اِہلِ کہف کی تاریخِ ہجرت و بغاوت !!

#العلمAlilmn .علمُ الکتاب سُورةُالکہف ، اٰیت 9 تا 16 ازقلممولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ام
حسبت ان
اصحٰب الکھف و
الرقیم کانوا من اٰیٰتنا
عجبا 9 اذاوی الفتیة الی
الکھف فقالوا ربنااٰتنا من لد
نک رحمة وھئ لنا من امرنا رشدا
10 فضربنا علٰی اٰذانھم فی الکھف سنین
عددا 11 ثم بعثنٰھم لنعلم ای الحز بین احصٰی
لمالبثوا امدا 12 نحن نقص علیک نباھم بالحق انھم
فتیة اٰمنوا بربھم وزدنٰھم ھدی 13 وربطناعلٰی قلوبھم
اذقاموافقالواربنا رب السمٰوٰت والارض لن ندعوامن دونہٖ الٰھا
لقد قلنا اذاشططا 14 ھٰؤلاء قومنااتخذوامن دونہٖ اٰلھة لولایاتون
علیھم بسلطٰن بین فمن اظلم ممن افترٰی علی اللہ کذبا 15 وان اعتز
لتموھم وما یعبدون الا اللہ فاوٗالی الکھف ینشرلکم ربکم من رحمتہٖ ویھئ
لکم من امرکم مرفقا 16
اے ھمارے رسول ! کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ انسانی تاریخ میں پہاڑ کے دامن میں سونے والے اِن نو جوانوں کی وہ ایک ہجرت و بغاوت ہی ھمارے عجائباتِ جہان کا ایک مُنفرد عجوبہ ھے جو ایک ہی بار انسانی تاریخ میں رُونما ہوا ھے ، ہر گز نہیں ! بلکہ حقیقت تو یہ ھے کہ اِن نوجوانوں کے اِس واقعے کے علاوہ بھی ھماری زمین پر ایسے بے شمار تاریخی واقعات موجُود رھے ہیں جو عھدِ مُستقبل میں بھی انسانی فکر و توجہ کا مر کز بنے رہیں گے تاہَم انسانی تاریخ میں اِن نوجوانوں کی حرکت و عمل کا وہ لَمحہ بھی بہر حال انسانی تاریخ کے چند یاد گار لَمحات میں سے ایک یادگار لَمحہ تھا جب یہ چند نوجوان ایک پہاڑی خلا میں پناہ لینے کے لیۓ نکلے تو اُنہوں نے اپنے رَب سے دُعا کی کہ تُو ھم پر مہربان ہو جا اور ہمیں راہ و استقامتِ راہ عطا فرما ، پھر جب وہ اُس پہاڑی خلا میں داخل ہو گۓ تو ھم نے اُن کو گنتی کے کئ برس کے لیۓ نیند کی آغوش میں پُہنچادیا ، پھر ایک مُدت بعد ھم نے اُن کو نیند سے جگایا تاکہ پہاڑی خلا میں سونے والے اور وادی میں آزادی کے ساتھ رہنے والے دونوں انسانی گروہ جان جائیں کہ ھم نے کس گروہ کو کتنے زمانے تک نیند کے حال میں اور کس گروہ کو کتنی مُدت تک بیداری کے اَحوال میں رکھا ھے ، اَب ھم آپ کو اُن نوجوانوں کی وہ سرگزشت سُناتے ہیں جنہوں نے حق کے دُشمنوں کے درمیان اپنی جان و ایمان کی حفاظت کے لیۓ اپنے رَب پر بھروسا کیا تو رَب نے اُن کو حیات کے ایک صبر آزما تجربے سے گزرنے کی ہمت دے دی اور جب ھم نے اُن کے دلوں پر اپنا اعتماد ثبت کر دیا تو وہ یہ کہہ کر اُٹھ کھڑے ہوۓ کہ ھمارا خالق و مالک بھی وہی ھے جو زمین و آسمان کا خالق و مالک ھے اور اَب ھم اپنے اُس خالق و مالک کے سوا کسی سے بھی کوئی استدعا نہیں کریں گے کیونکہ خالقِ جہان پر بھروسا کرنے کے بعد کسی اور سے التجا کرنا عقل و دانش کے خلاف ھے اور ھمارے اِن فریب خوردہ قومی رہنماؤں نے اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر اپنے لیۓ جو دُوسرے کار ساز بنا رکھے ہیں اُن کی حقیقت اُن کے ایک فکری فریب سے زیادہ کُچھ بھی نہیں ھے ، اگر اُن کی سوچ سَچ مُچ سَچ ہوتی تو ان کے پاس اپنے قول و عمل کی کوئی قابلِ فہم دلیل بھی ضرور موجُود ہوتی لیکن اِن کے پاس تو اپنے کسی عمل کی کوئی بھی