90واں یوم شہدائے کشمیر۔۔۔2

شیخ محمد عبداﷲ نے کشمیر کی آزادی کے لئے تحریک چلائی ۔برسوں جیل بھی کاٹی لیکن بالآخر دیگر عوامل سمیت جواہر لعل نہروکی دوستی اور اقتدار کی لالچ میں کشمیریوں کی قربانیوں پر پانی پھیردیا۔مقبوضہ ریاست کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے مودی حکومت نے چار سابق وزرائے اعلیٰ سمیت تمام بھارت نوزاوں کو جیل میں ڈال دیا۔ بعد ازاں ان کی رہائی کے بعد انہیں دہلی بلا کر کشمیر کانفرنس کا راگ الاپا۔ اب یہی لوگ اقتدار کے لئے مودی کی کشتی میں سوار ہو رہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ سمجھوتے کشمیریوں کو مہنگے پڑے ہیں۔ شیخ محمد عبداﷲ کی قید سے لے کر فاروق عبداﷲ ، عمر عبداﷲ ، محبوبہ مفتی کی قید کی ایک جیسی داستانیں ہیں۔ نیشنل کانفرنس کے ہمدرد اگر چہ شیخ صاحب کے احترام میں حقائق کو تسلیم کرنے سے گریز کرتے ہیں تاہم وہ آج اعتراف کرتے ہیں کہ شیخ صاحب بھارت کے ساتھ سمجھوتہ نہ کرتے تو آج صور تحال مختلف ہوتی ۔ لمحوں نے خطا کی ،صدیوں نے سزا پائی ۔ ورنہ کشمیری آج اپنی قیادت کی اناپرستی،مفادپسندی ،اقتدار اور مراعات کے حرص کی سزا نہ بھگت رہے ہوتے ۔ آج بھی بھارت نواز ایک دوسرے کو چکمہ دے رہے ہیں۔ گپکار اتحاد بھی اسی کی ایک کڑی تھا۔ مودی اور اس کے وزراء نے گپکار اتحاد کو گپکار گینگ قرار دیا۔ پھر یہ لوگ ان کے ساتھ ہی ایک میز پر جمع ہو گئے۔

موجود ہ مسلح جدوجہد کے دوران بھی بعض کشمیریوں نے یک طرفہ اور ذاتی مفادیااپنی پارٹی ،تنظیم یا ادارے کے مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلے کئے ۔مشاورت سے کنارہ کشی کی ۔جماعتی اور پارٹی بالادستی کا سہارالیا۔تعداد، نفری اور وسائل کے زعم میں مبتلاہوئے ۔ڈیڑ ھ ڈیڑھ اینٹ کی مساجد تعمیر کیں ۔جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔اب بھی کفارہ ادا کرنے کا وقت ہے ۔ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھاجاسکتاہے ۔اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگی جانی چاہیے ۔شیخ عبداﷲ کے حشر کوسامنے رکھ کر فاتوق عبداﷲ، عمر عبد اﷲ ، محبوبہ مفتی اپنی پالیسی پر ازسر نوغور کریں توغلط نہ ہوگا ۔یوم شہداء کشمیر صرف تقاریر، جلسے جلوسوں،نعروں کانہیں بلکہ عملی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے ،1931 ء سے اب تک لاکھوں کشمیریوں نے قربانیاں پیش کی ہیں ،ان قربانیوں کو نظر انداز کیا گیا اور زاتی مفاد کے لئے دہلی کے آگے گھٹنے ٹیکنے لئے تو کشمیری سوائے رسوائی کے اور کچھ حاصل نہیں کر سکتے۔شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ شہداء کے مشن کو جاری رکھنے کیلئے اتحاد واتفاق کے ساتھ خلوص ونیک نیتی سے مؤثر وبا مقصد عملی اقدامات کئے جائیں ۔ تحریک آزادی کو منجمد کرنے یا آئندہ نسلوں پر چھوڑنے کے بجائے سیاسی، عسکری، سفارتی اور میڈیا سمیت ہر محاذ پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے۔اور یکسوئی سے تحریک سے وابستہ لوگ متحرک کردار ادا کریں۔جو لوگ مفادات اور مراعات حاصل کرنے کے لئے یا اس کے بعدمختلف حیلے بہانوں، مجبوریوں، مصلحتوں، دباؤ، انتقام یا نا میدی سے منظرسے ہٹ گئے اور خود سائیڈ لائین ہو گئے ، وہ اﷲ تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دے سکتے ہیں۔ انہیں حساب دینا ہو گا۔ ’’ بیس کیمپ‘ کا کردار بھی متعین کرنا ہو گا۔ ’’ تم بھی اٹھو اہل وادی‘‘ پکارنے اور ترانے بجانے والوں کو بھی جواب دینا ہو گا کہ وہ کیوں خاموش ہو گئے اور اقتدار اور کرسی کے لئے شہداء کی قربانیوں کو کیوں بھلا دیا گیا۔کشمیر کاز، شہدا، قربانیوں کے نام پر سیاست کرنے والوں کو بلا شبہ عبرتناک انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ہمارا ایمان ہے کہ 5لاکھ شہدا کی قربانیاں کبھی رائیگان نہیں جائیں گی۔کشمیری ضرور آزادی حاصل کریں گے اور افغانوں کی طرح قابض بھارت کو بھاگنے پر مجبور کریں گے۔

