کفالت یتامیٰ اور ہماری ذمہ داریاں

رمضان المبارک کے بابرکت شب و روز اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ مہینہ رحمتوں کے نزول اور اجر و ثواب کا ہے۔ اس ماہ مقدس میں آقائے دوجہاں ﷺ بے انتہا سخاوت کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ ہمیں اﷲ تعالیٰ نے ہر قسم کی نعمت عطا کر رکھی ہے اگر ہم بھی اس بابرکت مہینے میں اپنے پاس موجود نعمتیں تقسیم کرتے رہیں تو یقینا یہ عمل اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی کا سبب ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں ہمارے بہت سے بہن بھائی ہماری خدمت کے محتاج ہیں جہاں ہم اپنے لئے جیتے ہیں، اپنا اور اپنے بچوں کا خیال رکھتے ہیں، وہاں اگر یتیم بچوں کا خیال بھی رکھیں تو دین ودنیا کی سعادتیں ہمارے نصیب کا حصہ بن جائیں گی۔ دنیا کے تمام مذاہب اور معاشروں میں یتیم کا مقام ومرتبہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے اور دین اسلام میں تو یتیم کی کفالت کے حوالے سے بہت کچھ کہا گیا ہے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر یتیم کی کفالت ، اس کے اجر و ثواب اور رتبے کا بیان کیا گیا ہے۔ سورۃ البقرہ میں خداوند قدوس فرماتے ہیں ۔
''لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتہ داروں پر، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کروگے اﷲ اس سے باخبر ہوگا'' ۔
اسی طرح سورۃ النساء میں خالق کائنات فرماتے ہیں ’’ ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرواور قرابت داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔ ‘‘

حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ ’’ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے ، پھر آپﷺ نے اپنی شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ فرمایا کہ ہم ایسے ہوں گے ۔‘‘

لفظ یتیم کتنا عجیب وغریب ہے۔ اس لفظ کو سنتے ہی دل میں احساس محبت جنم لیتا ہے۔ یتیم بچے یا بچی کے لیے ہمارے دل میں محبت اور پیار میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اﷲ کرے کوئی یتیم نہ ہو۔ اس کا باپ اور ماں سلامت رہیں ۔ یتیم کون ہے؟ یتیم ہر ایسے بچے کو کہتے ہیں جس کا والد اس کے بالغ ہونے سے پہلے وفات پاجائے۔ اسی طرح جس بچے اور بچی کے والد او ر والدہ دونوں اس کے بالغ ہونے سے پہلے وفات پا جائیں انہیں بھی یتیم الابوین کہا جاتا ہے۔ یقینا یہ محبتوں کے زیادہ مستحق ہیں۔ اسی طرح اگر کسی کی والدہ بچپن میں وفات پا جائے تو اسے بھی یتیم کہا جائے گا کہ اس کی والدہ وفات پا چکی ہیں( اﷲ کریم میری والدہ محترمہ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ۔ آمین )۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جس نے معاشرے کے پسے ہوئے محروم لوگوں کو ہمیشہ اوپر اٹھایا ہے۔ ان کے مورال کو بلند کیا ہے۔ ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ اولاد سے محبت فطری چیز ہے۔

قرآن پاک میں کئی مقامات پر یتیموں کے حقوق اور کفالت کے حوالے سے ترغیبات موجود ہیں۔ خوش نصیب ہیں ایسے لوگ جو کہ اﷲ کے فرمودات کو غور سے سنتے، پڑھتے اور عمل کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں 15 رمضان المبارک کو یوم یتامیٰ کے طور پر منایا جاتا ہے۔

ہر شخص اپنی اولاد سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ وہ چھوٹے بچے کو بوسہ دیتا ہے، گلے لگاتا ہے۔ اس کی پرورش کرنے اور اس کو زندگی کی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے صبح و شام محنت کرتا ہے۔ گھر آتا ہے تو سیدھا بچوں کے پاس جاتا ہے۔ وہ بھی بھاگتے ہوئے آتے ہیں، اپنے بابا کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں۔ سارا دن کے کام سے تھکا ہارا باپ بے اختیار بوسے دینے لگ جاتا ہے، اُس کی ساری تھکاوٹ دور ہوجاتی ہے۔ بچے’’ توتلی‘‘ زبان میں والد کو باتیں سناتے ہیں۔ کبھی شکایت لگاتے ہیں۔ والد بچوں کی باتیں سن کر بے اختیار مسکراتا ہے۔ خوش ہوتا ہے۔ اسی کا نام زندگی ہے۔

