ہر خواہش پہ دم نکلے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میرے والد بتاتے ہیں کہ جب میری عمرصرف سات برس ہوا کرتی تھی تو تمہارے دادا کہا کرتے تھے کہ میرا بیٹا بڑا ہوکرایک جوان بہادر اور نڈر انسان بنے گا،صبح صبح کھیتوں کو پانی دیا کرے گا،جانوروں کا چارہ کاٹ کے لایا کرے گا،جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لائے گااور بازار میں لکڑیاںبیچ کر جب گھرواپس آیا کریگا تو اس کے ایک ہاتھ میں گھر کا سودا سلف ہوا کریگا اور دوسرے ہاتھ میں میرے حقے کیلئے تمباکو اور ماں کیلئے نسوار بھی ہوا کریگی،پھر شام کو ہم سب ملکر کھیتوں میں کام کیا کریں گے،جب فصل تیار ہو جائیا کریگی تو میرے بیٹا میرے ساتھ مل کر ساری فصل کاٹے گااوردن نہ جانے کونسی رفتا ر سے گزرتے گئے اورمیں جوان ہوگیا اور وہ سب کُچھ کرتا رہا جوتمہارے دادا کی خواہش ہوا کرتی تھی اُن دنوں گاﺅں میں ٹیلی ویژن تو دور کی بات بجلی تک نہیں آئی تھی اور مُجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی جبکہ موسم بہت سہانہ تھا اور تمہارے دادا بہت سخت پریشان تھے کہ آج ہی ہم نے فصل کاٹی ہے اور بارش تیز ہوگئی تو ساری فصل کے خراب ہونے کا خدشہ تھاادھر میں ریڈیو پرگیت سُن رہا تھاجس کے بول آج بھی میرے کانوں میں کل کی طرح گونجتے ہیں''آئے موسم رنگیلے سہانے''پھراچانک ایک زور دار چانٹا میرے منہ پر آن پڑا''گدھے اتنے بڑے ہوگئے ہو تمہیں احساس تک نہیں ہے کہ دریا پار گاﺅں میں کل رات میت ہوئی ہے اور آج تم ریڈیو کانوں سے لگائے بیٹھے ہو''

زور دار تھپڑ کی وجہ سے میرے کانوں سے دیر تلک سیٹیاں بجتی رہیں اور میں رسی اور کلہاڑالیئے جنگل کی جانب چل نکلا،پہاڑی پر پہنچتے ہی سستانے کیلئے ایک درخت سے ابھی ٹیک لگائی ہی تھی کہ اچانک سے میری نظر دریا پار اُسی گھر پرجا پڑی جہاں اگلے روز ایک بڑھیاکا انتقال ہوا تھا اور دور دراز سے افسوس اور فاتح کیلئے آنے والے لوگوں کی قطاریں اسی گھر کی جانب بڑھ رہی تھیں،جنگل میں اُداسی اور سناٹے کے سوا بھلااور کیا تھا ؟مُجھے فوراََ احساس ہوا کہ مُجھ سے غلطی ہوگئی تھی جس پر میرے والد بزرگوار نے مُجھے سزا دیتے ہوئے یہ یاد دلایا کہ دریا پار ہی سہی لیکن دُکھ اورالم کی گھڑی میں ہمیں ایک دوسرے کا احساس کرنا چاہیے،میں بہت شرمندہ تھا اور اپنے آپ کو برا بھلا کہتا ہوا لکڑیاں کاٹنے چل پڑا،جیسے ہی درخت کی ایک موٹی مگر سوکھی ہوا شاخ پر میں نے کلہاڑے کا وار کیا توبلبلوں اور چڑیوں نے چیخ وپکار شروع کردی،بلکہ ایک دو نے تو میری سر میں آکر چونچیں مارنی شروع کردیں کبھی ایک شاخ پر کبھی دوسری شاخ پر اور کبھی تو زمین پر رینگتی ہوئی سینہ کوبی کے انداز میں کُچھ خاص قسم کا احتجاج کررہی تھیں جبکہ میں دریا پار مرنے والی بڑھیا اور اپنے منہ پر لگنے والے طمانچے کے بارے گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھاکہ نیچے کھیتوں سے تمہارے دادا نے چلاکر کہا کہ'' ارے نالائق،احمق،اُلو بلبلوں کی چیخ وپکار پورے گاﺅں کو سنائی دے رہی ہے لیکن تم کتنے بے حس انسان ہو کہ اُسی درخت کو کاٹے جارہے ہو جس پر اُن بے چاری بلبلوں نے گھونسلے بنائے ہوئے ہیں خبردار!