بے جان و جاندار کا خاموش انتقام ۔ ۔ ۔

مرحوم اشفاق احمد کی تصابیف میں پڑھی گئی اک کتاب میں سے لی گئی اک تحریر کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھی گئی اک تحریر ۔ ۔ ۔

شہر قائد سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے اک قصبے قلعہ عبداللہ کی جانب سفر کا آغاز اک خوبصورت گاڑی میں دو دوستوں نے شروع کیا ، ٹول پلازہ سے گذرتے ہی اک دوست نے گاڑی کی تعریف کرتے ہوئے چائے کی فرمائش کی ۔ گاڑی کی تعریف پر گاڑی چلانے والا کچھ دیر خاموش رہا اور پھر اس نے بتانا شروع کیا کہ یہ گاڑی والد مرحوم کی ہے اور وہ اپنی زندگی میں اس کا بہت خیال رکھا کرتے تھے، ان کی شہادت کے بعد گوکہ ہم اس طرح سے گاڑی کا خیال نہیں رکھ پائے جس طرح والد صاحب رکھا کرتے تھے تاہم جب بھی اس میں بیٹھتے ہیں تو ہمیں والد صاحب کا احساس ذمہ داری نہ صرف اس گاڑی کے حوالے سے بلکہ ہر معاملے پر ضرور ہوتا اور انکی یاد دلاتا ہے ۔ انکل شہید ہوئے تھے وہ کیسے؟ گاڑی چلانے والے نے اک لمبی سے آہ بھری اور اس دوست کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا کہ کتنی مدت کے بعد وطن آنا ہوا بارہ برس بعد آیا ہوں اور آنے کے بعد جس طرح آپ سے ملنے آپ کے شہر آگیا اسی طرح اب اس ملک کے سب بڑے صوبے اور سب سے کم آبادی والے صوبہ بلوچستان میں اپنے بہت پرانے دوست سے ملنے جارہا ہوں ۔ مجھے انکل کی تفصیلات بتائیں ، کس طرح انہیں شہید کیا گیا؟

گاڑی کو چلانے والے نے اک ہوٹل پر گاڑی روکی اور چائے پینے کے بعد پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ والد مرحوم دیندار ، کھرے اور سچے انسان تھے ۔ کاروباری معاملات میں کسی نقطے پر ناچاکی ہوئی جس کے بعد انہیں اک سفر کے دوران اسی گاڑی میں شہید کردیا گیا، اس خبر کے بعد ہماری کیا کیفیات تھیں اور کس طرح ہم واپس زندگی کی جانب لوٹے ، یہ سب کچھ بس اللہ جانتا ہے ۔ قاتلوں کی گرفتاری کے لئے پولیس نے بہت کاوشیں کیں تاہم وہ سب بے سود رہیں اور نامعلوم افراد کے کھاتے میں یہ معاملہ ڈال کر سرد خانے میں کیس کو کردیا گیا ۔ اسی گاڑی میں انکو شہید کیا گیا تھا اور جس جگہ میں بیٹھ کر چلارہا تھا اسی سیٹ پر انہیں نشانہ بنایاگیا ۔ اس بات کے اختتام پر اس نے اک لمبی آہ بھری اور آسماں کی جانب دیکھتا رہا پھر یہ کہہ کر اٹھا کہ قلعہ عبداللہ بہت دور ہے اس لئے چلیں اور سفر دوبارہ شروع کرتے ہیں ۔ اس اقدام کے بعد خاصی دیر گاڑی میں خاموشی رہی اور پھر مختلف موضوعات پر باتوں کا آغاز ہوا اور اس کے ساتھ پرانی یادیں بھی دہرائی گئیں ۔