اسلام یتیموں، مسکینوں، بیواں، بے سہارا اور غریب طبقے کو سہارا دینے، ان کی مکمل کفالت کرنے، ان سے پیار کرنے اور انہیں کھانا کھلانے، انہیں وسائل مہیا کرنے اور انہیں آسودگی فراہم کرنے کی ناصرف ترغیب دیتا ہے بلکہ معاشرے کے بے کس، محروم، نادار طبقے اور سوسائٹی کے محتاج، بے سہارا اور معصوم بچوں کی کفالت کے اہتمام کا حکم بھی دیتا ہے۔ معاشرے کے اس طبقے کو محروم رکھنے والوں کے لیے اسلام نے سخت وعید سنائی ہے اور کہا ہے کہ دین اسلام کو جھٹلانے والے وہ لوگ ہیں جو یتیموں کو دھکے دیتے ہیں، ان سے پیار نہیں کرتے، ان کی کفالت نہیں کرتے اور انہیں آسودگی دینے پر اپنا مال خرچ نہیں کرتے۔ وہ یتیموں کی ایسی کفالت نہیں کرتے جیسے اپنے بچوں کی کرتے ہیں۔ معاشرے کے ایسے افراد جو وسائل رکھتے ہوئے بھی اپنے مال سے یتیموں اور محتاجوں کا حصہ نہیں نکالتے ان کی نمازیں، حج و دیگر اعمال اﷲ رب العزت رد فرما دیتا ہے۔

ایسے لوگوں کو دوزخ کے عبرتناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے کہ جو اپنی نمازوں کی تو بڑی فکر کرتے ہیں مگر سوسائٹی کے محروم و محتاج بچوں کے سروں پر سایہ نہیں بنتے۔ انہیں اپنی نماز کا تو بڑا فکر رہتا ہے مگر وہ ان محتاجوں، یتیموں اور بیواں کی فکر نہیں کرتے، ایسے نمازیوں کو قرآن پاک میں ریاکار کہا گیا ہے، جو نمازیں تو پابندی سے پڑھتے ہیں، لیکن وہ نماز کی اصل روح سے غافل ہیں، دراصل یہ نمازیں ان نادار اور بے بس وبے کس طبقے کی مدد کا سبق دیتی ہیں۔ جو لوگ محتاج طبقے کو برتنے کی کوئی معمولی چیز مانگنے پر بھی نہیں دیتے اور وہ ان محتاجوں کو دھتکار دیتے ہیں، انہیں بخیل کہا گیا ہے۔

پاکستان میں جماعت الخدمت فاؤنڈیشن وہ واحد تنظیم ہے جس نے یتیموں کے سروں پر دستِ شفقت رکھا ہے۔ اس ادارہ کا بنیادی مقصد یتیم بچوں کے سر پر دست شفقت رکھنا ہے ان کی رہائش، تعلیم اور دوسری ضروریات زندگی کا خیال رکھنا ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ یتیم بچے معاشرے میں اپنے قدموں پر کھڑے ہو کر ایک باوقار زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں۔دنیا میں یتیموں کے حوالے سے اعدادوشمار کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں ہر تیس سیکنڈ میں دو بچے یتیم ہوجاتے ہیں اس وقت دنیا بھر میں یتیم بچوں کی تعداد 15 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ ہے جس میں سے ساڑھے چھ کروڑ یتیم بچے صرف ایشیاء میں موجود ہیں اور ان بچوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اگر یہ یتیم بچے انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائیں تو پوری دنیا کے گرد حصار بن سکتا ہے گذشتہ چند سالوں سے جاری خانہ جنگی کے باعث یتیم بچوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے پاکستان میں بھی یتیم بچوں کے حوالے سے صورتحال مختلف نہیں ہے گذشتہ عشرے میں آنے والی ناگہانی آفات،بدامنی کے خلاف جنگ، صحت عامہ کی سہولیات کی کمی اور روزمرہ حادثات کے باعث جہاں ہزاروں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے وہاں لاکھوں بچے بھی اپنے خاندان کے کفیل سے محروم ہو گئے اور معاشرے میں یتیم بن کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

جو شخص یتیم کیساتھ اچھے طریقے سے پیش آیا تو قیامت کے روز میں اور وہ ان دو انگلیوں کے مانند ہوں گے اور اپنی شہادت اور درمیان والی انگلی کی طرف اشارہ کیا ''آج ہم کرونا وبا کا شکار ہیں روزبروز یتیم بچوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اسلئے ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ یتیم بچہ جو ملک وقوم کا وارث بننے جارہا ہے اسے زیادہ سے زیادہ شفقت سے نوازیں، اگر بچپن میں یتیم کو آوارہ چھوڑ دیا جائے اور اس کی صحیح تعلیم وتربیت کا مناسب اہتمام نہ کیا جائے تو یہ اپنے معاشرے کیلئے مفید شہری ثابت ہونے کی بجائے اس کیلئے خطرے کا باعث بن جاتا ہے۔