دلیل موجُود نہیں ھے ، آخر اُس شخص سے بڑا معصیت کار اور کون ہوگا جو اپنے مَن سے جُھوٹ بناۓ اور پھر اپنے اُس مَن گھڑے جُھوٹ کو اللہ کی ذات سے منسوب کر دے ، اِس سے پہلے کہ دلیل دہی اور دلیل طلبی کے یہ انداز دیکھ کر اہلِ اقتدار آپے سے باہر ہوجاتے اِن نوجوانوں میں سے ایک نوجوان نے ایک دن ایک فیصلہ کن نتیجے پر پُہنچ کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ جب تُم نے اقتدار اور اختیار کے اِن پُجاریوں سے ترکِ تعلق کا ارادہ کر ہی لیا ھے تو اَب اِن کے درمیاں رہنے سے بہتر ہوگا کہ تُم کسی غار میں جا بیٹھو ، ہو سکتا ھے کہ پروردگار تُم پر اپنی رحمت کا سایا ڈال دے اور تمہیں اپنی اِس ذہنی بے آرامی کے بعد کُچھ آرام بھی مل آجاۓ !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سُورةُالکہف کی پہلی آٹھ اٰیات جنگِ توحید اور جنگِ تثلیث کے اُس دور کے تاریخی تذکرے پر مُشتمل تھیں جس دور میں جہاں ایک طرف زمین کے کُچھ صاحبِ اقتدار لوگ زمین پر باپ بیٹا رُوح القُدس کا ایک خود ساختہ عقیدہِ تثلیث پھیلانے میں مصروفِ عمل تھے تو دُوسری طرف اُسی زمین پر اُسی زمین کے کُچھ بے اختیار لوگ بھی عقیدہِ توحید کی بحالی کے لیۓ مصروفِ عمل تھے ، انسان کی انسان کے ساتھ توحید و تثلیث کی اِس جنگ کا نفسیانی پَس منظر ہمیشہ سے یہ رہا ھے کہ انسان اللہ تعالٰی کی مخلوق میں ایک ذہین اور طاقت ور مخلوق ہونے کے باعث ایک حاکمانہ مزاج کی حامل مخلوق ھے اور اِس مخلوق کے اِس حاکمانہ مزاج کی خُوبی یہ ھے کہ ھدایت جو اِس مخلوق کی فطرت میں موجُود ھے اور یہ مخلوق اُس ھدایت کو پانا بھی چاہتی ھے لیکن اِس مخلوق کے حاکمانہ مزاج کی خرابی یہ ھے کہ یہ مخلوق اللہ تعالٰی کی ھدایت کو اللہ تعالٰی کے ھادی سے اللہ تعالٰی کے ھادی کے طریقے پر پانے کے بجاۓ اپنے طریقے پر پانا چاہتی ھے اور اپنے حاکمانہ اقتدار کے لیۓ پانا چاہتی ھے اور جب اِس کی یہ نفسیاتی طلب پوری نہیں ہو تی تویہ اللہ تعالٰی کے اُس ھادی کی ذات کو اپنا اِلٰہ بنا کر اللہ تعالٰی کا انکار کر دیتی ھے کیونکہ ھدایت سے اِس کا مقصد ایک بالادست ہستی کی ھدایات کی اتباع کرنا نہیں ہوتا بلکہ ایک بالا دست ہستی کے نام پر معاشرے کے کم زور انسانوں سے اپنی ھدایات کی اتباع کرانا ہوتا ھے ، یہی وجہ ھے کہ انسانی تاریخ میں شرک کا پرچار کرنے میں ہمیشہ ہی بااختیار لوگ آگے آگے اور توحید کا اقرار کرنے میں ہمیشہ ہی بے اختیار لوگ پیش پیش رھے ہیں اور یہی وجہ ھے کہ باطل کے جتنے بھی علمبردار ہوتے ہیں وہ پہلے اللہ اور اللہ کے رسول کے نام پر عوامی حوالے کے لیۓ اپنے کُسی گُرو گھنٹال کو اپنا مرجعِ تقلید بناتے ہیں اور پھر اُس کے ایک اندھے مُقلد کے طور پر اپنا کاروبارِ اتباع و تقلید چلاتے ہیں ، سُورةُالکہف کی موجُودہ آٹھ اٰیات میں ایک خاص زمانے کے اِنہی با اختیار و بے اختیار لوگوں کا اَحوال بیان ہوا ھے جن میں سے ایک بااختیار طبقہ اپنے سیاسی اقتدار کو فروغ دینے کے لیۓ تثلیث کا پرچار کر رہا تھا اور ایک بے اختیار طبقہ توحید کی جنگ لڑنے والے اُن نوجوانوں پر مُشتمل تھا جس کا اِس واقعے میں ذکر کیا گیا ھے ، یہ وہ بے اختیار مگر فکری اعتبار سے بیدار نوجوان تھے جنہوں نے تثلیث کے