باہر سے آئے ہوئے فرد نے کہا کہ جب میں پرائمری اسکول میں زیر تعلیم تھا تو ہمارے اسکول کے راستے میں اک بھینسوں کا باڑہ ہوا کرتا تھا اور اس سے کچھ فاصلے پر اک کنواں بھی تھا ، اس کنویں سے پانی نکالنے کیلئے دوبیل بندھے ہواکرتے تھے اور جب پانی کی ضرورت ہوتی تھی تو ان بیلوں کو چلایا جاتاتھا ، وہ بیل گھومتے اور کنویں سے پانی باہر آتاتھا ۔ اک روز اسکول سے واپسی پر بیل کھڑے زور زور سے آوازیں دے رہے تھے ، ان کا یہ عمل خلاف معمول تھا ، بہرحال ہم وہاں پہنچے تو ان بیلوں کا مالک خون میں لت پت زمین پر پڑا تھا ہم سب نے مل کر جلدی جلدی بڑوں کو بلایا اور زخمی بزرگ کو قریبی ہسپتال پہنچایا دیاگیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے تھے ۔ انہیں کسی نے قتل کیا تھا اور اس قاتل کا بھی طویل عرصے تک کسی کو علم نہیں ہوپایا ۔ ہمیں اس جگہ سے گذرتے ہوئے خوف محسوس ہوا کرتا تھا ۔ اس کسان کا قتل بھی اسکے بیلوں کی موجودگی میں ہوا تھا ۔ برسوں بعد جب ہم دوسرے شہر سے واپس لوٹے ،تو ہمارے بزرگوں نے بتایا کہ ان دوبیلوں نے اس گاؤں کے ہی اک کسان کو ٹکریں مار مار کر ماردیاہے ۔ یہ قصہ ختم ہوا اور پھر موضوعات بدلتے رہے باتیں چلتی رہیں اور ان کا یہ سفر قلعہ عبداللہ پر اختتام پذیر ہوا ۔

وطن عزیز سے بیرون ملک جانے والے دوست نے الوداعی ملاقات کیلئے دوبارہ شہرقائد کا رخ کیا اور اسی بچپن کے دوست سے ملنے آیا ، اسی گاڑی میں جارہے تھے ، اک بار پھر کچھ پرانی باتیں ہوئیں ان باتوں میں انکل کی بھی باتیں ہوئیں ۔ اس بار گاڑی چلانے والے نے بتایا کہ چند روزقبل جب اس گاڑی سے اتر کر دفتر گیا تھا تو جس جگہ گاڑی عام طور پر کھڑی کرتا تھا وہاں کوئی اور گاڑی کھڑی تھی جس کی وجہ سے اس گاڑی کو اک اورخالی جگہ کھڑا کردیا ۔ کوئی دوسے تین گھنٹے کے بعد شور شرابا ہوا اور مجھے کہا گیا کہ آپ کی گاڑی نے کسی کو دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے ۔ دیوار اور گاڑی کے درمیان اک شخص آگیا اور وہ وہیں پر فوت ہوگیا ۔ تیز رفتاری کے ساتھ جب جاکر دیکھا تو دنگ رہہ گیا کیونکہ گاڑی کو جس جگہ کھڑا کیا تھا وہ کچھ ڈھلوان سی تھی ، اسے کھڑا کرکے ہینڈ بریک لگاکر ہی میں دفتر گیا تھا اب کس طرح یہ گاڑی چلنا شروع ہوئی ، کسی نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی اور پھر یہ بندہ کس طرح اس گاڑی اور دیوار کے درمیان آگیا ۔ اس فرد کو تو ہسپتال لے جایا گیا اور پولیس بھی آئی تاہم معاملہ اس طرح سے حل کرلیاگیا کہ گاڑی کی بریک کمزور ہونے کی وجہ سے گاڑی خود سے چلنا شروع ہوگئی اور پھر اس طرح چلی کہ دیوار سے پہلے یہ بندہ آگیا اور اسی جگہ اس کی موت واقع ہوگئی ۔

