اِرادَہ و عمل اور توفیقِ اِرادَہ عمل !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُ الاَسرٰی ، اٰیت 97 تا 100 ازقلم مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآم کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
من یھداللہ
فھوالمھتد ومن
یضلل فلن تجدلھم
اولیآء من دونہٖ ونحشرھم
یوم القیٰمة علٰی وجوھھم عمیا
وبکما وصما ماوٰھم جھنم کلماخبت
زدنٰھم سعیرا 96 ذٰلک جزاؤھم بانھم کفروا
باٰیٰتنا وقالو اءاذاکناعظاما ورفاتاءانالمبعوثون خلقا
جدیدا 98 اولم یروا ان اللہ الذی خلق السمٰوٰت والارض
قادرعلٰی ان یخلق مثلھم وجعل لھم اجلا لاریب فیہ فابٰی
الظٰلموم الا کفورا 99 قل لو انتم تملکون خزائن رحمة ربی
اذا لامسکتم خشیة الانفاق وکان الانسان قتورا 100
جو انسان اپنی فطری ھدایت کے باعث اللہ سے فکری ھدایت چاھے گا وہ اللہ سے فکری ھدایت پاۓ گا اور جو انسان اپنی طبعی جہالت کے باعث اپنی طبعی جہالت میں رہنا چا ھے گا وہ اپنی طبعی جہالت کے اندھیرے ہی میں بہٹکتا رہ جاۓ گا اور جو انسان جہالت کے اِس اندھیرے میں ڈُوب جاۓ گا تو اللہ تعالٰی کا اَزلی نوشتہ قُرآن ہی اُس کو روشنی میں واپس لاۓ گا اور جو انسان جہالت کی تاریکی سے نکل کر قُرآن کی روشنی میں نہیں آۓ گا تو اُس کو مرنے کے بعد ملنے والی زندگی میں اللہ تعالٰی کی اِس کتاب کو دیکھے بغیر ، اللہ تعالٰی کی اِس کتاب کو سُنے بغیر اور اللہ تعالٰی کی اِس کتاب سے کُچھ پُوچھے بغیر زندہ رہنے کے جُرم میں اَندھا ، بہرا اور گونگا بنا کر جہنم کی اُس آتشیں وادی میں دھکیل دیا جاۓ گا جس کا لَمحہ بہ لَمحہ گرم رہنے اور گرم رکھنے والا ماحول لَحظہ بہ لَحظہ اُس انسان کو جلاۓ گا اور آتی جاتی سانس کے ساتھ مُسلسل رُلاۓ گا اور جن دیکھنے ، سُننے اور بولنے کی قوت سے محروم لوگوں کو اُس گرم گیر وادی کی طرف ہانکا جاۓ گا اُن کا پہلا جُرم اللہ کی اٰیات کو جُھٹلانا ہو گا ، دُوسرا جُرم اللہ تعالٰی کے اِس اختیار سے انکار کرنا ہوگا کہ وہ اُن کی ریزہ ریزہ ہو کر مِٹی میں مل جانے والی ہڈیوں کو دوبارہ جوڑ کر اُن کو دوبارہ زندہ کر سکتا ھے اور اِن کا تیسرا جُرم یہ ہو گا کہ اُن لوگوں نے اِس بات پر کبھی غور ہی نہیں کیا ہوگا کہ اِس عظیم عالَم کا جو عظیم خالق اپنی عظیم قُوت و قُدرت سے اَرض و سما جیسی عظیم چیزیں پیدا کر چکا ھے تو اُس کے لیۓ اپنے مقررہ وقت پر اُن بڑی چیزوں سے برتر یا اِن چھوٹی چیزوں سے کم تر چیزوں کو پیدا کرنا کُچھ بھی کُچھ بھی مُشکل نہیں ھے لیکن اِن بے انصاف لوگوں کا تو مقصد ہی حق کو جاننے کے بعد حق انکار کرنا اور پھر عُمر بھر اِس انکار پر قائم رہنا ھے ، آپ اِن لوگوں کو بتا دیں تُمہارے انکارِ حق ، تُمہاری حرصِ زَر اور تُمہارے ارتکازِ زر نے تُمہاری فطرت اتنی مسخ کردی ھے کہ اگر اللہ تعالٰی تُم کو زمین کے سارے خزانے بھی عطا فرما دے تو تُم زمین کے اُن خزانوں کے زمین سے ختم ہو جانے کے خوف سے مخلوقِ خدا تک نہیں پُہنچنے دو گے کیونکہ اَب تُم اللہ کی مُسلسل نافرمانی کے باعث اتنے ہی تنگ دل اور اتنے ہی سنگ دل بن چکے ہو !