تقریبات میں لیٹ آنے کی روِّش

 عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہیں قومیں دنیا میں ترقی اور کامرانی حاصل کرتی ہیں جو وقت کی قدر کرنا جانتی ہیں یہ بات اجتماعی نقطہء نظر سے کہی جاتی ہے لیکن وقت کی قدر کرنے کا تصور فرد سے شروع ہوتا ہے جو افراد تک پہنچتا ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ہمارے معاشرے میں جہاں اور بے شمار اور خرابیاں موجود ہیں ،وہاں وقت کی قدر نہ کرنے کا عام رواج ہے ۔ پشاور جو صوبہ خیبر پختونخوا کا صدر مقام اور پھولوں کا شہر کہلاتا ہے ، اس میں وقت کی قدر نہ کرنے کی بیماری نے ہر خاص و عام کو آ ہنی شکنجوں میں جکڑ رکھا ہے۔ شادی بیاہ میں لیٹ آنا تو معمول کی بات ہے مگر دیگر اہم تقریبات میں بھی لیٹ آنا ایک عام معمول بن گیا ہے ۔ عام آدمی یا مہمانِ خصوصی ، سبھی دیر سے آنے کو باعثِ عزت سمجھتے ہیں اور وہ لوگ جو تقریب کے لئے دئیے گئے متعین وقت پر پہنچ جاتے ہیں ان کو وقت پر آنے کی سزا بھگتنی پڑتی ہے اور انتظار کی شدّت کو برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ وقت کی قدر نہ کرنی کی بیماری شاید پورے پاکستان میں پھیلی ہو ئی ہو مگر راقم الحروف چونکہ پشاور میں شب و روز بسر کر رہا ہے اور مختلف تقریبات میں مدعو ہونے کا شرف بھی حاصل ہو ہی جاتا ہے اس لئے متعدد مرتبہ تقریبات میں مہمانِ خصوصی کے لیٹ آنے کی وجہ سے انتظار کی سختیاں بر داشت کر چکا ہے اور اب کسی بھی تقریب میں جانے سے پہلے اس سوچ کی سختی بھی برداشت کرنی پڑتی ہے کہ لوگ خصوصا پڑھے لکھے لوگ وقت کی قدر کیوں نہیں کرتے، وقت ہی تو زندگی ہے۔ اوروقت ایک ایسی دولت ہے جو ایک بار ہاتھ سے نکل جائے تو پھر واپس نہیں آ سکتا ۔لیکن افسوس صد افسوس کہ لوگ اس دولت کی قدر نہیں کرتے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ کسی بھی پروگرام میں تا خیر سے پہنچنا عدم احترام کی علامت ہے ،یہ ان افراد کی توہین ہے جو وقت کی قدر کرتے ہیں اور وقت کی پا بندی کرتے ہیں ۔پشاور میں صرف حکیم سعید (شہیدِپاکستان ) کی قائم کردہ شوریٰ ہمدر د ،جو ہر ماہ منعقد کیا جاتا ہے ،وہ واحد پروگرام ہے جو ہمیشہ وقت پر شروع ہوتا ہے اور وقت پر ختم ہو تا ہے، اس کے علاوہ شادی ہو یا سیمینار، حکومتی کوئی پروگرام ہو یا کوئی نجی پروگرام ، کبھی بھی دئیے ہو ئے وقت کے مطابق شروع نہیں ہوتا ۔ وزراء، فضلاء سبھی دیر سے آنے میں اپنی عزت سمجھتے ہیں جو نہایت قابلِ افسوس بات ہے ۔ لیٹ آکر پھر حاضرین سے معذرت کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اﷲ تعالیٰ نے ہر شخص کے ذہن میں ایک الارم سسٹم رکھا ہے ۔وقت کے پابند لوگ گھڑی کے ساتھ ساتھ جب لا شعوری طور پر ذہن میں بھی ایک الارم سیٹ کر لیتے ہیں تو وہ وقت پر اسے خبر دار کر ہی دیتے ہیں ۔وقت کے پابند لوگ کسی بھی جگہ بر وقت یا وقت سے پہلے پہنچ جاتے ہیں ۔کیونکہ وہ وقت کا خیال رکھ کر چلتے ہیں اگر کسی جگہ پہنچنے کے لئے تیس منٹ درکار ہوتے ہیں تو وہ چالیس منٹ پہلے گھر سے نکلتے ہیں تاکہ غیر متوقع تاخیر سے بچا جا سکے۔ ایسے افراد کا ماننا ہو تا ہے کہ تاخیر سے پہنچنا بد تمیزی اور غرور کی علامت ہے ۔ کیونکہ انہیں اس بات کا احساس ہو تا ہے کہ ہر شخص کا وقت مساوی بنیادوں پر مساوی ہوتا ہے ۔ کسی کی تاخیر سے آنے کی وجہ سے
ضائع ہوتا ہے ۔ بر وقت پہنچنے والے عادی افراد اپنے کا موں کی منصوبہ بندی پہلے سے اس طرح کر لیتے ہیں کہ کبھی ٹال مٹول، بہانے بازی یا حاضرین سے معذرت کی ضرورت نہ پڑے ۔

دنیا میں بہتر زندگی گزارنے کے لئے جو سنہری اصول و ضوابط ہیں اس میں سب سے اہم نکتہ وقت کی پابندی ہے ،ہر ایک کام کو وقت پر نمٹانا اور ہر پروگرام کو بر وقت پہنچنا ایسا عمدہ خوبی ہے جو ہر انسان کو ہر شعبہ زندگی میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرتی ہے ۔ اگر ہم کائناتِ قدرت پر نظر ڈالیں تو ہمیں یہی دیکھنے کو ملے گا کہ سورج، چاند تارے، سال بھر کے موسم ، دن رات سبھی وقت کے پابند ہیں ۔ ہمارا دین بھی ہمیں وقت کی پابندی کا درس دیتا ہے ۔ نماز، روزہ۔ حج اور دیگر تمام ارکانِ اسلام کی ادائیگی وقت کی پابندی سے مشروط ہے ۔اس وقت پورا پاکستان خصوصا پشاور عام طور سے ضیاعِ وقت کی آفت کا شکار ہے ۔ یورپی معا شرہ وقت کا قدر داں ہے اور زندگی کو با قاعدہ ایک نظام کے تحت وقت کی پابندی پر عمل پیرا ہے مگر دوسرے طرف ہم ہیں جو وقت کی قدر نہ کرنے اور لیٹ پہنچنے پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔ سطورِ ہذا کے ذریعے گزار کی جاتی ہے کہ وقت کی قدر کریں ، بر وقت پہچنے والوں کو ذہنی ازّیت سے دوچار نہ کریں اورتقریبات مں لیٹ جانے کی روِ ش ترک کردیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الراقم : روشن خٹک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 284341 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More