دونوں دوستوں کی ان دو واقعاتی باتوں کوانہی کے اک بزرگ دوست نے جب سنا تو ان سے کہا کہ یہ جو بیلوں نے اس بندے کو جان سے ماردیا اور پھر اس گاڑی نے اس بندے کو دیوار سے لگادیا ، دراصل یہ دونوں بہت اہمیت کے حامل واقعات ہیں ۔ بیلوں نے اپنے سامنے اپنے مالک کا خون گرتا اور قاتل کو بھاگتے دیکھا ،کسی اور نے تو نہیں دیکھا تھا ان بیلوں نے ہی دیکھا لہٰذا جب ان بیلوں کو وہ قاتل نظر آیاتو انہوں نے اسے جان سے مار دیا ۔ ایسا ہی معاملہ اس گاڑی کا بھی ہوا ۔ اس گاڑی کا مالک جو اس کا بے حد خیال رکھا کرتا تھا اس مالک کا قتل اسی گاڑی کے اندر ہوا جسے کسی نے بھی نہیں دیکھا تھا ، پھر جب اس گاڑی کو وہ قاتل نظر آیا تو اس گاڑی نے چلنا شروع کیا اور اپنے مالک کے قاتل کو دیوار سے لگادیا ۔ وہ دونوں دوست اس بزرگ کی باتوں کو سن کر ششدررہ گئے اور اس بزرگ کا مزید یہ کہناتھا کہ وہ بیل ہوگئے یا یہ گاڑی ، وہ بیل تو جاندار تھے تاہم بولنے سے وہ قاصر تھے یہ گاڑی بے جان ہونے کے ساتھ بولنے سے یہ بھی قاصر تھی ۔ اس کے باوجود یہ دونوں خاموش مجاہد تھے ۔ اک گمنام مجاہد کی طرح کہ جو کہتا بھی ہے اور کرتا بھی ہے تاہم نہ کسی کو نظر آتا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی نشان ہوتا ہے ۔

اشفاق احمد مرحوم ہمارے معاشرے کا اک درد دل رکھنے والے محسن تھاگوکہ وہ تو اس دنیا میں اب نہیں رہا اور نہ ہی ان کی شریک سفرحیات بانوقدسیہ اب زندہ ہیں ،یہ لوگ چلے گئے ان کی باتیں ، انکی کتابیں انکی قصے کہانیاں سب اب بھی موجود ہیں ۔ اوپر کی تحریر بھی اشفاق احمد کی ہی اک کتاب سے پڑھی گئی اور اسے یہاں تحریر کیا گیا ۔ اس جگہ اس تحریرکی اک غرض ہے اور وہ غرض ی یہ ہے کہ میرا دیس پاکستان بے انتہا قربانیوں کے بعد معرض وجود میں آیا ، یہ دیس اپنی نوعیت کا اک ایسا ملک ہے کہ جس کی تعمیر میں کوئی جنگ نہیں ہوئی اس کے باوجود لاکھوں قربانیاں دیں گئیں ۔ جانی اور مالی قربانیاں اک نظریئے کے تخت دی گئیں اور وہ نظریہ اسلام کا نظریہ تھا ۔ یہ ملک اسلام کیلئے قائم ہوا اور اللہ نے چاہا تو اس زمین پر اسلام کا نظام نافذ ہوکر رہیگا ۔ شاعر مشرق علامہ اقبال اوربانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا خواب انشا ء اللہ ضرورپورا ہوکر رہے گا ۔ ۔ ۔

وطن عزیز میں رہنے اور کام کرنے والے جاندار اور بے جان سبھی اپنے حصے کی ذمہ داریاں نبھارہے رہے ہیں ۔ جانے انجانے میں ، سخت دھوپ و گرمی کے ساتھ یخ بستہ سردی میں اور اس کے ساتھ ساتھ برف پوش وادیوں میں بائیس کروڑ سے زائد آبادی کا ملک اپنے مقاصد قیام کی جانب دھیرے دھیرے ہی سخی تاہم بڑھ ضرور رہا ہے، جب حق کیلئے بے جان گاڑی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرستی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر بے زبان جانور بھی اپنے مقتول مالک کا بدلہ لے سکتے ہیں تو بھلا اس ملک کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنے والے خواہ وہ اسطرح کے اقدامات اندورن ملک کر رہے ہوں یا بیرون ملک ، بھلا وہ کس طرح اس ملک کے وفاداروں سے بچھ پائےں گے ۔ اس ملک کے باشعور اور لاشعور سبھی اک روز اس وطن عزیز کے شہداء کے خوابوں کو پورا کرکے رہیں گے ، ہاں وہ خواب ، خواب نہیں بلکہ حقائق کا روپ میں جلد منتقل ہونگے، انشاء اللہ ۔ ۔ ۔
 

Hafeez khattak
About the Author: Hafeez khattak Read More Articles by Hafeez khattak: 195 Articles with 162893 views came to the journalism through an accident, now trying to become a journalist from last 12 years,
write to express and share me feeling as well taug
.. View More