ذرا سوچیں۔ پرندوں کا تحفظ (آگاہی پیغام)

دوسرا شکاری کے ہاتھ لگ، شکاری نے اس کو اپنے گھر میں ایک پنجرے میں قید کر دیا۔ جب اداس ماں اپنے بچوں کے پاس واپس پہنچی تو بچوں نے اپنے باپ کا پوچھا تو وہ خاموش ہو گئی

فاختہ اور اس کے بچے ۔۔۔ باپ کا بچ نکلنا

پیارے بچو! جس طرح اللہ کریم نے ہمیں پیدا فرمایا اسی طرح رب کریم نے انسان کے ماحول کو خوبصورت بنانے اور اس کی زندگی کو سُکھ دینے کے لیے دیگر مخلوقات بھی پیدا کیں ہیں۔ لیکن آج ہم پرندوں کے بارے میں بات کریں گے۔ پرندے ہمارے ماحول کو خوشگوار بنانے اور آلودگی کو کم کرنے میں ایک اہم کر دار کرتے ہیں۔ لیکن ہم ان کا تحفظ کرنے میں یا تو سوجھ بوجھ نہیں رکھتے یا پھر ہم خود سنجیدہ نہیں۔ پیارے بچو! جس طرح ہم سب اپنی زندگی کو ہنستا مسکراتا گزارنا چاہتے ہیں، اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ رہنا پسند کرتے اپنے والدین کا سایہ ہمیشہ اپنے سر پر دیکھنا چاہتے ہیں، اسی طرح یہ پرندے بھی اپنی نسل کواور بڑھتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں، پرندے جس قدر زیادہ ہوں گے قدرتی ماحول اتنا ہی خوبصورت، چہکتا اور آلودگی سے پاک ہوگا۔ انسانی زندگی اتنا ہی سکون محسوس کرے گے۔ پیارے بچو! ہم موسم بہار کی بہاریں دیکھ رہے ہیں ہر طرف سر سبزو شاداب گھاس، نباتات، درختوں پر پھل اور پھول نظر آرہے ہیں، ہوا میں ہر سو خوشبوئیں پھیلی ہوئی ہیں۔ صبح کا منظر بہت دیدنی ہوتا ہے۔ صبح یا شام کو کسی کُھلے پارک میں سیر کے لیے جائیں تو کتنا سہانا موسم ہوتا ہے، دل کرتا ہے وہیں قیام کیا جائے۔ میرے بچو! اسی طرح پرندوں کی افزائش نسل کا موسم بھی ہے، آپ نے دیکھا ہو گا پرندے اپنے منہ میں خشک گھاس کے تنکے یا درختوں کی خشک ٹہنیوں کو اٹھا کر کسی درخت، پرانی عمارت، کچے مکانوں یا پھر گھروں کے گیٹ کے اردگرد گھونسلا بنانے میں مصروفِ عمل ہیں۔ پرندے گھونسلا بنا کر کیا کریں گے، ان میں انڈے دیں گے، ان انڈوں سے کچھ دنوں کے بعد اللہ کریم بچے پیدا کر دے گے، پھر یہ بڑے پرندے اپنے ننھے منھے بچوں کے ماں باپ بن جائیں گے، یہ چھوٹے چھوٹے، پیارے پیارے سے بچے بھی ا پنے والدین کا ساتھ بھی ہماری طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان بچوں کے والدین (پرندے) ان کی پرورش کے لیے دور دراز کھیت کھلیانوں یا گھروں سے دانہ (خوراک) وغیرہ تلاش کرکے لاتے ہیں، پرندے گھنٹوں اپنے بچوں کی خوراک کے لیے میلوں سفر کرتے ہیں، پھر آپ نے کئی مرتبہ دیکھا ہو گا جیسے ان بچوں کی ماں یا باپ ان کے نزدیک چونچ میں کچھ لے کر پہنچتا ہے تو وہ شور مچاکر اپنے والدین کا استقبال کرتے ہیں، ان کے چہرے خوشی سے کھل اٹھتے ہیں،اور پیار سے ان کو بلاتے ہیں اور کھانے کا تقاضا کرتے ہیں۔ ننھے منھے بچوں کے والدین ان کو باری باری اپنی چو نچ سے کھانا کھلاتے ہیں، جب کھانا ختم ہو جاتا ہے، انسان کے چھوٹے بچے کی طرح پھر مانگتے ہیں کہ۔ یہ ان کی پیاس اور بھوک کو مٹانے کے لیے پھر سے پُھر کرکے اڑجاتے ہیں اور ان کے کھانے کی تلاش شروع کر دیتے ہیں، جہاں جہاں سے ان کو کچھ ملتا اکٹھا کرکے پھر سے اپنے گھونسلے میں بچوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ پیارے بچو! اب ہوتا کیا ہے! جب یہ پرندے گھونسلا بنا کر انڈے دیتے ہیں تو کچھ شرارتی بچے ان انڈوں کو توڑ دیتے ہیں اور یہ ماں باپ بننے محروم ہو جاتے ہیں۔ یا پھر جب یہ پیارے پرندے ماں باپ بن جاتے ہیں، اپنے ننھے بچوں کے لیے خوراک کی تلاش میں نکلتے ہیں تو کچھ لوگ ان بچوں کی پرواہ کیے بغیر ان کا شکار کر لیتے ہیں یا پھر ان کو پکڑ کر گھر لے آتے ہیں یا پھر مارکیٹ میں چند پیسوں کے بدلے فروخت کر دیتے ہیں۔ تو ثابت ہوا، انسان ہی ان کا دشمن ہے جو ہمارے لیے ایک صاف ستھر ا اور خوبصورت ماحول بناتے ہیں۔ ان کے بچے گھونسلے میں بیٹھے اپنے ماں باپ کا انتظار کر رہتے ہوتے ہیں۔ انہیں کیا معلوم آج کا شرارتی یا لالچی بچہ میرے ماں باپ کا شکار کر چکا ہے، پیارے بچو! بظاہر تو شکاری نے اپنی خوراک یا چند سکّوں کے بدلے ان کو فروخت کردیا لیکن اس نے ان ننھے اور پیارے سے بچوں کو جیتے جی مار دیا اور یتیم کر دیا، جو بچے اپنے والدین کا انتظار کر رہے تھے، اگر ہمارے والدین صبح کام پر جائیں اور واپس گھر نہ آئیں تو ذرا سوچو ہم پر کیا گزرتی ہے۔ اسی طرح یہ چنے منھے بچے اپنے ماں باپ کو آوازیں دیتے ہوئے بھوک سے نڈھال ہو کر مرجاتے ہیں۔ پیارے بچو! ہمیں چاہیے کہ ایسے موسم میں پرندوں کا نہ تو شکار کریں اور نہ ہی ان کے انڈوں کو ضائع کریں۔ بلکہ اشرف المخلوقات ہوتے ہوئے ہمیں تو ان کی زندگیوں کا تحفظ کرنا چاہیے، ان کے رہنے کے لیے گھروں یا باہر درختوں کے ساتھ گھونسلا نما گھر بنا کر نصب کر دینے چاہیں، گھر کی چھتوں پر ان کے لیے پانی اور خوراک کا بندوبست کرنا چاہیے تاکہ بچوں کی خوراک کے لیے انہیں دور کا سفر نہ کرنا پڑے اور نہ ہی کوئی شکاری ان کا شکار کرے، پیارے بچو! آج سے میرے ساتھ وعدہ کرو کہ نہ تو ان کے انڈوں اور بچوں کو نقصان پہنچائیں گے بلکہ ان کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے اور جو ساتھی شرارتی بچے ہوتے ہیں ان کو بھی ایسے غلط اور الٹی سیدھی حرکتوں سے باز رہنے کا کہیں گے، آپ نے دیکھا ہو گا کہ اب یہ پرندے عام بستیوں میں نظر نہیں آرہے (تیس چالیس برس پہلے پرندوں غول در غول آسمان پراُڑتے اور کھیلتے نظر آتے تھے)، کیوں! ہم ان کا خیال رکھنے کی بجائے ان کو نقصان پہنچا رہے ہیں، جس سے ان کی افزائش نسل میں کمی واقع ہو رہی ہے، بہت سے پرندے تو ایسے بھی ہیں جن کی نسل اب ناپید ہونے کوہے، بچو! ایک دن ننھے مھنے فاختاوں کے ماں باپ کھیتوں میں خوراک کی تلاش کے لیے گئے، ان کو چند دانے نظر آئے تو وہ آکر بیٹھ گئے دانہ دنکا کھانے لگے اور اپنے بچوں کے لیے بھی اکٹھا کرنے میں لگ، جیسے ہی وہ آکر بیٹھے شکاری نے جال سے ان کو پکڑنے کی کوشش کی، ان میں ایک تو بچ نکلا اور دوسرا شکاری کے ہاتھ لگ، شکاری نے اس کو اپنے گھر میں ایک پنجرے میں قید کر دیا۔ جب اداس ماں اپنے بچوں کے پاس واپس پہنچی تو بچوں نے اپنے باپ کا پوچھا تو وہ خاموش ہو گئی، اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، پھر اس نے روتے ہوئے بتایا انسان توہمارا دوست تھا لیکن وہ دشمن بن گیا، اگلے دن فاختہ ماں پھر خوراک کے لیے نکلی، جیسے ہی وہ ایک گھر کے اوپر سے جارہی تو اسے اپنا ساتھی نظر آگیا، اس نے ادِھر اُدھر دیکھا تو پنجرے کے قریب جاکر کے بیٹھ گئی، اس نے اپنے بچوں کا بتایا کہ وہ بہت اداس ہیں، وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، قیدی فاختہ نے کہا آپ جہاں سے جلدی چلے جاؤ یہ بڑا لالچی شکاری ہے، تمہیں بھی پکڑ لے گا، میں کسی نہ کسی طرح واپس آجا ؤں گا، پیارے بچو! جب شکاری نے دوپہر کا کھانے ڈالنے کے لیے پنجرے کھولا تو فاختہ موقع پا کر پُھر سے اُڑ گیا اور اپنے بچوں کے پاس پہنچ گیا۔ بچوں کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔ مجھے امید ہے آج سے آپ ایسا کوئی کام نہیں کریں گے جس سے پرندوں کی جان کو خطر ہ۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو پرندوں کے تحفظ کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 154924 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More