کیا کشمیر لاوارث ہے؟

اگست ۲۰۱۹ سے ۲۰۲۱ تک ریاست جموں کشمیر کئی تبدیلیوں سے گزری۔ مودی سرکار نے کشمیری قیادت کو پابند سلاسل کرنے کے بعد پوری مقبوضہ ریاست کو جیل میں تبدیل کردیا۔ ریاسی حیثیت میں تبدیلی سے پہلے حریت کانفرنس کو پابند سلاسل کرنے کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی جموں وکشمیر پر پابند عائد کی اور اس کے مقامی یونٹ سے ریاستی سطح کے پانچ ہزار عہدیداروں کو قید کرکے نامعلوم مقامات پر منتقل کردیا۔ وہ جانتے تھے کہ جماعت اسلامی کی موجودگی میں ریاست گیر کریک ڈاون ممکن نہ ہوگا۔ سید علی گیلانی کی علالت اور یاسین ملک کی اسیری سے بھی مودی سرکار نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ریاست کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرکے بھارتی شہریوں کو ریاستی ڈومیسائل کا حامل قرار دے دیا تاکہ رائے شماری کی آخری امید بھی دم توڑ دے۔ ڈیڑھ سالہ واقعات گواہ ہیں کہ مسلسل محاصرے اور ریاستی جبر کے باوجود اہل کشمیر کے پائے استقامت میں کوئی کمی نہیں آئی تاہم قیادت کی غیر موجودگی میں اہل کشمیر کا احتجاج ریاست گیر تحریک کا روپ نہ دھار سکا۔

مقبوضہ کشمیر کی نازک ترین صورت حال کے باوجود پاکستان اور آزادکشمیر سے وہ ردعمل نہیں دیا گیا جو ماضی میں آزادکشمیر اور پاکستان کے عوام کی طرف سے سامنے آتا رہا ہے۔ اسلام آباد نے بھی کشمیریوں کے ساتھ وہی کچھ کرنا شروع کررکھا ہے جو دیلی سرکار نے کرکے دکھایا ہے۔ پاکستان کی شکست خردہ قیادت تو ستر کی دہائی میں ہی تقسیم کشمیر پر تیار تھی، جب ذوالفقار علی بھٹو نے آزادکشمیر کا طوفانی دورہ کرکے رائے عامہ ہموار کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ تب آل جموں وکشمیر کے مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان، پیپلز پارٹی کے سردار محمد ابراہیم خان اور جماعت اسلامی کے مولانا عبدالباری کی قیادت میں اس منصوبے کو ناکام بنا دیا تھا۔ نوازشریف کے دور میں واجپائی کی آمد بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ مابعد جنرل پرویز مشرف کا دورہ دیلی، حریت کانفرنس کے قائدین سے ملاقاتیں اور پس پردہ پاک بھارت سفارت کاری بھی سیز فائر لائن کو مستقل سرحد کی صورت دینے کی کڑی تھی۔ سیزفائرلائن پر باڑ بھی اسی باہمی غیر اعلانیہ مفاہمت کا نتیجہ تھی۔ جنرل مشرف نے ماضی کو بھول کر کشمیر کو نئے حالات کے مطابق ڈھل جانے کی نوید سنائی تھی۔ تب بھی سیزفائر لائن کے دونوں اطراف مشرف لابی خاصی متحرک تھی لیکن سید علی گیلانی اور آزادکشمیر میں جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی اورصدر ریاست جنرل انور خان سمیت قائدین نے مشرف فارمولے کو پوری قوت سے مسترد کرتے ہوئے رائے عامہ کو منظم کرلیا تھا۔

