خوش فہمیوں کے سلسلے اتنے دراز ہیں

آج مسلمان خوش فہمی میں زندگی گزار رہے ہیں لیکن یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ قرون وسطیٰ میں صدیوں تلک اسلامی ایجادات کا غلبہ رہا ۔ ۸؍صدی تا ۱۳؍ ویں صدی کا زمانہ ’اسلامی عہد زریں‘(Islamic Golden Age)کا دور کہاجاتا ہے ۔مسلمانوں کا ماضی نہایت شاندار تھا۔ گذشتہ ایجادات میں مسلمانوں سائنس دان کو ید طولیٰ حاصل تھا۔ یونیورسٹی ، ہاسپیٹل، سرجری ، الجبرا،اجزائے کیمرہ ،فلائنگ مشین (ہوائی جہاز)اورکافی وغیرہ کی ایجادات کا سہرا مسلم سائنس داں کے سر جاتا ہے ۔بغداد ’دارالحکمت‘تھا۔منگولوں کے سالار ہلاکوخان کے ذریعہ شہر حکمت کازوال ہوا ۔تاریخی حوالے بیان کرتے ہیںکہ کتابیں اس کثرت سے دریا برد کی گئیں کہ دریائے دجلہ کا پانی چھ ماہ تک سیاہ رنگ کا رہا۔ اسی کے بعد اسلامی سنہری صدی کا دورانیہ سمٹتا گیا ۔ دوچار دیئے اب بھی روشن ہیں مگر روشنی کی وافر مقدار مغرب کے ہاتھوں لگ گئی ہے۔ مغربی ممالک نے اپنی عظمت کو قائم رکھنے کی خاطر ہر جائز و ناجائز طریقےا ختیار کئے اور تاحال اسی سائنس اور ٹکنالوجی کی روشنی ہمیں مشرق کے بجائے مغرب سے مل رہی ہے ۔

بھلا ہم کب کسی سے کم ہوتے۔ہم آج بھی عظمت رفتہ میں گم سم ہیں ۔ ’پدرم سلطان بود‘کا نعرہ آج بھی زندہ ہے اور جب معاصر کی ترقی کا ذکر ہوتا ہے تو خوش فہمیوں کا سہارالے کر زبانی مشق میں فتح یاب ہوجاتے ہیں۔ آج بھی اگرکوئی غیر مسلم سائنس داں کسی تاریخی ایجادات کو پیش کرتا ہے تو قرآن اور حدیث کی تفسیر کہہ کر اپنا دامن جھاڑ لیتے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ قرآن مجید تاقیامت ایک زندہ معجزہ ہے اور اس میں بے شمار نہفتہ ایجادات ہیں لیکن سوال یہ کہ اسلام کی تمام تر تعلیمات عربی زبان میں ہیں ۔عرب ممالک بھی اسلامی ریاست کا حصہ ہیں۔عربی زبان و ادب کے ماہرین بھی مسلمان ہیں توپھر قرآن و احادیث سے ایجادات کی راہ فراہم کرنے کا ہنر غیر مسلم کے پاس کیسے پہنچ گیا…؟ایسا بھی نہیں کہ کلام الٰہی ہماری سمجھ سے باہر ہے کیوں کہ قرآن عام فہم زبان میں نازل کیاگیا ہے۔اس کا مطلب یہ کہ کوتاہی ہم میں ہی ہے ورنہ گذشتہ مسلم ہستیاں کیوںکر مختلف ایجادات اپنے نام کرپاتیں …؟

مسئلہ دو قسم کا ہے ۔ کچھ ایسے افراد ہیں جو شدت سے مذہبی ہیں ۔ ان کے ذہن و خیال پر حقائق سے بڑھ کر عقائد سوار ہیں ۔ وہ بھی معاشرہ کے پرورش شدہ عقائد ۔اس لیے ان کی فکر میں جدید ترقیاتی کام محض کاپی ہیں گذشتہ مسلم تحقیقات کی۔ دوسرے وہ افراد جو مسلمان کی گذشتہ حیثیت کےہی منکر ہیں ۔ انہیں لگتا ہی نہیں کہ مسلمان بھی سائنس اور ٹکنالوجی میں بے مثال رہے ہیں جبکہ مسلمان کا ماضی نہایت عالی شان تھا اور معاصر بھی اتنا گیا گزرا نہیں جتنا کہ بعض لوگ تصور کرتے ہیں ۔

۱۷۹۹ عیسوی میں ٹیپو سلطان نے جنگی راکٹ ایجاد کی۔ اسی طرح فضل الرحمان خان جسے تعمیرات کا آئن اسٹائن کہا جاتا ہے ، کی تحقیقات کی بنیاد پر برج خلیفہ ، ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور جان ہنکوک سنٹر جیسی عمارات تعمیرہوئی ہیںاور اسی طرح ہندوستان کا میزائل مین ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام بھی آسمان سائنس کے روشن ستارہ کی مانند آج بھی روشن ہیں مگر بات یہ ہے کہ جس دین کی بنیاد ہی تعلیم اور سربلند ی پر قائم ہے ، آج اس کی سست رفتارترقی مناسب نہیں ہےکیوں کہ ؎
جن کے رتبہ ہیں سوا ، ان کی سوا مشکل ہے