آج آزاد کشمیر میں انتخابات کی مہم جاری ہے۔ ہر کوئی کشمیر کاز کو نظر انداز کر کے اپنے امیدوار ، اپنی پارٹی کے لئے میدان میں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اپنے امیدواروں کی جیت کے لئے انتخابی جلسے کرنے کا پروگرام ترتیب دے رہے ہیں۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری بھی آزاد کشمیر میں الیکشن مہم چلا رہے ہیں۔ دونوں نے گلگت بلتستان کے انتخابات کے دوران بھی الیکشن مہم چلائی۔ پھر بھی جیت پی ٹی آئی کی ہوئی۔ آزاد کشمیر کے الیکشن کا بھی یہی حال ہے۔ جس پارٹی کی اسلام آباد میں حکومت ہو، اسی کا پلڑا بھاری رہتا ہے۔ مسلم لیگ ن اس الیکشن میں پی ٹی آئی پر کشمیر فروشی کا الزام لگا کر اپنے منشور کو پروان چڑھا رہی ہے۔ کشمیر کی جدوجہد آزادی کو تیز کرنے کا کسی کے پاس کوئی پروگرام یا منشور نہیں۔ آج شہدائے کشمیر کا دن منایاجا رہا ہے مگر شہداء کے مشن کو پورا کرنے کا کسی بڑی جماعت کے منشور میں ذکر نہیں۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی اپنی جنگ مظفر آباد میں لڑ رہی ہیں۔ کشمیریوں کی عظیم قربانیوں کو جیسے فراموش کر دیا گیا ہے۔ شہداء کا مقدس مشن مظفرآباد کے اقتدار کے لئے نہیں۔ اس مشن کو نصب العین یا ترجیحات میں شامل نہیں کیا گیا۔ سبھی روزگار اور تعمیر و ترقی ، مہنگائی، کرپشن کے خاتمے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کشمیر کی آزادی کا کوئی پروگرام نہیں۔ صرف ٹحریک آزادی کا نام استعمال ہو رہا ہے۔ ہمارا موجودہ سیاسی سیٹ اپ جس قدر اپنی توانائی اور وسائل الیکشن جیتنے اور مخالفین کو شکست دینے میں لگا رہا ہے، اس کا اگر عشر عشیر بھی کشمیر کی آزادی کے لئے بروئے کار لایا جائے تو مثبت نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ کشمیریوں نے اپنا قیمتی اور مقدس لہو کسی اقتدار یا مراعات و کرسی کے لئے نہیں بہایا۔ کشمیریوں کے خون کو اقتدار یا سیاست کی نذر کرنا اس خون سے غداری ہو گی۔ توقع ہے کہ آزادی کے اس نام نہاد بیس کیمپ میں اقتدار کی جنگ کے لئے کشمیر کا نام استعمال کرنے کی روایت کبھی ختم ہو گی۔ شہدائے کشمیر نے اپنی جانیں مظفر آباد یا سرینگر میں کسی کو اقتدار میں لانے یا ہٹانے کے لئے نچھاور نہیں کیں۔ شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کا تقاضا ہے کہ کشمیری قیادت اس قوم پر ایک احسان کرے کہ وہ شہداء کی قربانیوں کو اپنے زاتی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کا سلسلہ بند کرے۔

 
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 484037 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More