تعلیم اور حکومتی اطمینان!

 صحافی کے سوال پر وزیراعظم عمران خان نے اپنے وزیراعلیٰ عثمان بزدار پر ایک نظر پر ڈالی، جو کہ اُن کے دائیں ہاتھ بیٹھے تھے ۔ شاید صحافی کا سوال مبہم تھا، یا وہ اپنا مدعا بیان کرنے میں ناکام رہا تھا۔ سوال تعلیم سے متعلق تھا، کہ تعلیم حکومت کی پہلی ترجیح ہونے کے باوجود شرح خواندگی میں اضافہ نہیں ہورہا، تعلیمی ترقی نہ ہونے کے برابر ہے، جمود طاری ہے۔ ماحول کے مطابق سوال مختصر تھا۔ وزیر اعظم نے حیرت سے پوچھا ’’تعلیم کو کیا ہوا؟‘‘۔ اُن کا یہ سوال بذاتِ خود حیران کُن تھا، یہی تاثر ابھرا کہ وزیراعظم اپنی حکومت کی تعلیمی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ تاہم پنجاب کے سردار جناب بزدار نے لپک کر صحافی کے سوال کی نفی کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے 1227سکول ’’اپ گریڈ‘‘ کئے ہیں، اُن کے جذبات کو بڑھاوا دینے میں فردوس عاشق اعوان نے بھی اُن کا ہاتھ بٹانا چاہا، کہ اُن کے منصب کا تقاضا بھی یہی ہے۔ سوال کی طرح جواب بھی مختصر تھا، حسب ِ روایت بات آئی گئی ہوگئی۔

پنجاب حکومت نے ’اپ گریڈیشن‘ کا معرکہ گزشتہ برس بجٹ کے موقع پر سَر کیا تھا۔ اپنے تئیں بجا طور پر اس فیصلے کے حق میں خوب سرکاری ڈھول پیٹا گیا ، اپنے اِس اقدام کو قوم پر احسانِ عظیم قرار دیا گیا کہ اب پوری نئی نسل تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو جائے گی، روشن مستقبل کے سہانے خواب دیکھے اور دکھائے گئے۔ ایک ہزار دو سو ستائیس سکولوں کو مزید اوپر کا گریڈ دینے سے یقینا نئے طلبا کو داخلے کے مواقع ملنے کا تصور تھا، اساتذہ اور دیگر آسامیاں پیدا ہونے کا خیال تھا۔ مگر سکولوں کا اپ گریڈ کرنے کے فیصلے کے ساتھ ہی یہ حکم نامہ بھی جاری ہوا کہ ترقی پانے والے سکولوں میں عمارت بھی وہی رہے گی اور وہاں موجود اساتذہ کو بھی وہیں پر خدمات سرانجام دینے کے مواقع فراہم کئے جائیں گے۔ یہ حکم نامہ مڈل اور پرائمری سکولوں کے لئے تھا۔ اپنے ہاں مڈل سکولوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، تاہم مڈل کو ہائی سکول کا درجہ دیا گیا اور پرائمری کو مڈل کا۔ اپنے ہاں اکثر پرائمری سکولوں کی عمارت محض دو کمروں پر مشتمل ہے، چار پانچ کمروں والے سکولوں کو شاید انگلیوں پر ہی شمار کر لیا جائے۔ جس پرائمری سکول میں کمرے ہی دو یا تین ہیں، اور اساتذہ بھی اُسی قدر، تو وہاں داخلے کیسے اورکیوں ہوں گے، اگر کچھ طلبا آبھی گئے تو اُنہیں کہاں بٹھایا جائے گا اور کون انہیں پڑھائے گا؟

سکولوں کو اپ گریڈ کیا گیا تھا تو اُن کے لئے کلاس رومز ، اساتذہ اور دیگر ضروریات کا بھی اعلان کیا جاتا ( اپنے ہاں اعلان تو ایک سیاسی بیان سمجھا جاتا ہے، جو فقط آنکھوں میں دھُول جھونکنے کے مترادف ہوتا ہے)۔ ممکن ہے ایسا کوئی اعلان ہوا ہو، عمل کی نوبت تو انہی منصوبوں پر آتی ہے، جہاں کوئی خاص مفاد حاصل ہونا ہو۔ یوں حکومت سکولوں کی اپ گریڈیشن کا تمغہ اپنے ماتھے پر سجا رہی ہے، اور اپنے وزیراعظم نے بھی کبھی گہرائی میں جانے کی زحمت نہیں کی کہ اس عمل سے کتنے نئے بچوں کو داخلہ ملے گا؟ کتنے بچوں کی تعلیم میں آسانی پیدا ہوگی؟ بس روپورٹ پیش ہوگئی، شاباش مل گئی، اور حکمرانوں کا قافلہ سُبک رفتار آگے بڑھ گیا یعنی اعلان ہوتے رہے، عمل کے بغیر سفر جاری رہا۔
 