خلاف علَمِ بغاوت بلند کیا تھا جس کی وجہ سے اہلِ اقتدار نے اُن کا جینا حرام کردیا تھا اور اُن نوجوانوں نے اُن ظالم لوگوں سے اپنی جان اور اپنا ایمان بچانے کے لیۓ اُس ویرانے کا رُخ کر لیا تھا جس میں وہ پہاڑی پناہ گاہ موجُود تھی جس کو قُرآن نے کہف نے کہا ھے اور اُسی کہف کے حوالے سے اُن مہاجر نوجوانوں کو "اَصحابِ کہف" کہا گیا ھے ، سُورةُالکہف میں بیان ہونے والے اِس تاریخی واقعے میں پہلا توجہ طلب لفظ کہف ھے اور کہف سے مُراد وہ عمومی پناہ گاہ ھے جس میں اُس زمانے کے مظلوم لوگ ظالم لوگوں کے ظلم سے بھاگ کر پناہ لیا کرتے تھے ، دُوسرا قابلِ ذکر لفظ رقیم ھے جو کلامِ عرب میں فعیل کے وزن پر مرقوم کے معنی میں آتا ھے جس سے مُراد کہف میں پناہ لینے والے اُن نوجوانوں کی وہ تاریخ ھے جو تاحال انسانی علم میں نہیں آئی ھے کیونکہ انسان نے تا حال اَصحابِ کہف کی تاریخ پر توجہ دینے کے بجاۓ صرف اَصحابِ کہف پر یا صرف کہف پر توجہ دی ھے اور تیسرا لفظ "فتیة" جمع مُکسر ھے جس سے اُن بہت سی جماعتوں میں میں اُن نوجوانوں کی وہ توحید پرست جماعت مُراد ھے جس کا اِن اٰیات میں ذکر ہوا ھے ، چونکہ توحید اور تثلیث کی اِس جنگ میں یہی ایک جماعت شامل نہیں تھی جس کا ایک مثال کے طور پر یہاں ذکر کیا گیا ھے اِس لیۓ اٰیاتِ بالا میں سے پہلی اٰیت میں سب سے پہلے اللہ تعالٰی نے سیدنا محمد علیہ السلام سے یہ ارشاد فرمایا ھے کہ آپ ہر گز یہ خیال نہ کریں کہ انسانی تاریخ میں انسانی جرات و بہادری اور انسانی عزم و ہمت کا یہی ایک واقعہ ھے جس کا ھم نے یہاں ذکر کیا ھے بلکہ حقیقت یہ ھے کہ یہ واقعہ انسانی تاریخ کے بے شمار واقعات میں سے ایک قابلِ ذکر واقعہ ھے جس کو ھم نے انسانی عزم و ہمت کے حوالے سے یہاں پر بیان کیا ھے اور قُرآن نے یہ واقعہ سیدنا محمد علیہ السلام کی اُس مُجوزہ ہجرت کے حوالے سے بیان کیا ھے جس کا سُورةُالاَسرٰی کے آغاز میں ذکر ہوا ھے اور پھر اسی سُورت میں ہجرت ہی کے حوالے سے مُوسٰی و قومِ مُوسٰی کی اُس ہجرت کا ذکر کیا گیا ھے جس ہجرت کے بعد قومِ مُوسٰی چالیس برس تک ایک سنگلاخ زمین میں اِس طرح بہٹکتی رہی ھے کہ قومِ مُوسٰی کے کُچھ قبائل کا تو آج تک کوئی سرا سراغ نہیں ملا ھے اور اِن دو ہجرتوں کے بعد ابنِ مریم کے ماننے والوں میں سے اُن خاص ماننے والوں کا ذکر کیا گیا ھے جن کی فطرت سلیم تھی اور جو کلامِ وحی کے مزاجِ تنزیل کو سمجھ کر قُرآن کی صداقت کو تسلیم کرتے تھے اور اَب اُسی قوم کے اُن چند قدیم حق پرست نوجوانوں کا ذکر کیا گیا ھے جن نوجوانوں کے بھائی بند اَب اُس شہرِ مدینہ میں موجُود تھے جس شہرِ مدینہ میں سیدنا محمد علیہ السلام نے اپنی جماعت کے ساتھ ہجرت کر کے جانا تھا اور اِن نوجوانوں کے اِس خاص واقعے سے آپ کو یہ بتانا تھا کہ آپ کی اور آپ کی اُمت کی یہ ہجرت زمین سے غار کی طرف نہیں ھے بلکہ ایک شہرِ ناہموار مکہ کی طرف سے شہرِ ہموار مدینے کی طرف ھے اور اُس شہر کی سکونت و حکمرانی آپ کے اُس صبر کا بدلہ ھے جس صبر کا آپ نے اور آپ کے اَصحاب نے تیرہ برس تک شہرِ مکہ میں رہ کر مظاہرہ کیا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 458062 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More