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے مُتعدد مقامات پر یہ بات پُوری صراحت کے ساتھ بیان کی ھے کہ جس انسان نے علم و ھدایت کو اپنانا ھے تو اُس کا فائدہ بھی اُسی نے پانا ھے کیونکہ جب بھی اُس کا کوئی مآل آنا ھے اُسی پر آنا ھے اور جس انسان نے علم و ھدایت کے بجاۓ جہالت و ضلالت کو اپنانا ھے تو اُس کا نقصان بھی اُسی نے اُٹھانا ھے کیونکہ جب بھی اُس کا کوئی وبال آنا ھے تو وہ بھی اُسی پر آنا ھے لیکن قُرآنِ کریم کی اِس وضاحت و صراحت کے باوجُود بھی سُوۓ اتفاق یہ ھے کہ اِس اُمت کے بڑے بزرگوں سے لے کر چھوٹے برخور داروں تک سب نے اجتماعی طور پر یہ عقیدہ اختیار کر رکھا ھے کہ اللہ تعالٰی جس کو ھدایت دینا چاہتا ھے اُس کو ھدایت کی راہ پر چلا دیتا ھے اور ضلالت کی راہ پر چلانا چاہتا ھے اُس کو ضلالت کی راہ پر لگا دیتا ھے ، اہلِ اسلام کا یہ عقیدہ اتنا پسندیدہ عقیدہ ھے کہ ہر جمعے اور عیدین کے خُطبے میں ہر مُسلم خطیب اپنے اِس معروف اور پسندیدہ عقیدے کا اعلان کرتا ھے تاکہ ہر مُسلمان اِس عقیدے کو ہمیشہ یاد رکھے ، اگر یہ عقیدہ درست ھے تو محشر کا جو میدان لگے تو وہ صرف جاننے کے لیۓ لگے گا کہ اللہ تعالٰی نے جس انسان کو ھدایت دی ھے تو اُس نے ھدایت قبول کی ھے یا نہیں کی ھے اور اللہ تعالٰی نے ضلالت جس انسان کا مُقدر کی ھے تو وہ ضلالت بھی اُس کا مُقدر بنی ھے یا نہیں بنی ھے اور اگر ھدایت و ضلالت کا دینا نہ دینا اللہ تعالٰی کا اپنا فعل ھے تو پھر جزا و سزا کا مقصد کیا ھے ؟ مُسلم فلاسفہ کی مُجرم تاریخ سے معلوم ہوتا ھے کہ ھدایت و ضلالت کے فعل کو اللہ تعالٰی کی ذات سے منسوب کرنے کا اعتقاد مُسلم معاشرے کا وہ پُرانا اعتقاد ھے جس کا یونانی و ایرانی فلسفے نے بیج بویا اور پھر مُسلم فلاسفہ نے اِس کی نرسری لگائی یہاں تک کہ یہ ایک گُنجان جنگل بن گیا ، مُسلم فلاسفہ میں اِس اعتقاد کا جو پہلا سراغ ملتا ھے وہ یہ ھے کہ ایک روز ابوالحسن اشعری نے اپنے اُستاد الجبائی سے پُوچھا فرض کریں کہ ایک باپ کے تین بیٹے ہیں جن میں سے ایک مومن ہو کر مرا ھے ، ایک کافر رہ کر مرا ھے اور ایک بچپن ہی میں اُس وقت مر گیا ھے جب وہ مومن بھی نہیں ہوا تھا اور کافر بھی نہیں ہوا تھا تو آپ کے نزدیک قیامت کے روز اِن تین کے ساتھ کیا معاملہ پیش آۓ گا ، الجبائی نے کہا کہ مومن جنت میں کافر جہنم میں اور بچہ اَعراف میں جاۓ گا ، اشعری نے کہا فرض کریں کہ بچہ اللہ تعالٰی سے کہے کہ میں بلُوغ کی مُعتبر عُمر تک پُہنچنا چاہتا تھا ، مومن بن کر مرنا چاہتا تھا اور جنت میں جانا چاہتا تھا ، مُجھے جوان ہونے اور ایمان لانے کا موقع کیوں نہیں دیا گیا ، الجبائی