گلگت بلتستان کو اسلام آباد والوں نے سترسال تک بے آئین رکھا ، جبکہ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان سے مسلسل مطالبہ ہوتا رہا کہ شمالی علاقہ جات کو آزادکشمیر طرز کا انتظامی ڈھانچہ دے کر بنیادی انسانی حقوق بحال کیے جائیں۔ یوں لگتا ہے کہ یہ معاملہ پاکستان کی مقتدرہ نے اس موقع کے لیے روکے رکھا تھا کہ انہیں حقوق دینے کے نام پر ریاست جموں کشمیر کی بندربانٹ کا مرحلہ بہ آسانی سر ہو سکے۔ سالوں پرانے ملبے کو عین اس وقت چھیڑا گیا جب ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرکے بھارتی یونین کا حصہ بنا لیا۔ اسلام آباد سے اس کے خلاف کسی پیش بندی کے بجائے گلگت بلتستان کو سی پیک اور انہیں حقوق دینے کے روپ میں ریاست سے الگ کرنے کی کامیاب مشق کی۔ سوال یہ ہے کہ ریاست کی تقسیم کے بغیر سترسال تک گلگت بلتستان کے حقوق کس نے سلب کر رکھے تھے۔ سی پیک معائدہ جسے پاکستان کی منتخب حکمرانوں سے بھی اوجھل رکھا گیا ہے کی آڑ میں بین الاقوامی طور پر مسلمہ ریاستی حیثیت کو اپنے ہی ہاتھوں ٹکڑے کرنے کے لیے ایسی اسمبلی منتخب کروائی گئی جو ذلت کی کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔

گلگت بلتستان والا کھیل اب آزادکشمیر میں شروع ہونے والا ہے۔ حسب سابق آزادکشمیر میں ایسے انجنیئرڈانتخابات کروائے جائیں گے جس کے نتیجے میں پہلے سے طے شدہ ٹولہ منتخب ہوکر قانون سازاسمبلی کی قرار داد کی صورت میں ریاست کے حصے بکھرے کرنے کی استدعا کرے گا۔ یہ سب کچھ آج ایک عامی کشمیری بھی سمجھ رہا ہے لیکن آزادکشمیر کے سیاستدان مکارانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ گلگت بلتستان کو ریاست کا حصہ قرار دینے والے کسی سیاستدان نے اس کی خصوصی حیثیت کی تبدیلی پر کوئی عام سا ردعمل بھی نہیں دیا۔ حد تو یہ ہے کہ وحدت کشمیر بارے فوری اور قابل لحاظ رد عمل دینے والی جماعت اسلامی آزادجموں کشمیر اور قوم پرست جماعتوں کی قیادت بھی گلگت کے معاملے پر نہ صرف خاموش رہے بلکہ تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ اب یہ کھیل آزادکشمیر میں کھیلنے کی تیاریاں ہیں، ضرورت تو اس بات کی تھی کہ وحدت کشمیر کی علمبردار جماعتیں ایک ایسا انتخاب اتحاد بناتیں جو وحدت کشمیر کے نعرے پر انتخابی مہم چلاکر عوام کو بیدار کرتیں اور اس کے نتیجے میں قانون ساز اسمبلی کے ذریعے تقسیم کشمیر کی سازش کو بھی ناکام بنانے کا ذریعے بنتیں۔

آزاد کشمیر کے سیاسی زوال کو سمجھنے کے لیے یہی کافی ہے کہ مجاہد اول سردار عبدالقیوم سے سردار عتیق احمد خان، غازی ملت سردار ابراہیم خان سے خالد ابراہیم اور کشمیر کے لیے جان و مال کی قربانی دینے والی جماعت اسلامی جو کشمیر میں گرنے والی ایک لاش پر پوری دنیا کو سر پر اٹھا لیتی تھی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ نہ امان اﷲ خان کی لبریشن فرنٹ ہے اور نہ مولانا عبدالباری ؒ کی جماعت اسلامی ہے جواپنے قیام کے چند سالوں میں ہی مسئلہ کشمیر پر ایک توانا اور ناقابل تسخیر قوت بن چکی تھی۔

