پنجاب فوڈ اتھارٹی کی من مانیاں

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کائنات میں تمام کاروبارِ حیات کسی نہ کسی نظام کے تحت چل رہا ہے، بالکل اسی طرح اس بات کو جھٹلانا بھی ناممکن ہے کہ اگر نظامِ حیات میں ذرا سی بھی خرابی یا بگاڑ پیدا ہو جائے تو پورے معاشرے کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔بالکل یہی صورتحال آج کل ہمیں بھی درپیش ہے۔۔وطنِ عزیز میں شہراوردیہات کے نظام کو چلانے کے حوالے سے سرکاری انتظامی ڈھانچے میں ایسی بیشمار خامیاں موجود ہیں کہ جن کی اصلاح پر کوئی بھی توجہ نہیں دی جاتی جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ عام آدمی کا جینا دو بھر ہو کر رہ گیا ہے۔غریب آدمی سر توڑ محنت کے باوجود بھی فاقوں پر مجبور ہے..اور اگر اس تکلیف دہ صورتحال میں ضلعی انتظامی محکموں کے لوگ لالچ میں اندھے ہو کر غریبوں کی خون پسینے کی کمائی پر نظر رکھ لیں تو پھر غریب آدمی کے دل میں مایوسی اور بیزاری کا پیدا ہونا لازمی امر ہے۔کھانے پینے کی اشیاء کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت پنجاب نے ’’فوڈ اتھارٹی ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ۔اس ادارے کے افسران اکثرو بیشتر ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘کے نام پرکھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والے اداروں کی چیکنگ کرتے ہیں اور معمولی معمولی غلطیوں پر بھاری جرمانے کرتے ہیں۔اسی حوالے سے یہ شکایات عام ہیں کہ جنوبی پنجاب میں’’فوڈ اتھارٹی ‘‘کے ذمہ داران نے نام نہاد چھاپوں کی آڑ میں لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔لالچ سے بھرا سرکاری بلیک میلنگ کی صورت میں یہ مکروہ دھندا ’’کورونا‘‘کی آڑ میں جاری ہے ۔ غریب دکانداروں اور ہوٹل والوں کوان کے ہوٹل اور دکانیں سِیل کرنے یا تھانے لے جانے کے نام پر ڈرا دھمکا کر فوری جرمانے وصول کر کے اپنی جیبیں بھری جاتی ہیں ۔اب جبکہ’’کورونا ‘‘کے حوالے سے پورے ملک میں لاک ڈاؤن ختم کر کے زندگی کے پہیے کو رواں دواں کر دیا گیا ہے تو ایسے میں محض چھوٹے موٹے ہوٹل والوں کو صرف اس بنا ء پر خوفزدہ کر کے جرمانے وصول کرنا انتہائی غلط اور قابلِ مذمت ہے کہ انہوں نے کسی کو ہوٹل میں بٹھا کر کھانا کیوں کھلایاجبکہ دیکھا جائے توباقی تمام دوکانوں میں بھی خرید و فروخت کے حوالے سے رش لگا رہتا ہے مگر افسوس ناک امر یہ ہے کہ یہاں طاقتور اور پیسے والے کے لئے اصول و ضوابط الگ ہیں اور کمزور یا غریب کے لئے الگ۔یہاں خود قانون کے رکھوالے ہی قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔عام آدمی عدم تحفظ کا شکار ہے، یہاں بڑے ڈاکوں کو تو اپنی جیب گرم کرنے یا کسی بڑی شخصیت کا فون آنے کے بعد’’بصد احترام و بعد از معذرت‘‘چھوڑ دیا جاتا ہے جبکہ چھوٹے درجے کے چور کو دورانِ تفتیش ہی تشدد کر کے جان سے مار دیا جاتا ہے۔بالکل یہی وطیرہ آج کل فوڈاتھارٹی والوں نے بھی اپنا رکھا ہے۔