الخدمت آرفن کیئر پروگرام کے منتظمین مبارکباد کے مستحق ہیں کہ جنہوں نے اس نے معاشرے کے ایسے محروم، محتاج، بے کس وبے بس یتیموں کو سہارا دینے اور ان کی مکمل کفالت کا اہتمام کیا ہے یہی دین کی اصل روح ہے۔ معاشرے کا وہ طبقہ جنہیں اﷲ رب العزت نے وسائل دے رکھے ہیں ان کے وسائل میں ایسے یتیموں، بے سہارا محتاجوں اورمسکینوں کا بھی حق ہے۔ پچھے اور امسال بھی الخدمت فاؤنڈیشن کی طرف سے بے سہارا، بیواؤں، اور غریب افراد میں کھانا، راشن تقسیم کیا گیا۔ کئی مقامات پر حفاظتی سپرے کیے، غریبوں میں کرونا بچاؤ بارے آگہی کے ساتھ ساتھ سینٹی ٹائزر اور انتظامیہ کو کٹس تک فراہم کی گئیں۔ نامساعد معاشی حالات کے باوجود آرفن کیئر کے یتیم بچوں کو کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دی گئی۔

عالمی ادارہ برائے اطفال (یونیسف) کے مطابق پاکستان یتیم بچوں کی تعداد 42 لاکھ سے زائد ہے اور اُن میں سے بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو تعلیم و تربیت ، صحت ، خوراک اور دیگر سہولیات سے محرورم ہیں۔ پاکستان میں الخدمت آرفن کیئر پروگرام کے تحت ان یتیم اور بے سہارا بچوں کی کفالت کی جارہی ہے۔ ضلع بھکر میں اس وقت 80 یتیم اور بے سہارا بچوں کی کفالت کی جارہی ہے جن پرکم و پیش 60 لاکھ روپے سالانہ خرچ آرہا ہے۔ معاشی صورتحال، کم آمدنی اور سماجی رویوں کے باعث بھی یتیموں کے خاندان کیلئے ان کا بوجھ اُٹھانا مشکل ہے اس طرح یہ بچے تعلیم وتربیت اور مناسب سہولیات نہ ملنے کے باعث معاشرتی اور سماجی محرومیوں کا شکار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے یہی بچے بے راہروی کا شکار ہوکر معاشرے میں مسائل کا سبب بنتے ہیں جب یتیم کے سر پر دست شفقت نہ رکھا جائے اسے اس کی بنیادی ضروریات سے مستقل طور پر محروم رکھا جائے تو اس کے دل میں معاشرے میں کیخلاف نفرت جنم لیتی ہے جس کا خمیازہ بہرصورت معاشرے کو بھگتنا پڑتا ہے۔

الخدمت آرفن کیئر پروگرام کا مقصد باپ کے سائے اور ماں کی آغوش سے محروم بچوں کی کفالت اور تعلیم وتربیت کا شاندار اہتمام کرنا اور بچوں کی جسمانی، تعلیمی، تربیتی، ذہنی، نفسیاتی اور روحانی نشوونما اور ارتقا کا اہتمام کرنا ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کو معاشرے کا مفید اور معزز شہری بنانا۔یتیم اور بے سہارا معصوم بچوں کو محفوظ چھت فراہم کرنا۔ بچوں کی اعلی تعلیم وتربیت کے ذریعے ان کے مستقبل کو محفوظ بنانا۔ یتیم بچوں کو معاشرے کا کارآمد اور قابل فخر انسان بنانا۔ نظریہ پاکستان کی تفہیم کا اہتمام کرنا، اخوت، امن، بھائی چارے اور مساوات کے لیے ذہن استوار کرنا، اسلامی نظریہ حیات کو بچوں کی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں سمونا۔ جذبہ حب الوطنی، مسائل کے حل کی صلاحیت اور محنت و مشقت کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔ یتیم اور نادار ، بے سہارا بچوں کی کفالت ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ معاشرے کے ہر فرد کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی طرح اِن بے سہارا یتیم بچوں کی خواہشات اور مستقبل کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کریں اور اِن بچوں کی کفالت میں الخدمت آرفن کیئر سنٹر کی انتظامیہ کا ساتھ دیں۔ دعا ہے کہ خدا وند کریم ہم سب پر ماں باپ کا سایہ قائم رکھے ۔ اور یتیم و بے سہارا بچوں کی کفالت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین۔
 

واجد نواز ڈھول
About the Author: واجد نواز ڈھول Read More Articles by واجد نواز ڈھول : 60 Articles with 89618 views i like those who love humanity.. View More