مت کاٹنا یہ درخت،آگے چلے جاﺅ دفعہ ہو جاﺅکسی دوسرے درخت سے کاٹ لاﺅ مگر کبھی بھی کہیں بھی چڑیوں کے گھونسلوں کو کوئی نقصان مت پہنچانا ،ورنہ رات کو میں تمہاری کھال اُدھیڑ دونگا اور'' بیٹا آج جب تم بھی سات برس کے ہوچُکے ہواور تمہاری ماں کی شدید خواہش پر رات کو ہم تمہاری ساتویں سالگرہ منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں،آج اس موقع پر مُجھے اپنے والد یعنی تمہارے دادا بہت یاد آرہے ہیں کیوں کہ آج میں بہت خوش ہوں کہ میرا بیٹا سات برس کا ہو چُکا ہے اور دوسری خوشی اس بات کی ہے کہ میرا بیٹا پہلی کلاس میں فرسٹ بھی آیا ہے ارے نہیں بیٹا میں کہاں فرسٹ آتا تھا میں تو کبھی اسکول کے پاس سے بھی نہیں گزرا،بہت غریبی کے دن تھے ہمارے زمانے میں تمہارے دادا گاﺅں کے وڈیروں کی زمینیں کاشت کیا کرتے تھے اور تمہاری دادی جان اور دادا جان مل کر سارا سارا سال محنت کیا کرتے تھے تب جا کر ہم بہن بھائیوں کا کہیں پیٹ پل پاتا تھا نہیں نہیں بیٹا اُس زمانے میں ایسا نہیں تھالوگ ایک دوسرے سے محبت کیا کرتے تھے ایک دوسرے کے دُکھ درد کو اپنا دُکھ درد سمجھاکرتے تھے بحرحال بیٹا ہر طرف خوشحالی ہوا کرتی تھی،ایسا ظلم تو ہم نے کہیں نہیں دیکھا جو آجکل ہورہا ہے،ہاں لالٹین جلایا کرتے تھے لیکن بہت سکون ہوا کرتا تھا زندگی میں تمہارے دادا جان مجھے بتایا کرتے تھے کہ اُس زمانے میں جس گھر میں کوئی موت میت ہو جایا کرتی تھی تو اُس گھر میں چالیس روز تک چولہا نہیں جلا کرتا تھا بلکہ گاﺅں کے لوگ ہی رنجیدہ خاندان اور اُن کے گھر آنے والے مہمانوں کی خاطر تواضع اور کھانے پینے کا بھی اہتمام کیا کرتے تھے،چالیس روز تلک گاﺅں کے کسی گھر میں شادی بیاہ میں گیت نہیں گائے جاتے تھے اور نہ ہی کوئی ڈھول تھاپ ہوا کرتے تھے تاکہ رنجیدہ خاندان کو اس سے رنج نہ پہنچے،بلکہ یہاں تک بھی ہوا کرتا تھا کہ لوگ شادی بیاہ کی تواریخ منسوخ کرکے آگے بڑھا دیا کرتے تھے ارے نہیں بھائی اُس زمانے میں دہشت گردی وغیرہ کا تو نام بھی ہمیں نہیں پتہ تھا کہ یہ کس بلا کا نام ہےنہیں بیٹا نہیں ہر گز نہیں اسکول کی چند کتابیں اور ضروری کاپیاں ہوا کرتی تھیں اتنا بوجھ تو اُس زمانے میں گدھے بھی شائد نہیں اُٹھایا کرتے تھے جتنا کہ آج کل تم لوگ اسکول بیگ کی صورت میں اُٹھاتے ہوہاں ہاں کیوں نہیں ہم لوگ جون جولائی کی چھٹیوں میں ضرور اپنے بیٹے کو گاﺅں لے کر جائیں گے بلکہ آپ کے دادا دادی کی قبر بھی آپ کو دکھائیں گے اور وہ سارا گاﺅں بھی دکھائیں گے جہاں آپ کے پاپاکا بچپن گزرا ہے،ارے بیٹا تم نے بھی آج کیا یاد دلا دیا مُجھے بیٹھے بھٹائے،مُجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن ہمارے وڈیروں کا ایک بیل پہاڑی سے گر کر مر گیا تھا تو تمہارے دادا جان نے دو دن تک رو رو کر اپنی حالت بری کر لی تھی اور وہ بھی کُچھ کھائے پیئے بغیرلیکن آج تو لوگ جانوروں کا احساس تو دور کی بات خود انسان کے ہاتھوں انسان خیر تم ابھی بہت چھوٹے ہو تمہیں ان باتوں سے کیا لینا تم جا کر گلی کے تمام دوستوں کو اپنی سالگرہ کا پیغام دے دوتاکہ شام میں خوب ہلا گلا ہو میں اور تمہاری ماں زرا شاپنگ کیلئے جارہے ہیں ،ہاں؟

