تین سالہ کارکردگی

قومی نعرے لگانے والا سب اچھا کی رپورٹ کا اسیر ہو کررہ جاتا ہے، ایک جگہ پڑھا بقول شیخ مجیب الرحمان ”جب میں گاڑی سے اترا تو لوگوں نے میرے اوپر پتھر برسائے اور بہت بُرا بھلا کہا“ تب مجھے احساس ہوا کہ عوام میں میری کیا مقبولیت ہے۔

ہم پاکستان عوام کتنی بھولی بھالی ہے، جب سے پاکستان بنا اور آج تک چکنی چوپڑی باتوں کا بھوکے رہے اور اپنے حقوق کے لیے ترستے رہے، جو بھی آیا اُس نے عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا اور ایسا بیانیہ پیش کیا جس کو سمجھا گیا کہ یہی ہمارا مسیحا ہے، اور ہمارے بنیادی مسائل حل کرتے ہوئے ملک پاکستان ماں جیسی ریاست بن کر بنیادی حقوق گھر کی دہلیز تک ملنا شروع ہو جائیں گے لیکن یہ سب خواب ہی تھے اور خواب ہی رہیں گے۔سیاستدان اور حکومتی کارندے عوام کی کمزوریوں کو سمجھ چکے ہیں اسی کے مطابق یہ اپنا رویہ اختیار کرتے ہیں، برسر اقتدار آنے کے بعد حکمرانوں کی دُنیا الگ ہو جاتی ہے، مفاد پرست حواری ایسا چنگل میں لیتے ہیں قومی نعرے لگانے والا سب اچھا کی رپورٹ کا اسیر ہو کررہ جاتا ہے، ایک جگہ پڑھا بقول شیخ مجیب الرحمان ”جب میں گاڑی سے اترا تو لوگوں نے میرے اوپر پتھر برسائے اور بہت بُرا بھلا کہا“ تب مجھے احساس ہوا کہ عوام میں میری کیا مقبولیت ہے، یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ میرے اپنے مجھے خواب خرگوش میں مبتلا کیے ہوئے تھے کہ سب ٹھیک ہے، اور یہ سب ٹھیک کا جملہ سب ہی سننا پسند کرتے ہیں، اب چلتے ہیں موجودہ حکومت جناب عمران خان نیازی کے تین سالہ کارکردگی کی طرف! جلسے جلوس شروع ہوئے، الیکڑانک اور سوشل میڈیا نے بے اختیار اور بے انتہاکوریج دی، عمران خاں چونکہ پڑھا لکھا تھا، اس نے تعلیمی انداز کو اپنا ہتھیار اپنایا اور ایک موٹیویشنل سپیکر کی طرح لوگوں کو موٹیویٹ کرتے ہوئے آگاہی دینے کی کوشش کی، جس سے پڑھا لکھا طبقہ بڑا متاثر ہوا، جلسوں میں بڑی بڑی سکرین نصب کرتے ہوئے پریزینٹیشن پیش کی جاتی بالکل بین ہی اس طرح جسے عوام چاہتی تھی،انہی باتوں نے مجھے بھی اپنا گرویدہ بنا لیا۔ میں خود بھی ان کی جسٹیفکیشن کے لیے لمبی لمبی دلیلیں پیش کرتا، البتہ یہ ضرور کہتا تھا کہ اسے پہلے پی سی بی کا چیئرمین بنا کر دیکھ لیا جائے کہ اس کی باتوں اور عملی اقدام میں کتنا خم دم اور ہوم ورک ہے۔۔۔ خیر عمران خاں کے جلسے زور پکڑتے گئے ہر جلسہ پہلے سے زیادہ زور پکڑتا گیا، عوام اسے اپنا مسیحا سمجھنا شروع ہو گئی عین اسی طرح جس طرح بھٹو صاحب نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند کیا (کیونکہ اس وقت پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے چند برس ہی ہوئے تھے لوگوں کے زخم ابھی تازہ تھے لہذا روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرہ نے ایک مرہم پٹی کا کام کیا)۔عمران خاں صاحب نے بڑے ہی خوبصورت انداز میں سابقہ حکومتوں کے اعداد و شمار پیش کرنا شروع کئے۔ملکی کرنسی نیچے گرے تو کیا ہوتا ہے، پٹرول کا ریٹ یہ ہے بین الاقوامی سطح پر یہ ہے اور پاکستان میں ایسا کیوں۔ یہ پیسہ کن کی جیب میں جاتا ہے، ایسے ایسے گوشوارے اور لیکچرز ڈلیور کیئے جسے سن کر ہر بندہ ان کا دیوانہ ہو گیا، اور دو سو فیصد پُر امید ہو گئے کہ اب پاکستان اپنا کھویا ہوا مقام پھر سے حاصل کر ے گا، پاکستانی کرنسی اپنی اہمیت کی طرف گامزن ہو جائے گی، ڈالر اپنی موت آپ مر جائے گا،روپے واپس ٹیڈی پیسے اور آنے کی قدر و منزلت کو چھو لے گا!! بے روزگاری ختم ہو جائے گی، نوکریوں کا فلڈ ہو گا، دنیا باہر سے نوکری کے لیے پاکستان آئے گی، میری کابینہ نہایت ہی مختصر ہوگی، پروٹوکول ختم ہو جائے گا، بے مقصد اخراجات کم کرتے ہوئے میں خود وزیر اعظم استعمال میں نہیں رکھوں گا، گورنر ہاؤس کو لائبریری یا یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا جائے گا وغیرہ وغیرہ، یہ سب جلسوں میں اس انداز میں گانوں کی دھن پر پیش کیا جاتا کہ کمال ہے اندازِ بیان تھا۔ حکومت بن گئی وزیر اعظم کا حلف اٹھا لیا گیا۔ لوگوں کی امیدیں اب پوری ہونے کو تھیں، ان کی ہر تقریر کو ہمہ تن گوش ہو کر سنا جاتا، پالیسیوں کو جانچا جاتا لیکن کوئی پرا مید خبر نہ ملی، پہلی بات یہ کہ ”گھبرانا نہیں“ نے زور پکڑا، نوے دن کی کارکردگی قوم کے سامنے رکھی گئی، اس کے اعداد و شمار کسی کو یاد ہوں تو پلیزشیئر ضرور کرنا۔ چلتے چلتے تین سالہ کارکردگی بھی قوم کے سامنے پیش کر دی گئی۔۔۔ قوم اس کارکردگی کو کچھ اس طرح دیکھنا چاہتی تھی، جلسوں کی طرح ہی بازاروں، چوکوں، کھلے میدانوں میں بڑی بڑی سکرین نصب کی جاتیں۔ الیکشن سے پہلے والی تقریروں کو پہلے پیش کرتے تو اس کے مطابق اپنے تین سالہ کارکردگی کا موازنہ کرتے ہوئے قوم کے سامنے جواز پیش کیا جاتا اور اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ خاص کر وہ جلسے اور سکرین شارٹس جس میں کرپشن، کرنسی کا گرنا، مختلف سیکنڈلز، پٹرول کی قیمتوں کا تعین، قومی خزانے کی حفاظت والے چلا کر ان پر بحث کرتے ہوئے دلیل سے سمجھایا جاتا ہے کہ میرے تین سالہ دور کو میری ان تقریروں اور جلسوں سے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ تین سالہ کارکردگی ایسا دیکھنے کو کچھ نہیں ملا، حکومت سے پہلے ۵۵۱ روپے کلو گھی تین سالہ دور میں ساڑھے تین سو روپے کلو کیسے ہوا۔ کوئی دلیل پیش کی جاتی، بوڑھے پنشنرز کی پنشن میں اضافہ نہ کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ بتائی جاتی، اربوں ڈالر قرضہ لے کر تین سالہ دور حکومت میں بڑے بڑے پراجیکٹ کو قوم کے سامنے لایا جاتا۔۔۔ملک کی ترقی کے لیے پاکستانی فوج نے ایک سال کا بجٹ نہیں لیا اس روپے کو کہاں استعمال میں لایا گیا، اتنا کچھ ہونے کے باوجود پاکستانی کرنی ڈالر کے مقابلے پستی کا شکار کیوں ہوگی، اس پر دلیل دی جاتی، لیکن کچھ نہیں ہوا۔ ہاں عمران خاں صاحب کی تقریریں آج بھی تعلیمی لحاظ سے یا پھر پی ایچ ڈی کی پریزنٹیشن کلاس روم کے اعتبار سے واقعی بہت خوب ہیں اور اپنا مقام رکھتی ہیں۔ مزدور کی تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر ہوگی، سانحہ ماڈل ٹاون کے بے گناہ چودہ شہدا کا حساب لیا جائے گا، اپنے دور حکومت میں سانحہ ساہیوال ہوا، اسے بھی دلیل کے ساتھ واضح کیا جاتا، عام آدمی دھنیا چور کو حوالات میں بند کرنے میں دیر نہیں لگتی جبکہ ایک وزیر مشیر رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر پروٹیکشن آرڈر اور وقت سے پہلے ضمانت حاصل کر چکا ہوتا، انصاف کے معاملے پر بھی سیر شدہ گفتگو فرمائی جاتی، لیکن ایسا نہیں۔۔ عدالتی نظام اگر معیار کے مطابق نہیں تھا تو اس کی بہتری کے لیے کیا کام کیا کوئی دلیل پیش کی ہو۔ میری تنخواہ میں اضافہ کیا جائے میرا اس میں گزارہ نہیں ہوتا۔ریاست مدینہ کا سہارا لینے سے پہلے ریاست مدینہ کی تاریخ پڑھ لی ہوتی کہ کس خلیفہ نے اپنی کفالت کے لیے اپنے وظیفہ یا تنخواہ میں اضافہ فرمایا کوئی ایک دلیل پیش کی جاتی، لیکن ایسا کچھ نہیں۔ نتیجتاً یہی ثابت ہو رہا ہے کہ افغانستان کے سابقہ صدر اشرف غنی کی طرح سب ٹھیک اور اچھے کی رپورٹ دی جاتی ہے جس کی وجہ سے تین سالہ کارکردگی پیش کرتے ہوئے کوئی ایس دلیل نہیں پیش کی گئی جس سے عام آدمی کو ذہنی ریلیف ملتا، یا پھر شیخ مجیب الرحمن کی طرح عام پبلک میں جانے پر علم ہوگا کہ میرا دور حکومت کیسا تھا اور کیسا رہا۔۔ لوگ پتھر مار کر اور رنگ برنگے جملے کستے ہوئے کیوں استقبال کرتے ہیں، جب ہمیں پتہ ہے ایک مرنا ہے اور قبر میں جاناہے، تو پھر قبر میں سکول ملے یا نہ ملے ہر مسلمان نے انفرادی طور پر اپنے کیئے پر سکون یا عذاب سے ہمکنار ہونا ہے۔۔۔ مزید یہ کہ کروڑوں کی آباد میں دو اڑھائی لاکھ کا موٹر سائیکل خرید لینا یا چند ہزار ٹریکٹرڑ.. یہ کسی بھی ملک یا قوم کی معیشت ماپنے کا ہیمانہ یا اکائی نہیں...پلیز کوشش کرکے پرسکون ہو کر پچھلے ادوار اور اپنی تین سالہ کارکردگی کا تقابلی جائزہ تیار کرنا.. میرا معصومانہ اور ملنگوں والا سوال ہے۔۔ پوچھو ں تو مارو گے تو نہیں۔۔۔ جناب عزت مآب محترم وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب عمران خاں صاحب جب آئندہ اپنی حکومتی کارکردگی پیش کریں تو براہ کرم اپنی سابقہ تقریروں، قوم سے کیئے گئے وعدوں اور تسلی کے دیئے گئے لولی پاپ کو سامنے رکھتے ہوئے پیش کرنا یہی ایک مردقلندر اور سچے مسلمان حکمران کی ذمہ داری ہے۔۔اس میں کوئی شک نہیں آپ کی باتیں اور تقریریں دل موہ لینے والی ہیں۔ یہ وہی جملے ہیں جو عام پاکستانی چاہتا ہے، یہ تو روزانہ کی بنیاد پر اپنے حواریوں کو موٹیویٹ کرنے میں کامیاب ہو جاو تاکہ وہ آپ کا ساتھ دیتے ہوئے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔ یاپھر رسک لیتے ہوئے ان کرپٹ اور قبضہ مافیا ملک دشمن عناصر کو لائن میں لگا کر اڑا دو۔۔ تاریخ میں سنہرے حروف میں نام لکھا جائے گا۔ کم از کم آئندہ نصف صدی ایسے خاندانی ملک دشمن عناصر سے چھٹکارا حاصل ہو جائے گا۔۔۔ اور انشاء اللہ ملک پاکستان دُنیا کا ترقی یافتہ ملک بن جائے گا۔ اللہ کریم ہر پاکستانی کو اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے مثبت سوچنے اور کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔ آمین۔.
 

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 156810 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More