نے کہا کہ اللہ تعالٰی اُس سے کہے گا کہ میں جانتا تھا کہ اگر تُم زندہ رھے تو میری نافرمانی کروگے اور مرنے کے بعد جہنم میں جاؤگے اِس لیۓ میں نے تُمہاری بَھلائی چاہی اور تمہیں بچپن میں موت دے کر جہنم سے بچالیا ، اشعری نے کہا ایک بار پھر فرض کریں کہ کفر کی حالت میں مرنے والا بھائی کہتا ھے کہ میرے رَب ! تُونے میرے بھائی کی بھلائی چاہی تو اُس کو بچپن میں موت دے کر جہنم سے بچالیا تو تُو نے یہی بھلائی میرے ساتھ کیوں نہیں کی اور مُجھے کیوں جوان ہونے دیا اور جوان ہونے کے بعد پہلے کافر بننے کا موقع فراہم کیا اور اَب میرے اُس کفر کی بنا پر مُجھے جہنم میں پُنچا دیا ، ابوالحسن کے اِس سوال کا الجبائی کوئی جواب نہ دے سکا اور ابوالحسن اِس بحث سے اِس نتیجے تک پُہنچا کہ دینی معاملات میں عقلی ہی آخری حاک و حکم نہیں ھے اِس لیۓ کُچھ چیزوں پر عقلی فیصلے کے خلاف جانا اور عقلی فیصلے کے خلاف ہو کر ایمان لانا ضروری ھے ، الجبائی نے ابوالحسن کے جس سوال کا جواب نہیں دیا اُس کے بعد کے کسی مُسلم فلسفی نے بھی اِس کا کوئی جواب نہیں دیا ، ہمیں مُسلم فلاسفہ کی اِس بحث پر کُچھ نہیں کہنا سواۓ اِس کے کہ انسان کی ھدایت و ضلالت کو اللہ تعالٰی کا فعل قرار دینا بذاتِ خود ایک جہالت ھے جس کو انسان نے خود اختیار کرتا ھے اور خود ہی اپنے اِس اختیار کا ذمہ دار بھی ہوتا ھے اور اسی طرح موت کے بھی طبعی قوانین مقرر ہیں جب تک وہ طبعی قوانین یَکجا نہیں ہوتے انسان موت سے بچا رہتا ھے اور جب موت کے وہ فطری قوانین یَکجا ہوجاتے ہیں تو انسان کی موت واقع ہو جاتی ھے ، زیرِ بحث معاملے کی حقیقت صرف یہ ھے کہ انسان کو اللہ تعالٰی نے ارادے اور عمل کا یہ مشروط بالشرط کا اختیار دیا ہوا ھے کہ وہ جب بھی کوئی عمل کرنا چاھے گا تو اُس کا ارادہ سلب نہیں کیا جاۓ گا بلکہ اُس کو اُس کے ارادے پر عمل کی تو فیق دے دی جاۓ گی کیونکہ اُس کے ساتھ اُس کے ارادہ و عمل کی اَنجام دہی کی توفیق کا وعدہ کیا گیا ھے ، وہ مُثبت عمل کرنا چاھے گا تو اپنے جسم و جان میں اُس کی توفیق کو موجُود پاۓ گا اور اگر مَنفی عمل کرنا چاھے گا تو اُس کی توفیق سے بھی اُس کو محروم نہیں کیا جاۓ گا ، مُسلم فلاسفہ کے جس فلسفے کو ھم نے ایک تاریخی تمثیل سے واضح کیا ھے اہلِ روایت اُسی فلسفہِ جہالت کے مطابق ھدایت اور ضلالت کے فعل کا اللہ تعالٰی کو فاعل قرار دیتے ہیں اور اٰیتِ بالا سمیت ہر مقام پر وہ اسی فلسفے کے مطابق ھدایت و ضلالت کا یہی روایتی مفوم پیش کرتے ہیں اور ھم نے اٰیتِ بالا کا جو مفہوم پیش کیا ھے وہ اِس کے برعکس ھے اور اُس برعکس مفہوم کے مطابق انسان اپنے ہر مُثبت و مَنفی عمل کا خود ذمہ دار ھے اور اُن کے نتائج کا بھی خود ہی ذمہ دار ہو گا !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 447335 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More