قُرآن اور نظریہ مقادیرِ عنصری اور نظریہِ تشاکل !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورةُالاَسرٰی ، اٰیت 84 ازقلم مولانا اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
قل
کل یعمل علٰی
شاکلة وربکم اعلم
بمن ھو اھدٰی سبیلا 84
اے ھمارے رسول ! آپ اپنے زمانے کے لوگوں کو اِس بات سے بھی آگاہ کر دیں کہ عالَمِ ہست و بُود میں ہر شکل والے کا ایک مُتشکل ھے اور ہر شاکل و مُتشکل اپنے اپنے ہَمشکل کے عمل کے مطابق عمل کرتا ھے اور اِن میں سے جہاں جہاں پر جو جو بھی شاکل و مُتشکل اور ہَمشکل اپنے رَب سے ھدایت و رہنمائی چاہتا ھے تو وہ ضرور اپنے رَب سے ھدایت و رہنمائی پاتا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
علم و سائنس کے جس قانونِ تفہیم "کیاھے" کیوں ھے " اور "کیسے ھے" کا ھم نے گزشتہ سے پیوستہ اٰیات کے ضمن میں آنے والے اپنے تشریحی نوٹ میں ذکر کیا تھا اُس قانون کا اطلاق گزشتہ اٰیات کے ضمن میں آنے والے ھمارے اُس تشریحی نوٹ پر بھی ہوتا ھے جو سیدنا محمد علیہ السلام کی بین الکائناتی نبوت کے بارے میں ھم نے تحریر کیا ھے اور اللہ علیم و خبیر چونکہ انسانی دلوں سے سارے گزرے ، گزرنے والے اور آنے والے خیال و اَحوال کو جانتا ھے اِس لیۓ اُس نے قُرآنِ کریم کی اٰیتِ بالا میں خود ہی انسان کو انسان کے اُن سارے قلبی و خیالی سوالوں کا وہ جواب فراہم کر دیا ھے جس سے عالَم کے اِن اَحوال میں سے کُچھ اَحوال کی کُچھ عُقدہ کشائی ہوجاتی ھے اور کُچھ اَحوال کی عُقدہ کشائی ہو سکتی ھے ، اِس نظریۓ کی بُنیاد یہ ھے کہ انسانی نگاہ کو اپنے یمین و یسار میں جو عالَم نظر آ رہا ھے وہ بے شمار عوالَم کا ایک عالَم ھے اور انسانی نگاہ کو اِس عالَم میں جو شئی تنہا نظر آرہی ھے وہ تنہا شئی نہیں ھے بلکہ کسی تنہا شئی کی منہا شئی ھے یا پھر کسی تعدد کا ایک عدد ھے ، اسی طرح عالَم میں جو فرد ، جوہر یا عرض ھے وہ کسی دُنیا کے کسی فرد ، جوہر اور عرض کا تشاکل Resemblance ھے ، عالَم کا تعدد Frequencyinnumber اور عالَم کا تشاکل دو الگ چیزیں ہیں ، پہلی چیز عالَم کا تکاثر Computation اور دُوسری چیز افرادِ عالَم کی شباہت و ہَم رنگی Similarity کا اظہار ھے ، فلسفہِ تشاکل کی بُنیاد یہ ھے کہ ذَرَہ مُتشکل ھے اور ہر مُتشکل کا عالَم میں کہیں نہ کہیں پر کوئی نہ کوئی ہَم شکل ھے ، جو مُتشکل ایک مقام پر موجُود ھے اُس کا ہَم شکل کسی دُوسرے مقام پر بھی موجُود ھے ، اِس نظریۓ کے مطابق جہان میں کوئی جان جہان ، منظر یا نظارہ تَنہا نہیں ھے بلکہ ہر جان کسی جان کے ہم راہ ، ہر جہان کسی جہان کے ہم رکاب ، ہر نظارہ کسی نظارے کا ہَم دوش اور ہر منظر کسی دُوسرے منظر کے دوش بدوش ھے ، ذَرہِ مُتشکل کی حقیقت و اعمال کے بارے میں نظریہ مقادیرِ عنصری Theoreofquantumphysic میں بہت دقیق اور علمی بحث کی گئی ھے ، اِس نظریۓ کے ماہرین کا کہنا ھے کہ عالَم نُورانی ذَروں کا ایک مُسلسل کھیل ھے جس کا پلے گراؤنڈ ھماری محدُود صرف دُنیا نہیں نہیں ھے بلکہ اِس کا پلے گراونڈ ھماری دُنیا کے علاوہ ایک ایسی وسیع کائنات بھی ھے جس کے سامنے ہماری یہ زمین محض ایک ذرہِ بے مقدار ھے اور قُرآنِ کریم کی مُحولہ بالا اٰیت کا مفہوم بھی یہی ھے کہ عالَمِ ہست و بُود کا کوئی فردِ واحد ، فردِ واحد نہیں ھے بلکہ اِس عالَم میں جو بھی شَکل والا موجُود ھے اُس کا ایک ہَم شکل بھی دُوسرے عالَم میں موجُود ھے اور عالَم میں ہر شَکل والے کے ایک ہَم شکل کا یہ جو علمی و فکری خیال ھے اس خیال کا ایک معروف نام "نظریہ مقادیرِ عنصری" اور اسی نظریۓ کا ایک دُوسرا نام "نظریہ تشاکل" بھی ھے ، لَفظِ "شاکلة" شاکل یشاکل سے ایک اسمِ مصدر ھے جس کا اسمِ مُذکر "شاکل" اسمِ مُؤنث "شاکلة" اور اسمِ جمع "شواکل" ھے اور اِس کا مصدری و مقصدی معنٰی دو مُختلف اَشیاء یا دو مختلف اَفراد کا ایک دُوسرے کا ہمشکل ہونا ھے اور اِس نظریۓ کا مطلب یہ ھے کہ ھم جس دُنیا میں رہتے ہیں ھمارے اِس عالَم میں ایسی ہی ایک دُوسری دُنیا بھی موجُود ھے اور ھم جس چیز یا جس انسان کی شکل کو دیکھتے ہیں اُس چیز جیسی دُوسری چیز اور اُس شکل جیسی دُوسری شکل بھی اسی عالَم کے کسی دُوسرے گوشے میں کہیں نہ کہیں پر موجُود ھے ، اِس نظریۓ کا حاصل یہ ھے کہ ھم جس عالَم کو دیکھ رھے ہیں وہ ایک تنہا عالَم نہیں ھے ، ھم اِس عالَم کی جس چیز کو دیکھ رھے ہیں لیکن مُسلم معاشرے میں یہ نظریہ ہنُوز ایک تشریح طلب نظریہ ھے کیونکہ ھمارے تشریف شریف کو دھونے اور تشریف شریف کو دُلھانے والے بزرگانِ دین اپنی اِن دھونے دُھلانے کی اَھم مصروفیات کے باعث اِس نظریۓ کی کوئی علمی و فکری تشریح کیۓ بغیر ہی دُنیا سے تشریف لے گۓ ہیں تاہَم ایک برطانوی عالم Thomasyuong 1829 - 1773 نے اِس نظریۓ پر بہت اَھم علمی کام کیا ھے اور اِس اھم کام کرنے والے تھامس ینگ کی اپنی علمی اہمیت یہ ھے کہ اِس کے بارے میں کہاجاتا ھے کہ یہ عالِم ہماری دُنیا کا وہ آخری عالِم ھے جو دُنیا کے بارے میں سب کُچھ جانتا ھے اور اِس کے بعد دُنیا میں کوئی اور ایسا عالِم نہیں ھے جو تھامس ینگ کی طرح دُنیا کے بارے میں سب کُچھ جانتا ھے ، مُمکن ھے کہ تھامس ینگ کی اِس تعریف میں کُچھ مُبالغہ بھی شامل ہو لیکن یہ بھی ایک حقیقت ھے کہ تھامس ینگ کے بعد کبھی بھی