موجودہ حکومت نے اور بہت ساری باتوں کے ساتھ تعلیم کو بھی اپنے پہلی ترجیحات میں شامل کیا تھا، اس کا ذکر تقاریر وغیرہ میں اب بھی اُسی شان و شوکت کے ساتھ کیا جاتا ہے، مگر تعلیم پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بدقسمتی کے ساتھ شرمندگی کا عالم یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں 9ممالک میں سے پاکستان آٹھویں نمبر پر ہے، افغانستان ہی اس سے پیچھے ہے، مالدیپ، سری لنکا، ایران، بنگلہ دیش اوربھارت شرح خواندگی میں پاکستان سے آگے ہیں۔ اگرچہ کرونا کی جان لیوا وبا نے بھی حکومت کو اہداف تک رسائی حاصل کرنے میں بہت سی مشکلات کھڑی کی ہیں، تاہم بجٹ کے اعلان ، کارکردگی اور پیش رفت کے حوالے سے معاملات صفر ہیں۔ ایک خاص مسئلہ یہ بھی ہے کہ حکومتیں تعلیم کے لئے خاطر خواہ اور ضروری بجٹ کا اہتمام ہی نہیں کرتیں، جس کی وجہ سے نہ تو طلبا کے لئے کلاس رومز کا بندوبست کیا جاسکتا ہے ، نہ اساتذہ کی کمی پوری ہوتی ہے اور نہ ہی دیگر ضروریات کا خیال رکھاجاتا ہے۔

محکمہ تعلیم نے سکول انتظامیہ کے لئے چھٹیوں میں بھی ایک ایسی مصروفیت کا بندوبست کر رکھا ہے کہ جس کام میں اتوار کی چھٹی کا بھی کوئی تصور نہیں، وہ ہے ڈینگی کی رپورٹ، جو ہر سکول نے ہر روز موبائل ایپ کے ذریعے محکمہ کو بھیجنی ہے۔ پابندی ہے کہ صرف ایک موبائل سے ہی سکول کی ڈینگی کے بارے میں تصویریں بھیجی جاسکتی ہیں، پہلے سے ’’لاگ آف‘‘ کر کے ہی دوسرا استعمال ہو سکتا ہے۔ ناغہ کرنے کی صورت میں محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جائے گی، نوکری بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ یہی حکم پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے بھی اپنے الحاق شدہ سکولوں کو دے رکھا ہے، ورنہ جرمانہ کے ساتھ پے منٹ بھی روک لی جائے گی۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ کیا یہ ڈینگی صرف سرکاری اور پیف کے سکولوں کے اندر ہی پایا جاتا ہے؟ کیا یہ خود محکمہ تعلیم کے دفاتر یا دیگر سرکاری و غیر سرکاری دفاتر میں نہیں ہوتا؟ کیا مہینوں سے گھروں میں بیٹھے بچوں کی گندی گلیوں میں نہیں جاتا؟ کیا یہ شہروں کی مضافاتی آبادیوں میں جوہڑوں کی طرح کھڑے گندے پانی میں نہیں ہوتا؟ سکول مسلسل بند ہیں، ہر روز ’’پہلے‘‘ اور ’’بعد میں‘‘ کی تصویروں کا حکم ہے، یعنی بہترین صفائی کے بعد بھی اگلے روز پھر وہی مشقِ لاحاصل۔ سکول کھلنے پر مانا ایسی سرگرمی ہو سکتی ہے، مگر یہ غلامی کی کوئی قسم ہے، جس پر اساتذہ کو لگا دیا گیا ہے۔ بات سننے کا روادار بھی کوئی نہیں۔ سکول مہینوں سے بند ہیں، ایس او پیز کے ساتھ پچاس فیصد حاضری کے ساتھ سکول کھولے جا سکتے تھے۔ درمیانے درجے کے نجی سکول ’’وینٹیلیٹر‘‘ پر ہیں، فیس آتی نہیں، کرایہ وغیرہ بڑھ رہا ہے۔ مسائل اَن گنت ہیں،اور حکمران مکمل مطمئن ، گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔
 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427745 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.