تاریخ کا ایک بےمثال اور عہدساز واقعہ

ماضی میں سوویت یونین گرم پانیوں تک پہنچنے کی ہوس میں افغانستان میں داخل ہو گئی تھی جس کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ وہ ایک بار جس علاقے میں گھس جاتی ہے، وہاں سے پیچھے نہیں ہٹتی، بلکہ مزید پیش قدمی کرتی ہے۔ افغانستان پر اُس فوج کشی نے پاکستان کے اندر شدید بےیقینی پیدا کر دی تھی اور خلیجی ممالک بھی خطرات کی زد میں تھے۔ امریکہ سوویت یونین سے ویت نام کی شکست کا انتقام لینا اور اُس کی عسکری طاقت پر کاری ضرب لگانا چاہتا تھا، چنانچہ اُس نے افغان مجاہدین کی اسلحے اور مالی وسائل سے مدد کی اور اقوامِ متحدہ میں ’آزاد ملکوں‘ کو روسی جارحیت کے خلاف منظم کیا۔ پاکستان نے مسلم ملکوں میں جہاد کی تحریک پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ آخرکار افغان مجاہدین کی قوتِ مزاحمت رنگ لائی اور فقط آٹھ برسوں کے اندر اندر سوویت یونین کی فوجیں بےدم ہو کر افغانستان سے انخلا پر مجبور ہو گئیں اور اُس کا جغرافیائی شیرازہ اِس طرح بکھرا کہ اُس کا وجود ہی ختم ہو گیا۔ ایک صدی پہلے افغانستان میں برطانیہ کا قبرستان آباد ہوا جس کی وسیع و عریض سلطنت میں سورج غروب ہی نہیں ہوتا تھا۔ اتنا بڑا واقعہ اِس لیے وقوع پذیر ہوا کہ افغان خواتین اپنے بچوں کی پرورش اور تربیت اِس طرح کرتی ہیں کہ وہ ہرگز کسی کی غلامی برداشت نہیں کرتے۔ اِسی لیے افغانستان کی تاریخ ایک آزاد قوم کی تاریخ ہے۔ سوویت یونین کی فوجوں کے انخلا کے تقریباً تیرہ برس بعد امریکہ میں نائن الیون ہو گیا اور پوری دنیا میں کہرام مچ گیا۔ امریکہ افغانستان میں طالبان حکومت کا سخت مخالف تھا، اُس نے اِس واقعے کو بنیاد بنا کر اُس کا تختہ الٹ دینے کا فیصلہ کر لیا۔ تمام طاقتیں اِس حقیقت سے واقف تھیں کہ نائن الیون میں افغان حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں، مگر بہانہ یہ تراشا گیا کہ وہاں اُسامہ بن لادن پناہ لیے ہوئے ہے جو القاعدہ کا روحِ رواں ہے۔ امریکہ نے افغانستان کے امیرملا عمر سے مطالبہ کیا کہ اسامہ بن لادن اُس کے حوالے کر دیا جائے۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ ہم اپنے مہمان دوسروں کے حوالے نہیں کرتے۔ امریکہ نے بحیرہ عرب سے اسامہ بن لادن کو ختم کرنے کے لیے افغانستان پر میزائل بھی داغا تھا، مگر وہ بچ نکلے اور سی آئی اے کی اطلاعات غلط ثابت ہوئیں۔ امریکہ نے اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے یہ قرارداد منظور کرائی کہ تمام ارکان افغانستان کو دہشت گردی کی سزا دینے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ امریکہ اپنی اور نیٹو کے اڑتالیس ممالک کی فوجوں کے ساتھ طالبان حکومت پر چڑھ دوڑا۔ نیٹو کے اُن اڑتالیس ممالک میں پوری مغربی دنیا کی افواج شامل تھیں۔ افغانستان پر فضائی حملے کے لیے جغرافیائی طور پر پاکستان سب سے موزوں تھا، چنانچہ امریکی وزیرِخارجہ نے پاکستان کے حکمران پرویز مشرف سے پوچھا آپ ہمارے ساتھ ہیں یا دہشت گردوں کے ساتھ۔

پرویز مشرف کی حکومت ایک ’اچھوت‘ حکومت تھی، کیونکہ اُنہوں نے منتخب وزیرِاعظم کو اندھیری کوٹھری میں بند کر کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ اُنہی دنوں امریکی صدر بل کلنٹن اسلام آباد آئے، تو اُنہوں نے جنرل پرویز مشرف سے ہاتھ ملانے اور تصویر کھنچوانے سے انکار کر دیا۔ جب امریکی وزیرِخارجہ نے اُن کے سامنے سات مطالبات رکھے، تو اُنہوں نے سارے مطالبات مان کر اُنہیں حیرت زدہ کر دیا۔ اتحادی فوجوں کو پاکستان کے تین ہوائی اڈے اور اَیئر اسپیس کی سہولتیں میسر آ گئیں۔ امریکہ نے کارپٹ بمباری کی جس سے تورا بورا کے پہاڑ کالے اور ریزہ ریزہ ہو گئے۔ پوری مغربی دنیا کے مالی وسائل، اُس کی تربیت یافتہ ہیومن فورس، اُس کے تحقیقاتی ادارے، اُس کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اور ماہرین اتحادی فوجوں کو لحظہ بہ لحظہ اعانت فراہم کر رہے تھے۔ طالبان کی حکومت ختم ہو گئی اور اُس کی جگہ امریکہ نے جعلی انتخابات کے ذریعے حامد کرزئی کی حکومت قائم کی اور بعدازاں اِنہی غیرجمہوری طریقوں سے ڈاکٹر اشرف غنی دو بار صدر منتخب کرائے گئے۔ پھر اُن حکومتوں کو استحکام بخشنے کے لیے تین لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل جدید فوج اور پولیس کے آہنی حصار کھڑے کیے گئے۔ فارن پالیسی میگزین کی ایک رپورٹ کے مطابق اِن انتظامات پر دو ٹریلین ڈالر (دو ہزار اَرب ڈالر) خرچ ہوئے،جو ضائع گئے۔ تاریخ کا یہ ایک عجیب و غریب اتفاق ہے کہ وائٹ ہاؤس کے جس کمرے سے امریکی صدر جارج بش نے افغانستان پر حملے کا اعلان کیا تھا، بیس برس بعد اُسی کمرے سے امریکی صدر جوبائیڈن 12؍اگست 2021 کو اِس امکان کا اظہار کر رہے تھے کہ طالبان تین ماہ کے اندر کابل پہنچ سکتے ہیں۔ اُنہوں نے یقیناً یہ اعلان سی آئی اے کے فراہم شدہ تجزیے کی بنیاد پر کیا ہو گا جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ زمین پر رینگتی ہوئی چیونٹی بھی مانیٹر کر سکتی ہے۔ اُس کی خفیہ معلومات اور تجزیوں کا یہ حشر ہوا کہ طالبان تین ماہ کے بجائے صرف تین دن میں کابل پہنچ گئے۔ اِس طرح پوری مغربی دنیا کی عسکری طاقت، سیاسی بصیرت اور آگے دیکھنے کی صلاحیت پرزہ پرزہ ہو کر کابل، قندھار، ہرات اور غزنی کے گلی کوچوں میں بکھر گئی ہے۔‘‘ افغان طالبان نے 15؍اگست کی صبح افغانستان کا جو پُرامن ٹیک اوور کیا ہے اور عام معافی اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کا جو عزم دہرایا ہے، وہ عصرِ حاضر کی سیاسی اور تہذیبی تاریخ کا ایک بےمثال اور عہدساز واقعہ ہے۔
 

Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 296903 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More