دیکھا گیا ہے کہ فوڈ اتھارٹی والے جہاں کسی فائیو سٹار ہوٹل یا میرج ہال میں کھانا کھلائے جانے پر کارروائی نہیں کرتے وہاں پیزا فروخت کرنے والے ہوٹلوں میں بیٹھ کر ہجوم کی صورت پیزا اور دیگر چیزیں کھانے پینے پر بھی ان کی نظر نہیں جاتی جبکہ کسی بھی چھوٹے ہوٹل میں یا بریانی بیچنے والے کا اپنی نشست گاہ میں صرف دو لوگوں کو بٹھا کر کھانا کھلانا گناہِ کبیرہ اور ناقابلِ معافی جرم قرار پاتا ہے یوں پانچ ہزار روپے جرمانہ لے کر اپنا خرچہ پانی بنانا پنجاب فوڈ اتھارٹی والوں کے نمایاں کارناموں میں سے ایک ہے۔ہر دوسرے، تیسرے یا چوتھے دن غریب ہوٹل مالکان سے جرمانے کے نام پر2 سے 5 ہزار تک پیسے وصول کرنا فوڈ اتھارٹی والوں کا معمول بن چکا ہے۔پنجاب فوڈ اتھارٹی کی من مانیاں جنوبی پنجاب بالخصوص ضلع رحیم یار خان میں بے لگام ہو چکی ہیں جہاں چند روز قبل اس سلسلے میں احتجاجی جلوس بھی نکالا گیا۔ جسے بعد ازاں سیاسی شخصیات نے ختم کروایا اور فوڈ اتھارٹی کی طرف سے جاری مظالم کا یہ سلسلہ بند کروانے کی یقین دہانی بھی کروائی مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔
چلیئے مان لیتے ہیں کہ ہوٹل میں ہجوم کی صورت لوگوں کو بٹھا کر کھانا کھلانے سے کورونا پھیلنے کا اندیشہ ہوسکتا ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے میرج ہال کیا سوچ کر کھول دیے ہیں۔کیا میرج ہالز میں سینکڑوں ہزاروں لوگوں کے اجتماع اور ایک ساتھ کھانے پینے سے کورونا پھیلنے کا کوئی خطرہ نہیں؟ کیا پیزا فروخت کرنے والی جگہوں پر ہجوم سے کورونا پھیلنے کا کوئی خطرہ نہیں؟ کیا صرف چھوٹے ہوٹل،ڈھابے یا بریانی بیچنے والے کی نشست گاہ میں صرف دو لوگوں کو کھانا کھاتے دیکھ کر کورونا کے پھیلنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے کہ جس کو بنیاد بنا کر کسی غریب آدمی سے جرمانے کی آڑ میں پانچ ہزار وصول کر کے اپنی جیب میں ڈال لیے جائیں۔انتہائی افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ یہاں جس کا بھی جہاں اور جس پر داؤ لگ سکتا ہے وہ اسی کے لئے عذاب بنا ہوا ہے۔ایسے ظالموں کو کسی کی بد دعا کا خوف ہے اور نہ ہی کسی شکایت کی صورت میں سزا کاڈر ہے۔کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کا تحفظ کرنے والے بڑے مگر مچھ تمام عوامی شکایات کو جھوٹ ثابت کرنے کے ہنر سے بخوبی آگاہ ہیں۔حکومت کو چایئے کہ وہ اپنے وعدوں کے مطابق کرپشن دور کرے اور محکمہ فوڈ اتھارٹی کا قبلہ درست کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے، بالخصوص ضلع رحیم یار خان میں لوٹ مار اور کرپشن میں ملوث ملازموں کے خلاف فوری کارروائی کو یقینی بنائے تاکہ ان سرکاری افسران وملازمین کی من مانیوں اور زیادتیوں کا شکار ہونے والے ہوٹل مالکان و ملازمین کو انصاف مل سکے اور دیگر ملازمین بھی ایسے بے ضمیروں کے انجام سے عبرت حاصل کر کے اپنے فرائض دیانتداری سے ادا کرنے پر غور کر سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Munazza Syed
About the Author: Munazza Syed Read More Articles by Munazza Syed: 10 Articles with 8907 views columnist and Peotess

.. View More