ہیپی برتھ ڈے ٹو یوہیپی برتھ ڈے ٹو یوہیپی برتھ ڈے ٹو یوآئی ایم اے ڈسکو ڈانسرہپ ہپ ہرےہاہاہاہاہاہی ہی ہی ہی ہو ہو ہو ہو،ہم مستانے دیوانے کسی کی ہمیں نہیں پرواہ اجی سنتے ہیں ،اجی میں کہتی ہوں سنتے ہیں، توبہ ہے یہاں تو کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی،ارے دانش کے ابو برابر والوں کے ہاں عورتوں کے رونے چلانے اور دھاڑیں مارنے کی آوازیں آرہی ہیں خدا خیر کرے ذرا پتہ تو کرو آخر ہوا کیا ہے؟تم جا کر پتہ کر لو ناں تمہیں تو پتہ ہے کہ مہمان آئے ہوئے ہیں اور پھر آج ہمارے لاڈلے بیٹے کی سالگرہ ہے،شاباش تم جا کر پتہ کر کے آجاﺅ،ہم مستانے دیوانے کسی کی ہمیں نہیں پرواہ دل جو مانیں کریں گے وہی ہم ہمیں کسی سے ہے کیا؟ماشاءاللہ بھائی صاحب بہت بہت مبارک ہو آپکو دانش کی سالگرہ،بہت مزہ آیا،آئیے گا ناں کبھی آپ بھی ہمارے گھر پر بھابھی بچوں کو لیکر ارے یہ آپ کے گھر سے پانچواں گھر ہمارا ہے جی جی وہی اُس کے برابر والا جی شکریہ،بس جی اللہ کا دیا ہوا سب کُچھ ہے بڑے دونوں صاحبزادے بینک میں ہیں اور اُن کے ابو اپنا بزنس کرتے ہیں دانش کے ابو دانش کے ابو ذرا میری بات تو سُنیے ارے بند کردیجئے ٹیپ ریکارڈ وغیرہ محلے میں دو جنازے ایک ہی گھر میں آ چُکے ہیں اور آپ ہیں کہ گھر میں گانے چلائے جارہے ہیں ارے بہن کیا کہہ رہی ہو کس کے گھر میں دو جنازے خدا خیر کرے ارے میں کیا جانوں ہم تو اس محلے میں جُمعہ جُمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں آئے ہوئے ،ارے یہ ہمارے گھر سے پانچواں گھر جو ہے ،ہائے ہائے دونوں خوبصورت نوجوان نہ جانے اُن کی ماں کا کیا حال ہوگا،ہائے ہائے بیڑہ غرق جائے کمبخت مارے ان ڈکیتوں اور دہشت گردوں کا،ارے دونوں سگے بھائی تھے بے چارے ایک ساتھ دونوں ایک ہی بینک میں کام کرتے تھے کمبخت ماروں نے ڈکیتی کے دوران مار دیا اُن دونوں کو،ارے کمبخت مارو تمہیں موت آجائے تمہاری ماں کا کلیجہ بھی ایسے ہی جلے جس طرح آج نہ جانے کسی ماں کا جل رہا ہوگا دانش کے ابا چلو خدا کیلئے چلو اس شہر سے اب میں نہیں رُکوں گی ایک دن بھی میں کہتا ہوں بس کرو کہاں جاﺅ گی اس شہر کو چھوڑ کر آجکل تو گاﺅں دیہاتوں میں بھی یہی کُچھ ہو رہا ہے ،ہر طرف ہر جگہ جنگل کا قانون ہے ،کسی کو کسی کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہے،کوئی زمین سے مار رہا ہے تو کوئی آسمان سے وہ دیکھو خاتون بے ہوش ہوگئی ہیں ارے جلدی سے پانی لاﺅ کسی ڈاکٹر کو بلاﺅ(ٹیپ ریکارڈ سے ابھی بھی ہلکی ہلکی گانے کی آواز آرہی ہے) ہم مستانے دیوانے کسی کی ہمیں نہیں پرواہ
Syed Mehtab Shah
About the Author: Syed Mehtab Shah Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.