۱۴؍ فروری :گلاب سے گل کھلانے تک کا سفر

برصغیر میں تہذیب و تمدن کی کمی نہیں پھر بھی ہم نے مغربی تہذیب کو دل دیا ہے ۔ اس کی وجہ اس کی ظاہری نمائش ہے۔ ایک دورتھا کہ ہم ان کی زیر سلطنت زندگی گزارتے تھے تب ہمیں غلام کہاجاتا تھا لیکن پھر ہم آزاد ہوگئے اور بعد میںپھر انہی کی تہذیب کو اپنا کر ’تہذیبی غلام ‘ہوگئے ۔ فی الحال …!کہنے کو تو ہم آزاد ہیں مگر غلامانہ ذہنیت کے ساتھ یعنی ہم ’آزاد غلام ‘ہیں۔پہلے ہم جسمانی طور سے غلام تھے اور اب فکری ۔ عجیب بات یہ کہ ہمیں یہ سب کرتے فخر محسوس ہوتا ہے۔

۱۴ ؍ فروری کی روایت بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔آج کے دن مشرق میںبھی مغربی تہذیب کا کھلا گلاب تقسیم کیا جاتا ہےاور پھر جانے اس گلاب کی آڑ میں کیا کیاگل کھلائے جاتے ہیں ۔

تاریخی شواہد میں ملتا ہےکہ تیسری صدی عیسوی میں رومانی بادشاہ کلاڈیس ثانی (Claudious ll)جو کہ اپنے وقت کا ایک سفاک بادشاہ تھا،کے زمانہ میںجنگ کا زمانہ آگیا۔ اس نے لشکر تیار کرنے کو کہا لیکن سوا ئے چند فوج کےکوئی آمادہ جنگ نہ ہوا۔اس نے وجہ دریافت کی تو معلوم ہواکہ شادی شدہ مرد اپنے اہل و عیال سے دور ہو کر شریک معرکہ نہیں ہوناچاہتے اورنوجوان اپنی معشوقہ کے دام عشق سے باہر نہیں آنا چاہتے۔اس وقت اس نے فرما ن جاری کیا کہ اب کوئی شادی بیاہ نہیں کرے گا مگر ویلن ٹائن نے اس شاہی حکم نامہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شادی رچالی۔ جب بادشاہ کو اس بات کا علم ہواتو اس نے اسے پھانسی پر لٹکادیا۔آج لوگ اسی کی یاد تازہ کرتے ہیں ۔

دوسری تایخ میں یوں ملتا ہے کہ ولن ٹائن نامی ایک پادری تھا۔ وہ ایک راہبہ کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہوگیا چونکہ عیسائی مذہب میں پادری اور راہبہ کے لئے نکاح ممنوع ہے،اس لئےایک روز اس نے اپنی معشوقہ کی تسکین کی خاطر ایک خواب بیان کیا کہ ۱۴؍ فروری کا دن ایسا ہے کہ اگر اس میں کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کرلیں تو کوئی حرج نہیں اور اسے گناہ کے زمرے میں شامل نہیں کیاجائے گا۔راہبہ بھی اس کی میٹھی باتوں میں آگئی ۔ دونوں نے عشق کے نشہ میں کلیسا کی ساری روایات کو بالائے طاق رکھ دیااور وہ سب کچھ کر گزرے جو نام نہاد عشق و محبت میں ہوا کرتاہے۔

کلیسا کی روایت کی یوں دھجیاں اڑا دینے پر اس کا بھی وہی حشر ہوا جوہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے ،اسے قتل کردیاگیا۔بعد میں کچھ منچلے اور مغرب زدہ حواس باختہ ٹولے نے ولن ٹائن کو’ شہید محبت‘ کا لقب دے کر اس کی یاد منا شروع کردی۔

۱۴؍فروری کے متعلق یہ بھی کہا یہ جاتاہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کیلیا(Luper Calia)”بھیڑیا کا تہوار‘‘کی صورت میں ہوا۔ یہ۱۳ تا ۱۵؍فروری منایا جانے والاتہوارہے۔اس روز قدیم رومی باشندے اپنے دیوتاؤں سے بدی کی طاقت سے نجات اور معاشرے کو اچھا ئی کی طرف راغب کرنے اور خوشحالی و زمین کی زرخیزی کی دعائیں مانگتے تھے۔

رومی حضرات اس تہوار کو’ لوپا‘ (Lupa)نامی دیوی سے منسوب کرتے تھے۔کہاجاتا ہے کہ یہ ایک مادہ بھیڑیا تھی جس نے دو شیر خوار یتیم بچوں ؛رومولس (Romulus)اور ریمس (Remus)کو اپنا دودھ پلایاتھا۔ رومیوں کی تاریخ کے مطابق بعد کے زمانہ میں انہیں دونوں نے ’ملک روم‘ کی بنیاد ڈالی۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس روز قدیم روم میں لڑکیاں پرچیوں پر اپنا نام لکھ کر ایک صندوق میں ڈال دیا کرتیں۔لڑکے آتے،اسے نکالتےاوراس میں جس لڑکی کا نام آجا تا وہ اس کی دوست بن جاتی ۔ پھر عشق ومحبت کا دور شروع ہوجاتا ۔

مذکورہ تمام واقعاتی پس منظر میں سب سے زیادہ مشہورواقعہ یہ ہے کہ اس کا آغاز ’’رومن سینٹ ولن ٹائن ‘‘کی مناسبت سے ہوا جسے’ محبت کا دیوتا‘ بھی کہتے ہیں ۔ اسے مذہب تبدیل نہ کرنے کی جرم میں قید وبند کی صعوبتوں میں رکھا گیا۔ قید کے دوران اسے جیلر کی لڑکی سے پیار ہوجاتاہےاور پھر وہ دونوں غیر جائز طریقہ کو اختیار کرجاتے ہیں …۔سولی پر لٹکانے سے پیشتر اس نے جیلر کی بیٹی کو الوداعی محبت نامہ لکھا جس میں دستخط سے پہلے ’’تمہارا ولن ٹائن ‘‘تحریر تھا۔ یہ واقعہ ۱۴؍ فروری ۲۷۹؍عیسوی کو پیش آیا اور اسی کی یادمیں’ ولن ٹائنس ڈے‘ منایا جاتاہے۔

بہرکیف…!اتنا تو ضرور ہے کہ اس کا پس منظر جھوٹ، فریب اور دھوکہ دھڑی سے عبارت ہے۔اس میںعاشق اپنے معشوق کو پھول اور کارڈکا تحفہ دیتے ہیں۔تحفہ دینا ،بذات خود بری بات نہیں مگر نامحرم سےجھوٹی محبت کے راگ الاپنا بہرحال غلط ہے۔محبت ہی کرنا ہےتو پھر صحیح راستے کا انتخاب کریں مگر شاید صحیح راہوں میں بہت زیادہ چبھن ہے ، اس لیے لوگ اس سے دور بھاگتے ہیں۔