کسی اور عالِم کو اِس علمی خطاب کا مُستحق نہیں سمجھا گیا ، تھامس ینگ نظریہ تشاکل کے بارے میں اپنے بہت سے علمی و عملی تجربات کے بعد نتیجہِ کلام پر اظہارِ خیال کرتے ہوۓ کہتا ھے کہ جب کبھی زمین پر ہم کسی نُورانی ذَرّے کو دُوسرے ذَرّات سے الگ کرتے ہیں تو کسی دُوسرے عالَم سے فوراً ہی ایک ذَرہ زمین پر آکر اِس تنہا ذَرّے کا ساتھی بن جاتا ھے ، تھامس ینگ ذَرّوں کی اِس نقل و حرکت سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ھے کہ اگر ذَرّے کا Duplicat دُوسرے جہان میں موجُود ھے تو انسان اور عالَم کا ڈُپلی کیٹ بھی عالَم میں کہیں نہ کہیں پر موجُود ہونا چاہیۓ کیونکہ عالَم اور اَفرادِ عالَم اسی ایک ذَرّے سے بنے ہیں جو ہر جان و جہان میں موجُود ھے ، اگر ذَرّے کے ایک مظہر کو عقل تسلیم کرتی ھے تو اسی ذَرّے کے دُوسرے مظاہر کو تسلیم کرنے بھی کوئی دقت نہیں ہونی چاہیۓ ، نظریہ مقادیرِ عنصری یا فلسفہِ تشاکل کی رُو سے ھم انسان جس طرح اپنی محسوس کائنات میں موجُود ہیں اسی طرح ایک غیر محسوس کائنات میں بھی موجُود ہیں لیکن ہم اُن دو جُڑواں بچوں کی طرح ایک دُوسرے سے اَجنبی ہیں جو ایک ماں کے پیٹ میں پرورش پانے اور ایک ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے باوجُود بھی ایک دُوسرے کے بارے میں کُچھ نہیں جانتے لیکن اِس اجنبیت کے باوجُود بھی ھماری وہ غیر محسوس کائنات ھماری محسوس کائنات کا ایک پرتَو ھے اور ھماری یہ محسوس کائنات بھی اُس غیر محسوس کائنات کا ایک عکس ھے اور قُرآنِ کریم کی اٰیت { ومن کل شئی خلقنازوجین } بھی اِس نظریۓ پر ایک دلیل ھے ، اِس نظریۓ کے مطابق عالَمِ موجُود میں جو انسان اپنی جن مُثبت و مَنفی حرکت و عمل کے ساتھ جس طرح موجُود ھے اُن اَجنبی جہانوں میں بھی وہ انسان اپنی اِن ساری مُثبت و مَنفی حرکت و عمل کے ساتھ اسی طرح موجُود ھے ، یہ بسیط Extend سے مُرکب سے Compond کا ایک سفر ھے اور مخلوق اِس میں محوِ سفر ھے ، بسیط میں جو مادی خاکے شفاف Transprent ہوتے ہیں وہ مُرکب میں آکر خاکی Dusty ہو جاتے ہیں اور یہی خاکی اَجسام جب بسیط میں لوٹ کر جاتے ہیں تو نُور کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں ، فی زمانہ ھم علم کے اُس سیلابی دور سے گزر رھے ہیں جس سیلابی دور میں بہاؤ ہی بہاؤ ھے ، کُچھ عرصے بعد جب اِس بہاؤ میں ٹھہراؤ آجاۓ گا تو آج جو چیزیں بہت بہتر طور پر سمجھ نہیں آتی ہیں وہ سب چیزیں بہت بہتر طور پر سمجھ آنے لگیں گی !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 447344 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More