جیسے آزادکشمیر میں مجاہداول سردار عبدالقیوم ، غازی ملت سردار محمد ابراہیم اور مولانا عبدالباری کے بعد سیاسی میدان بونوں اور انجانوں کے ہاتھوں میں ہے، اسی طرح سید علی گیلانی کی علالت کے بعد اس پار بھی کوئی جہاندیدہ اور توانا آواز دکھائی نہیں دیتی۔ اقتدار کی سیاست کرنے والے تو سستے داموں بکتے رہے ہیں لیکن تحریک آزادی کشمیر کے لیے خون کا نذرانہ دینے والی جماعت اسلامی اور جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی خاموشی سمجھ سے بالا تر ہے۔ تحریک آزادی اور وحدت ریاست جن کا اڑنا بچھونا تھی، جن کا مقصد وجود ہی جدوجہد آزادی سے عبارت تھا اور جن کی تاریخ اسی جدوجہد سے بھری پڑ ی ہے۔ان کے مورچوں میں خاموشی ایک خوفناک مستقل کی نوید دکھائی دیتی ہے۔ ان دو جماعتوں کی نظرمظفرآباد کی کرسی پر نہیں رہتی اور نہ انہیں اس لالچ پر خریدا جاسکتا ہے۔ ان کے پاس قربانی دینے والی اور ریاست میں ہلچل مچادینے کی عوامی قوت بھی ہے، اس کے باوجود ہرطرف ٹھنڈ اور سکون بادی النظر میں ان کی قیادت کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ لبریشن فرنٹ تو امان اﷲ خان کی رحلت سے ساتھ ہی کمزور ہوچکی تھی لیکن جماعت اسلامی تو نوجوان قیادت کے باوجود اپنے روائتی تشخص کو کیوں برقرار نہیں رکھ سکی۔ سید علی گیلانی، جماعت اسلامی اور لبریشن فرنٹ تحریک آزادکشمیر کی آخری امیدتھیں، سید علی گیلانی کی پیرانہ سالی اور صحت میں قابل ذکر بہتری کی تو کوئی امید نہیں البتہ جماعت اسلامی اور لبریشن فرنٹ کو اپنے کردار کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا ورنہ لاکھوں شہداء کاخون بھارت سے زیادہ ان دو جماعتوں کی قیادت پر قرض ہوگا۔

آج وقت کا دہارا کچھ اور کہہ رہا ہے اور مجھے میرا ضمیر یہ سب کچھ قوم کے سامنے کہہ دینے پر مجبور کررہا ہے۔ گلگت بلتستان کی ریاست سے علیحدگی کا فیصلہ پاکستان کی سیاسی قیادت نے جس انداز میں کیا ہے ، مورخ اس پر جو لکھے گا، اس پر ہماری نسلیں صدیوں تک سرجھکائے رکھیں گی بالکل اسی طرح آزادکشمیر کی سیاسی جماعتوں پر قابض نااہل قیادت جس مجرمانہ غفلت ، لاپرواہی اور تحریک آزادی سے لاتعلقی کا مظاہرہ کررہی ہے، اس پر اہل کشمیر رہتی دنیا تک سوائے شرمندگی اور ماتم کے کچھ کہنے کے قابل نہ ہونگے۔ حالات کا ادراک ہونے پر ہر کشمیری یہ کہنے پر مجبور ہوگا کہ کاش ہم اس دور بے رحمی میں نہ پیدا ہوتے۔ ہم کشمکش میں کام آجاتے تو اس بے مقصد زندگی سے ہزار درجے بہتر تھا۔ قوموں کی تاریخ مصلحت کوش، کاہل، بزدل اور چلہ کش بونوں کے بجائے جان ہتھیلی اور کفن سر پر رکھ کر لڑنے والوں کے ہاتھوں رقم ہوئی ہے۔ صف اول میں کھڑے لوگوں سے مزید امید رکھنا تو بیوقوفی ہے تاہم یہ ناممکن نہیں کہ ان ویلوں کی قطارکو چیرتے ہوئے کوئی مرددرویش قوم کو اس گرداب سے نکال لے۔
 

Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 105082 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More