توبہ کا طریقہ


علمائے کرام نے فرمایا کہ بندہ جن گناہوں میں مبتلا تھا ان سے توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ… دیکھا جائے کہ اس گناہ کا تعلق اللہ کے حقوق سے ہے یا بندوں کے حقوق سے؟ اگر اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سے کوئی حق ہے ،جیسا کہ ترکِ نماز کا مرتکب تھا تو اس گناہ سے توبہ اس وقت تک صحیح نہیں ہو سکتی جب تک قلبی ندامت کے ساتھ فوت شدہ نمازوں کی قضا نہ پڑھ لے،اسی طرح روزہ اور زکوٰة وغیرہ کا معاملہ ہے کہ جب تک سابقہ روزوں اور زکوٰة کی ادائیگی نہیں کرے گا اس وقت تک اس کی توبہ کامل نہیں ہوگی، اگر گناہ کسی کو ناحق قتل کا ہے تو اپنے آپ کو قصاص کے لیے پیش کرے، اگر اولیائے مقتول نے اس کا مطالبہ کیا …، ورنہ دیت ادا کرے،اگر کسی پر ایسی جھوٹی تہمت لگائی ہے جس سے ”حد “ لازم آتی ہے تواپنے آپ کو اس کے لیے پیش کرے،اگر قتل اور تہمت میں اسے معاف کردیا گیا تو ا خلاص کے ساتھ ندامت اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کافی ہوجائے گا،اسی طرح چور، ڈاکو ،شرابی اور زانی بھی توبہ کرلیں اور ان گناہوں کو ترک کریں اور اپنی اصلاح کریں تو ان کی توبہ درست ہوجائے گی۔اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو قدرت رکھتا ہو تو فورا صاحب حق کا حق ادا کردے، اگر فوری ادائیگی کی قدرت نہ ہو تو جتنی جلدی ممکن ہو قدرت ہونے پر ادائیگی کا عزم کرلے،اگر کسی مسلمان کو نقصان پہنچانے کا سبب اختیار کیا ہے تو فوری طور سے اس سببِ نقصان کوزائل کردے،پھر اس مسلمان بھائی سے معافی طلب کرے اور اس کے لیے استغفار بھی کرے اور اگر صاحب حق نے معاف کردیا تو یہ اس گناہ سے بری ہوجائے گا،اسی طرح اگر کسی دوسرے کو کسی بھی طرح کا ضرر پہنچایا تھا یا ناحق اسے ستایا تھا او ر اس صاحب حق سے ناد م ہو کر معافی مانگی اورآئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم بھی ہو اور برابر اس سے معافی طلب کرتا رہا، یہاں تک کہ اس مظلوم نے اسے معاف کردیا تو اس کے وہ گناہ معاف ہو جائیں گے۔ (تفسیر القرطبي:18/199،200،روح المعاني :28/158۔ 159، اللباب فی علوم الکتاب:19/211،212) یہی حال باقی تمام معاصی وگناہوں کا ہے کہ اگر حقوق اللہ سے تعلق ہے تو ذکر کردہ شرائط کے مطابق توبہ کرے اور اگر بندوں کے حقوق کا معاملہ ہو تو مذکورہ طریقہ توبہ کو اپنانے کے ساتھ حقوق کی ادائیگی کرے یا معاف کروائے۔

