معراج النبی ۔۔۔ قدرت الہیہ کا مظہر

بلغ العلی بکمالہ
کشف الدجی بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلوا علیہ و آلہ
معراج النبی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سید الکائنات نبی آخر الزمان خاتم المرسلین صاحب قاب و قوسین کا وہ معجزہ ہے جو معراج البشریت کا اعلیٰ مقام بھی ہے۔ آج تک سائنس تخسیر افلاک اور سائنسی تحقیقات کر کے جب نقوش کف پائے مصطفی کو پاتی ہے تو انگشت بدنداں ہو جاتی ہے۔ اور کیوں نا ہو جب معراج النبی ایک معجزہ ہے اور معجزہ اسے کہتے ہیں جس کو سمجھنے سے انسانی عقل عاجز ہو۔ لفظ معجزہ عجز سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں استطاعت و استعداد و قوت سے عاری ہونا۔

عموما ۲۷ رجب کو شب معراج یا شب اسراء سمجھ کر منایا جاتا ہے۔ مسلمان علمآئے کرام اس کے چیدہ چیدہ نکات پر بحث وجدال میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔ جیسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کو دیکھا یا نھیں؟ اگر دیکھا تو کیا سر کی آنکھ سے دیکھا؟ اس رات کی عبادت واجب ہے مستحب ہے یا اس کی دلیل کیا ہے؟ اور دوسرا طبقہ جو علم کے ہتھیار سے غیر مسلح ہے وہ طرح طرح کے بدعات و رسومات میں الجھ گیا ہے۔ دن کے حلوے رات کے سو نفل وغیرہ وغیرہ جو میرا موضوع سخن نہیں۔
میرے مخاطب وہ تیسرا طبقہ ہے جو مسلمانوں اور کافروں میں سے ہے اور تشکیک کے غبار لیے معراج شریف کی حقیقت سے انکاری ہے۔

ایک بات ذہین نشین کر لیں کہ معراج النبی کا فلسفہ جس کو سسمجھ آ گیا اس کا ایمان قائم ہو گیا اور جس نے اس کا انکار کیا اس نے گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی۔ علامہ طاہر القادری کہتے ہیں کہ معراج النبی قصر ایمانی کا بنیادی پتھر ہے۔ اس سے شان رسالت محمدیہ کا طرة امتیاز قائم ہوتا ہے اور ختم نبوت کے لیے بھی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام انبیاء علیھم السلام کی امامت کروانا قوی دلیل ہے۔ اسی معراج میں جنت و دوزخ کے احوال واضح ہوئے گویا عقیدہ آخرت پر موجود بیشتر احادیث حضور اکرم صلی اللہ کے اس رات کے نظارے ہیں۔ اسی رات نماز کا تحفہ ملا۔ مگر ہم نے اس معجزے کو اپنی بدعات و خرافات کی نظر کر دیا۔اور تحفے کو فراموش کیے بیٹھے ہیں ۔ ہم خوار ہو رہے ہیں تارک قرآن و حدیث ہو کر اور اغیار سائنس پر تحقیقات کر کے اسرار خداوندی کی کھوج لگا رہے ہیں۔

اس امر میں سائنس سے پہلے ہمارے قرآنی دلائل موجود ہیں۔ تین ایسے اچھوتے اور ہوش ربا واقعات موجود ہیں جن پر اہل کتاب بھی متفق ہیں ۔

پہلا یہ کے حضرت سلمان علیہ سلام کا ایک امتی ملکہ سبا کا تخت نو سو میل کے فاصلے سے اٹھا کر ملکہ کے پہنچنے سے پہلے آن کی آن میں قصر سلمانی میں لے آیا۔ گویا اللہ نے اس کے لیے زمین سمیٹ لی یا اسی بجلی کی سی تیزی عطا کی۔

دوسرا اصحاب کہف کا تقریبا تین سو سال سوئے رہنا اور ان کے جسمانی حجم و صحت پر گردش ایام کا کوئی اثر نا ہونا قدرت الہیہ کی مستند دلیل ہے۔

تیسرا حضرت عزیر علیہ سلام کو اللہ نے ایک صدی تک سلائے رکھا اور انہوں نے گمان کیا لبثت یو ما او بعض یوم'۔ ایک طرف ان کا جانور ہڈیوں کا ڈھیر بن گیا دوسری طرف وہ تندرست وتواناں رہے۔ یعنی ایک ہی وقت میں الله نے اپنی ایک مخلوق کا وقت سو سال گزار دیا اور دوسرے کا ایک آدھے دن جتنا وقت ہی گزارا اس کا وقت ٹہرا دیا۔

اور اب آتے ہیں اللہ کے شانِ کن فیکون کے شاہکار کی طرف جس سے اس نے ایک ہی رات مین اپنے محبوب کو سر عرش بلا لیا ۔

سائنس کے مشہور سائنسدان آئینسٹائن اپنی تھیوری آف ریلیٹیویٹی میں کہتا ہے کہ اگر کوئی مادہ چیز روشنی کی رفتار سے سفر کرے تو وہ اپنا حجم اور جسم کھو دیتی ہے۔ اس کیفیت میں اس کا وقت صفر ہو جاتا ہے۔ یعنی ویلیو آف ٹائم زیرو ہو گئی۔

یہی معجزہ رسول میں ہوا اللہ نے اپنے نبی کو براق نامی سواری پر بٹھایا احادیث میں موجود ہے۔ براق عربی لفظ ہے جو برق کی جمع ہے اور برق کو اردومیں روشنی کہیں گے اور انگلش میں لائٹ۔ یعنی اللہ کے نبی نے سپیڈ آف لائٹ سے سفر کیا اوران کے لیے اللہ نے وقت کی طنابیں سمیٹ لیں زمیں سمیٹ لی ۔اورحمت للعالمیں نے کئی ہزار نوری سال یعنی لائٹ ایئرز کآ سفر رات کے کچھ حصےمیں طے کر لیا
شان خداوندی کے محبوب خدا کا جسمانی حجم بھی قائم رہا۔ سو جو لوگ صحابہ کرعم جیسا ایمان بالغیب نہیں رکھتے ان کے لیے حجت تمام ہے۔ جیسے اقبال نے فرمایا ہے
سبق ملا ہے معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
 

Hafsa Saqi
About the Author: Hafsa Saqi Read More Articles by Hafsa Saqi: 49 Articles with 43263 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.