماخذ سر لیپل گریفن، سٹائن، محمد دین فوق، میرپور سے ہی تعلق رکھنے والے مولوی عبداللہ فرشی، راجہ خضر اقبال مصنف کتاب ''علاقہ کھڑی، تہذیب و ثقافت کے تناظر میں'' چوہدری غلام عباس مصنف ''کشمکش '' تاریخ رشیدی از مرزا حیدر دوغلات ، تاریخ بڈشاہی، تاریخ شاہ میری اور انوار ایوب راجہ کی تحریر ''ڈومیلی'' ہیں۔ گلاب نامہ ، پنج پیارے پیجاب دے، چج نامہ ، تاریخ خالصہ اور سکھوں کے عروج و زوال کی داستان از میجر شمشیر سنگھ چوہان اور دیگر تحریروں سے بھی میرپور کی تاریخ، قبائل اور ان کی گوتوں اور ذاتوں کے حوالے ملتے ہیں۔

ان تاریخی حوالہ جات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ راجہ پورس کا دارالخلافہ پاٹی کوٹی منگلا سے لیکر منڈی بہاالدین تک پھیلا ہوا تھا۔ منگلہ قلعے کی جگہ پر راجہ پورس کی بیٹی منگلا دیوی کا محل تھا اور وہ بروز منگل عام لوگوں کے درشن کیلیے باہر آتی تھی اور لوگ اس کی پوجا کرتے تھے۔ خطہ میرپور کے قدیم ترین باشندگان گھکھڑ یا ککڑ ہیں جو کیانی بھی کہلاتے ہیں۔ تاریخ کے مطابق یہ قبیلہ پانچ سو سال قبل مسیح میں بھی یہاں ہی آباد تھااور حکمران حیثیت رکھتا تھا۔ زین العابدین بڈھ شاہ نے بھی ان کی جاگیر بحال رکھی جو موجودہ ضلع میرپور، بھمبھر اور گجرات پر مشتمل تھی۔

آخری چک حکمران یعقوب شاہ شک گھکھڑ وں کے حکمران کمال خان گھکھڑ کا داماد تھا۔ مغلوں نے بھی گھکھڑوں سے اچھے تعلقات قائم کئے۔ شہنشاہ جہانگیر کی ایک بیوی گھکھڑ قبیلے سے تھی۔ بعد کے دور میں میرپور گجرات کی تحصیل تھی جبکہ پونچھ ضلع لاہور کی تحصیل تھی۔ سردار ابراہیم خان نے بھی اپنی کتاب کشمیر ساگا میں اس کا حوالہ دیا ہے۔ آئین اکبری اور ہمایوں نامہ میں بھی میرپور کے قبائل کا احوال ہے جب اس کا نام میرپور نہ تھا۔ میرپور راجہ میر خان کے نام سے منسوب ہے جو پہلا مسلمان گھکھڑ حکمران تھا۔ میرپور کے قبائل میں سوائے راجگان کے کسی قبیلے یا برادری کا ذکر تواریخ میں نہیں۔ عقل کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم سب اپنی اصل عصبیت اور انسانی معیار کی طرف لوٹ آئیں اور علمی بنیادوں پر اپنی زندگیوں کو استوار کریں۔

حضرت امیر خسرو کے فرمان سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسیات ایک صنعت ہے کوئی پیشہ نہیں جبکہ عسکریت ایک پیشہ ہے جس کی بنیاد خاندانی اوصاف اور عصبیت پر رکھی گئی ہے۔

 

asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 90275 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.