سلفِ صالحین کا طرزِ عمل
سلفِ صالحین کی رائے یہ ہے کہ جس شخص کی موت کسی نیک عمل، جیسے رمضان کے روزے یا حج یا عمرہ کے بعد واقع ہوجائے تو اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ جنت میں جا ئے گا ،خود اکابرین سلفِ صالحین عمر بھر نیک اعمال میں صرَف کرنے کے با وجود موت کے وقت توبہ و استغفار کا اہتمام کرتے اور اپنا عمل استغفار اور کلمہ طیبہ ”لاإلہ إلا اللّٰہ “پر ختم کیا کرتے تھے ۔علا ء بن زیاد رحمہ الله کا جب آخری وقت آپہنچا تو رونے لگے ،کسی نے ان سے رونے کی وجہ پوچھی تو فرمایا : اللہ کی قسم! میری یہ خواہش و چاہت ہے کہ توبہ کے ذریعے موت کا استقبال کروں ،ان سے عرض کیا گیا کہ اللہ آپ پر رحم فرمائے! آپ ایسا کرلیں، انہوں نے وضو کے لیے پانی منگوایا ،وضو کیا ،پھر نئے کپڑے منگوائے، انہیں زیب تن کیا، پھر قبلہ کی جانب رخ کرکے اپنے سر کو دو مرتبہ جھکایا ، پھر پہلو کے بل لیٹ گئے اور روح پرواز کر گئی۔ عامر بن عبد اللہ رحمہ الله وقت ِ اجل رونے لگے اور فر مانے لگے ایسے ہی وقت کے لیے عمل کرنے والے عمل کرتے ہیں، اے اللہ! میں آپ سے اپنی کمی اور کوتاہی کی معافی چاہتا ہوں اور اپنے تمام گناہوں سے توبہ کرتا ہوں ،پھر اس کے بعد مسلسل ”لاإلہ إلا اللّٰہ “کا ورد کرتے رہے، یہاں تک کہ روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی ۔عمرو بن العاص رضی الله نے موت کے وقت فرمایا:اے اللہ! آ پ نے ہمیں طاعت کا حکم دیا، ہم نے اس میں کوتا ہی کی اور آپ نے معاصی سے منع کیا، ہم ان کا ارتکاب کر بیٹھے، ہمارے لیے سوائے آپ کی معافی و مغفرت کے اور کوئی چارہ کار نہیں، پھر اس کے بعد ”لاإلہ إلا اللّٰہ “ کا ورد کر تے رہے، یہاں تک کہ موت نے آلیا ۔

توبہ کی دعوت
برادرانِ عزیز !آج انسان گناہ و معاصی کے بحرِعمیق میں ڈوبا ہوا ہے، کوئی نفس بشر خطا و لغزش سے بچا ہوا نہیں، لیکن مایوس ہونے کی قطعا ً ضرورت نہیں، ہر وہ شخص جس نے گناہ و معصیت کے ذریعے اپنے نفس پر ظلم وزیادتی کی ہے ،اسے اس بات کی خوش خبری ہو کہ اللہ پاک اپنے پاک کلام میں انہیں توبہ ورجوع کی دعوت بھی دے رہے ہیں اور یہ اعلان بھی فرما رہے ہیں کہ وہ تمام گناہوں کو معاف کرنے والے ہیں ، قرآن میں اللہ تعالی ٰ کا ارشادِگرامی ہے: ﴿قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ أَسْرَفُوا عَلَی أَنفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیْعاً إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیْمُ وَأَنِیْبُوا إِلَی رَبِّکُمْ وَأَسْلِمُوا لَہُ مِن قَبْلِ أَن یَأْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ﴾(زمر :53،54)(ترجمہ) کہہ دے اے بندو میرے! جنہوں نے کہ زیادتی کی ہے اپنی جان پر، آس مت توڑو اللہ کی مہربانی سے ،بے شک اللہ بخشتا ہے سب گناہ، وہ جو ہے وہی گناہ معاف کر نے والا مہربان اور رجوع ہو جاؤ اپنے رب کی طرف اور اس کی حکم برداری کرو پہلے اس سے کہ آئے تم پر عذاب، پھر کوئی تمہاری مدد کو نہ آئے گا۔(ترجمہ از : شیخ الہند) ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے:﴿وَإِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً ثُمَّ اہْتَدَی﴾․ (طہ:82) (ترجمہ) اور میری بڑی بخشش ہے اس پر جو توبہ کرے اور یقین لائے اور کرے بھلے کام، پھر راہ پر رہے۔(ترجمہ از : شیخ الہند) حضرت ابنِ عباس رضی الله عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :”مَن آیس عباد اللّٰہ بعد ھذا فقد جحد کتاب اللّٰہ “․(تفسیر ابن کثیر:7/108، روح المعاني: 24/16) جس نے اس کے بعد اللہ کے بندوں کو توبہ سے مایوس کیا تو گویا اس نے کتاب اللہ کا انکار کیا ۔

حماد بن سلمہ رحمہ الله جب سفیا ن ثوری رحمہ الله کی عیادت کے لیے آئے تو ان سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ میرے جیسے کی مغفرت فرمائیں گے ؟تو حماد بن سلمہ رحمہ الله نے فرمایا :اللہ کی قسم! اگر مجھے اللہ اور اپنے والدین میں کسی ایک کے محاسبہ اختیار کرنے کا کہا جائے تو میں اللہ کے محاسبہ کو اختیار کروں گا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ میرے والدین سے زیادہ رحم کرنے والے ہیں ۔
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 454800 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More