ہمیں ہماری پولیس پر فخر ہے۔۔۔۔از قلم شفق کاظمی۔

ہمیں ہماری پولیس پر فخر ہے۔۔۔۔از قلم شفق کاظمی۔

لوگ کہتے ہیں پولیس کر ہی کیا رہی ہے محض رشوت لینے کے علاؤہ؟ افسوس کے ساتھ ہمارے معاشرے میں جب پولیس کا نام لیا جائے تو اکثر لوگ تلخیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہیں "رشوت خور" اور یہ وہی لوگ ہیں جو مشکل پڑھنے پر فوراً ون فائیو "15" کو کال ملاتے ہیں۔

آخر کیوں ہم ان ایماندار لوگوں کی قربانیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں؟ آخر کیوں ہمارے معاشرے میں جو غلط ہو ہم صرف اس کو ایکسپوز نہیں کرتے بلکہ ہم پورے ڈیپارٹمنٹ پر انگلیاں اٹھانے لگ جاتے ہیں۔
سچ بات تو یہ ہے پولیس ہمارے آرام و سکون کی خاطر کل بھی ہمارے شانہ بشانہ کھڑی تھی آج بھی کھڑی ہے اور ہمیشہ کھڑی رہے گی۔۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے بہت سے پولیس کے جانباز محافظ ایسے ہیں جنہوں نے وطن کے دفاع کی خاطر اپنے خون کا آخری قطرہ بھی اپنے وطن پر قربان کردیا۔ ایک بار بھی یہ نہیں سوچا کہ ہماری بوڑھی بیمار ماں دروازے کی چوکھٹ پر بیٹھ کر ہمارا انتظار کر رہی ہوگی۔۔کیا آپ نے کبھی تصور کیا کہ دروازے کی چوکھٹ پر بیٹھی بیمار بوڑھی بیوہ ماں جو ہاتھ میں تسبیح لئے اپنے بیٹے کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی ہوگی۔ اس ماں کا ایک ایک وقت ایک ایک لمحہ کیسے گزر رہا ہوگا۔؟ اور جب اس کے جوان بیٹے کی خون سے لت پت لاش اس ماں کے سامنے ہوگی تو اس پر کیا گزر رہی ہو گی۔

اس ماں پر تب کیا گزر رہی ہوگی جب اسے اپنے بیٹے کا لکھا ہوا کاغذ ملا ہوگا۔ جس کا حرف حرف خون سے نہایا ہوگا۔ جس پر لکھے گئے الفاظ کچھ یوں ہوں گے۔
میری ماں عظیم ماں تو پریشان نہ ہونا
تو عام ماں نہیں ہے
تو #شہید کی ماں ہے ۔
میری ماں عظیم ماں مجھ سے لپٹ کر رونا نہیں
کہ شہید کی مائیں رویا نہیں کرتیں۔
میری ماں عظیم ماں مجھ سے #بچھڑنے کے غم میں رونا نہیں
کہ شہید بچھڑا نہیں کرتے
شہید مرا نہیں کرتے
شہید تو ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ۔
میری ماں عظیم ماں۔
مجھ پر قرض تھا،شہداء کے لہو لہو کا
مجھ پر ارض فرض کی حفاظت کا فرض تھا
میری ماں عظیم ماں
میں نے دھرتی ماں کی گود میں سونے کا خواب پورا کیا ہے ۔
میری ماں عظیم ماں
تو رونا نہیں کے شہید کی مائیں رویا نہیں کرتیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں تو سنانے کو ہزاروں درد بھری داستانیں ہیں مگر کیا آپ کو معلوم ہے ؟کل بھی وطن کا ایک محافظ بیٹا محمد عمران عباس اپنے فرائض سر انجام دیتے ہوئے وطنِ عزیز پر قربان ہوگیا۔ شہید کی عمر صرف دس سال تھی جب والد صاحب شہید ہوئے۔ شہید کے شہید والد صاحب بھی پولیس میں سب انسپکٹر تھے جن کا نام میاں محمد عباس تھا جن کی شہادت پولیس ان کاؤنٹر میں ہوئی۔ والدہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھیں مگر پھر بھی اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کی خاطر محنت کی۔۔محمد عمران عباس چار بہن بھائی تھے۔جن میں محمد عمران سب سے بڑے تھے۔ حب الوطنی کا جذبہ اور والد کے نقشہ قدم پر چلنے کی خواہش نے انہیں پولیس فورس جوائن کروائی۔۔ شہید محمد عمران کے دو چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔ مگر انہوں نے آپ کے آرام و سکون کی خاطر کل اپنے بچوں کو بھی یتیم کردیا۔۔

لیکن خیر آپ سکون سے رہیں آپ کو کیا فرق پڑھتا ہے؟

آپ نے پھر بھی محافظوں کی ان قربانیوں کو نظر انداز کرنا ہے آپ نے تو پھر بھی پولیس کو رشوت خور ہی کہنا ہے ۔۔۔ لیکن ہم جانتے ہیں ہم اپنے گھروں میں سکون سے بیٹھیں ہیں تو ان محافظوں کی وجہ سے ہی۔۔ہمارے محافظ ہیں تو ہم ہیں۔۔۔۔اور میں اپنے تمام محافظوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں

اللہ ہمارے وطن کے ہر محافظ کو اپنے حفظ و آمان میں رکھے۔ اور کم سوچ رکھنے والے کم ظرفوں کو ھدایت دے۔

واسلام
پاکستان کی بیٹی
شفق کاظمی
 

Shafaq kazmi
About the Author: Shafaq kazmi Read More Articles by Shafaq kazmi: 108 Articles with 133640 views Follow me on Instagram
Shafaqkazmiofficial1
Fb page
Shafaq kazmi-The writer
Email I'd
[email protected]
.. View More