لاہور کی شاہراؤں پر خواجہ سراؤں کی بارات

لاہور کا نام زبان پر آتے ہیں کمال چاشتی اور لذت محسوس ہوتی ہے اس شہر کو پھولوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے مجھے ذاتی طور پر اس شہر سے بہت محبت اور لگاؤ ہے اس شہر کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ ایک طرف حضرت داتا گنج بخش ہجویری المعروف داتا سرکار کا دربار ہے جہاں ہر وقت اﷲ کا فیض اور برکتوں کا نزورل ہوتا رہتا ہے یہی وہ شہر ہے جہاں عاشقِ رسول حضرت غازی علم دین شہید مدفون ہیں ، اسی شہر کو یہ شرف حاصل ہے، جہاں قلندر لاہور ڈاکٹر علامہ اقبال بادشاہی مسجد کے پہلو میں اپنی آخری آرام گاہ میں تشریف فرما ہیں الغرض لاہور ایک ایسا شہر ہے جہاں جب بھی کوئی روزی روٹی کمانے آیا تو اسی شہر کا ہوکر رہ گیا ۔ اس شہرکی خاصیت یہ بھی ہے کہ یہاں کے لوگ بہت زیادہ مہمان نواز اور میٹھے ہیں ، کھانوں کے شوقین اور ہر تقریب کو چار چاند لگا کر خوشیاں بانٹنے والے ہیں ۔لاہور کبھی مہکتا تھا ،لاہور کی ہر سڑک پُر فضا معطر ٹھنڈی ہوا وں سے مہکتی تھی۔ ہریالی سبزہ آپ کو ہر طرف نظر آتا تھاجو اس شہر کے حسن کو مذید خوبصورت بنا دیتاتھا ۔

ہمیں اپنے گھروں اپنی چیزوں اور سامان کا جس قدر احساس اور خیال ہوتا ہے ویسا ہم اپنے لاہور کے ساتھ نہیں کر پا رہے لاہور کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں جہاں کبھی ہر طرف سے خوشبو آتی تھی آج کے لاہور کو دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے جگہ جگہ کوڑا کرکٹ بکھرا پڑا ہے ، بد بُو وہاں رہنے والوں اور گذرنے والوں کے لیے نہ صرف صحت پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے بلکہ لاہورکی خوبصورتی کو مدھم کر رہی ہے ۔بحیثتت قوم ہمیں خود سے بھی اپنے شہر کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا ہے ، ہمارا ایک وطیرہ یہ بھی بن چکا ہے ہم ہردوسروں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی ، فُلاں کا کام ہے وہ کیوں نہیں کر رہا، نہیں میرے دوستو،بھائیو، بہنوں عزیزو ہم سب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے جیسے اپنے گھر کی صفائی ستھرائی ہم خود کرتے ہیں ایسے ہی اپنے گلی محلے شہر اور مُلک کی صفائی ستھرائی ہمیں خود کرنی چاہیے حکومت وقت کا جو کام ہے وہ ضرور کرے گی اگر ہم عوام تعاون کریں گے تو۔

اب بات کرتے ہیں ایک بہت ہی سنجیدہ مسلئے پر، لاہور کی کسی بھی سڑک ، چوک ، اشارے کو ہی لے لیں وہاں خواجہ سراؤں کی بارات کھڑی ہوتی ہے گاڑی یا موٹر سائکل ایک منٹ کے لیے روک لیں تو معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی بارات ہے جو سگنل کُھلنے کا انتظار کر رہی ہو۔گاڑی کے شیشے بند بھی کر لیں تو ساتھ چپک جاتے ہیں اگر آپ نے دس روپے یا کم دیے تو اس پر آپ کی ایسی تیسی بھی کریں گے ، ان کو ایک سو روپے کے نوٹ سے کم دیں گے تو بد دعائیں بھی دیں گے ۔ اور جیسے ہی آپ اگلے اشارے پر رُکے آپ کے ساتھ پہلے جیسا ہی سلوک ہوگا ۔ گویہ لگتا ایساہے دفتر یا فیکٹری میں تو آٹھ گھنٹہ یاد س گھنٹہ ڈیوٹی دی جاتی ہے یہاں پر تو دو دو گھنٹے کے بعد شفٹ بدلتی ہے ۔ اب ذرا ان کے نخرے اور ٹِشن دیکھیں ، اچھے والا موبائل ، مہنگا بھڑکیلا سوٹ، آٹھ دس ہزار والا میک اپ ہیل والی جوتی اور اُنگلیوں میں دبائے ہوئے سو ، پانچ سو والے نوٹ اور تالیا ں بجاتے کسی بھی گاڑی کے ساتھ چپکنا کہ بس توبہ توبہ ۔چوکوں شاہراوں پر ایسے لوگوں کا بڑھتے ہوئے رجحان پر اگر توجہ نہ دی گئی تو پیشہ ور مجرم پیدا ہونگے ۔ اس سے نہ صرف معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا بلکہ جرائم پیشہ افراد کو مذید موقع ملے گاکیونکہ ان میں درست نشاندہی کرنا مشکل ہے کہ اصل میں خواجہ سرا کون ہے ؟ یہ ایک مافیا ہے ۔ ایک معاشرتی بُرائی ہے ، اگر اس کا قمع قلا نہ کیا گیا تو اس سے مذید بُرائیاں پیدا ہونگی۔

محنت کرنے والے کو اﷲ کا دوست کہا جاتا ہے ۔ اب جس کا دوست اﷲ کریم ہو اُسے کس چیز کی کمی ۔ خواجہ سرا ؤں کی ٹرینگ ہو نی چاہیے اِن کو علم سکھانا چاہیے ،ہُنر سکھانا چاہیے۔ یہ لوگ بھی علم اور ہُنر سیکھ کر دوسرے لوگوں کی طرح ملک و قوم کی خدمت میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ یہ لوگ مُلک کا سرمایہ و اثاثہ ثابت ہو سکتے ہیں اِن پر توجہ دینے کی اہم ضرورت ہے ۔ حکومتِ وقت کو چاہیے کہ ایسے لوگوں کے لیے تربیتی پروگرام متعارف کروائے جہاں ایسے افراد کی ذہنی تربیت کی جائے انہیں اس بات کی طرف متوجہ کیا جائے کہ آپ بہترین انسان اور قوم کے فرد ہیں ۔ یہ ہمارے ملک بہترین ہیومن ریسورس ہیں ، یہ لوگ دفاتر میں فائلنگ سسٹم ، ڈیٹا انٹری آپریٹرجیسے کام سرانجام دے سکتے ہیں اس کے علاوہ دستکاری سکولوں میں ان کی تربیت ہونی چاہیے جس سے یہ لوگ ہاتھ سے محنت کر کے کمائی کر کے معاشرے کے بہترین فرد ثابت ہو سکتے ہیں ۔ اس سے ایک تو جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی ہوگی دوسر اایسے لوگ باعزت روزگار کما سکیں گے ۔ معاشرے میں بہتری ہو گی اور ملک میں خوشحالی ہو گی کیونکہ معاشرہ افراد سے ہی بنتا ہے اور افراد ہی معاشرے کو بہترین بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔
شاعر نے کیا خوب کہا ہے!
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا جب تک قوم و ملت کے تما م افراد مل کرمتحد ہو کر معاشرے میں اپنا اپنا کردار ادا نہ کریں۔بحثیت انسان اور اُمت ِ محمدی ہمارا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ ہم ایسے لوگوں کے ساتھ بہترین سلوک کریں انہیں معاشرے کا بہترین فرد بنانے میں اس کی مدد کریں انہیں اپنے پاس بیٹھائیں ان کی ذہنی نشو نما کریں اور معاشرے کی بہترین شہری ہونے کا فرض ادا کریں۔ ایسے افراد کے ساتھ اچھا برتاؤ انہیں معاشرے میں عزت و وقار کے ساتھ جینے کا شعور دے سکتے ہیں ۔ ہر کام حکومت وقت پر ہی نہیں ڈالنا چاہیے ہمارا اپنا بھی اخلاقی فرض بنتا ہے کہ معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے میں ہر فرد اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرے ۔ایسے افراد جو کسی وجہ سے ناکارہ ہو چکے ہیں قوم و ملت پربوجھ ہیں جگہ جگہ چوراہوں پر کھڑے یہ خواجہ سرا بھی پاکستانی شہری ہیں ، ان کے حقوق کی پاسداری بھی ہمارا اخلاقی فرض ہے ۔ حکومت کو گہری نظررکھنی چاہیے اور چوکوں شاہراؤں پر اس قدر بڑھتے ہوئے خواجہ سرا کسی بڑے خطرے کی گھنٹی ہیں یہیں سے بڑے بڑے جرائم پیدا ہوتے ہیں ۔یہ لوگ بڑے بڑے گرہوں کی صورت میں شاہرؤں پر کھڑے مسافروں کے لیے وبالِ جان بن رہے ہیں۔

M Tahir Tabassum Durrani
About the Author: M Tahir Tabassum Durrani Read More Articles by M Tahir Tabassum Durrani: 53 Articles with 48866 views Freelance Column Writer
Columnist, Author of وعدوں سے تکمیل تک
Spokes Person .All Pakistan Writer Welfare Association (APWWA)
Editor @ http://paigh
.. View More