کل بھی بھٹوزندہ تھا،آج بھی بھٹو زندہ ہے !

قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے94 یوم پیدائش پر لکھی گئی خصوصی تحریر

وقت اور تاریخ پاکستانی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو کے کردار اور کارناموں کو ہمیشہ محفوظ رکھیں گے۔

 جن پاکستانیوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں اسلام،پاکستان اور پاکستانی عوام کی سربلندی، آزادی اور تحفظ کی خاطر اپنی جان اور مال کی پرواہ کیئے بغیراپنی ذمہ داریاں پوری دیانت داری کے ساتھ انجام دیتے ہوئے قربانیاں دیں اور جام شہادت نوش کیا وہ بلاشبہ ہمارا قیمتی اثاثہ تھے جنہیں جتنا بھی خراج عقیدت پیش کیا جائے کم ہے۔ذوالفقارعلی بھٹو شہید کا شمار بھی ایسی ہی شخصیات میں کیا جاتا ہے جنہوں نے ملک اور قوم کی خاطربے شمار کارنامے انجام دیے حتیٰ کہاپنی جان تک انہوں نے پاکستان پر قربان کردی۔ گو کہ ہم ذوالفقارعلی بھٹو جیسے عظیم رہنما کوکھوچکے ہیں لیکن ان کی سوچ،نظریے،خدمات اور کردارنے ان کوزندہ جاوید بنا دیا ہے اور وہ مرنے کے بعد بھی کروڑوں دلوں میں زندہ ہیں آج 5 جنوری کو بھٹو صاحب کی 94 ویں سالگرہ کا دن ہے اس موقع پر ملک بھر میں ان کے عقیدت مند باقاعدہ کیک کاٹ کر ان کی سالگرہ اس طرح بنا رہے ہیں جیسا کہ وہ زندہ ہوں ۔ایسی دیوانہ وار محبت اور عقیدت بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے جوبھٹو صاحب کو ملی ۔آج پھر ایک بار5 جنوری کا دن آیاہے تو پاکستانی عوام کے ذہنوں اور لبوں پر صرف بھٹو صاحب کا نام ہے کہ پاکستان کے تحفظ اور عوامی حقوق وفلاح وبہبود کے جو بڑے بڑے کام قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید نے اپنے دور حکومت میں کیئے وہ کو ئی دوسرا لیڈر آج تک نہیں کرسکا یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں بھٹو صاحب اور بھٹو خاندان کا نام آج بھی زندہ جاوید ہے۔

ؑؑ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے عظیم سیاسی لیڈر،بین الاقوامی شہرت یافتہ قد آور سیاسی شخصیت، عالم اسلام کے عظیم رہنما،پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم،قائد عوام ، ذوالفقار علی بھٹو شہید5 جنوری1928 کولاڑکانہ میں پیدا ہوئے اور14 اگست1973 کوپاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کی حیثیت سے نظام حکومت سنبھالا جبکہ 5 جولائی1977 کوفوجی جنرل محمد ضیاالحق نے امریکی سازش کا مرکزی کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کی پہلی عوامی حکومت کے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کرکے ان کے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کرتے ہوئے مارشل لا لگادیا اور پھرکچھ ہی عرصے بعد قتل کے ایک پرانے مقدمے میں کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر ملوث کرکے انتہائی متنازعہ عدالتی فیصلے کو بنیاد بنا کر جنرل ضیا نے امریکی اشارے پر4 ، اپریل 1979کوبھٹو صاحب کو پھانسی دینے کا حکم جاری کر کے ہماری قوم کو ایک عظیم دماغ اورقابل فخرسیاسی رہنماسے ہمیشہ کے لیئے محروم کردیا ،یہ جنرل ضیا
کا ایک ایسا جرم ہے جسے ہماری قوم کبھی معاف نہیں کرسکے گی۔

بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کے بعدقائدعوام ذوالفقار علی بھٹو ہی وہ دوسری شخصیت تھے جن کو پاکستانی قوم نے سب سے زیادہ محبت ،عزت اور مقام دیا ،باقی تما م سیاسی لیڈروں کا نمبر ان کے بعد ہی آتا ہے۔ہر سال کی طرح اس سال بھی بھٹو صاحب کے 94 ویں یوم پیدائش کے موقع پر ملک بھر میں خصوصی اجتماعات منعقد ہورہے ہیں اور سب کے لبوں پر بھٹو صاحب کی خدمات ،کارکردگی اور کردار کا تذکرہ ہے ۔پاکستان میں قائد اعظم محمدعلی جناح کے بعد سب سے زیادہ عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے قابل فخر سیاسی لیڈرذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کی سیاست میں ایک ایسے فلسفے کی بنیاد رکھی جو ان کی موت کے بعد بھی ایک زندہ حقیقت ہے۔ قائداعظم کے انتقال کے بعدپاکستان میں عظیم سیاسی رہنما ذوالفقار علی بھٹو پیدا ہوئے جنہوں نے ملک وقوم کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے یہ ثابت کیا کہ اگر مرکزی قیادت محب وطن ہو تو عوام کے لیئے بہت کچھ ایسا کر جاتی ہے کہ لوگ اسے مرنے کے بعد بھی یاد رکھتے ہیں۔4 ۔اپریل 1979 کو ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دے کر قتل کرنے کے بعد بہت سے ناسمجھ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ بس اب بھٹو کی کہانی ختم اوربہت جلد لوگ بھٹو کی پھانسی اور بھٹو کو بھول جائیں گے لیکن کیا ایسا ہوا؟ ہماری سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ بھٹو کو شہید کرکے راستے سے ہٹانے والے خود بے نام ونشان ہوگئے لیکن وہ بھٹو کی محبت پاکستانی عوام کے دلوں سے نہیں نکال سکے اور پھر لوگوں نے دیکھا کہ مردہ بھٹو ،زندہ بھٹو سے بھی زیادہ طاقتور ثابت ہوااور آج بھی پاکستانی سیاست میں بھٹو اپنی قبر سے بیٹھ کر حکومت کررہا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت بھٹو کا ووٹ بینک ہے جو آج بھی برقرار ہے اوردوسرا ثبوت ہر سال بھٹوصاحب کے یوم شہادت کے موقع پران کے مزار پر جمع ہوکر فاتح خوانی کرنے والی عوام کا ہجوم ہے ،ہر سال 4 ۔اپریل کو بھٹو شہید کی برسی کے موقع پر ان کے مزار پر لوگوں کا ایک میلا سا لگا ہوتا ہے اور اسے مارنے والے آمرجنرل ضیاالحق کی برسی کے موقع پر اسکی قبر پر چار آدمی بھی دکھائی نہیں دیتے۔اسے کہتے ہیں حیات جاوداں جو ذوالفقارعلی بھٹو شہید کو نصیب ہوئی ۔آج جبکہ ملک بھر میں ان کی 89 ویں سالگرہ کا دن منایا جارہا ہے، ایک بارپھراخبارات اور الیکٹرونک میڈیا پر بھٹو صاحب کے کردار اور کارناموں کے تذکرے کیئے جارہے ہیں جو یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ اچھے اور سچے لوگ اپنے کردار اور کارناموں کی بدولت مر کر بھی زندہ رہتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو 5 جنوری 1928 کو لاڑکانہ کے قریب گڑھی خدا بخش میں پیداہوئے۔ بھٹو نے ابتدائی تعلیم بمبئی میں کیتھیڈرل اینڈ جانکینن اسکول سے حاصل کی۔ بھٹو نے بطور طالب علم تحریک پاکستان میں حصہ لیا۔1943 میں ان کی شادی شیریں امیر بیگم سے ہوئی،1947 میں اعلٰی تعلیم کیلیے کیلی فورنیا چلے گئے اور یونیورسٹی آف کیلے فورنیا سے پولیٹکل سائنس میں آنرز کی ڈگری حاصل کی۔1950 میں وہ قانون کی تعلیم حاصل کرنیآکسفورڈ چلے گئے۔ پھر تعلیم کی تکمیل کے بعد بار ایٹ لا کے لیے ’’لنکز ان ‘‘پہنچے یہیں سے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔

8 ستمبر 1951 میں کراچی میں بیگم نصرت اصفہانی سے دوسری شادی کی۔21 جون 1953 کوپہلی صاحبزادی بینظیر بھٹو کی ولادت ہوئی ،1957 میں بھٹو کی عملی سیاست کا آغاز ہوا جب اقوام متحدہ میں انہوں نے پاکستان کی نمائندگی کی1958 میں ہی وہ بحیثیت وزیر توانائی ایوب خان کی کابینہ میں شامل ہوئے۔ ان کا شمار ایوب خان کے معتمد ترین رفقا میں ہونے لگا، 1960 میں بھارت سے سندھ طاس اور1961 میں سوویت یونین روس سے پٹرول نکالنے کے معاہدوں میں بھی ان کی مشاورت کو کلیدی حیثیت حاصل رہی۔1962 بھٹو صاحب کے قومی عروج کا سال تھا جب انہیں پاکستان کا وزیر خارجہ بنایا گیا۔1966 میں انہوں نے وزارت خارجہ سے استعفی ٰدیدیا۔

30 نومبر 1967 میں انہوں نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور ایوب مخالف سیاست شروع کی 12 نومبر1968 میں پہلی مرتبہ گرفتار ہوئے۔ 7 دسمبر1970کے پارلیمانی انتخابات میں پیپلز پارٹی مغربی پاکستان کی اکثریتی جماعت بن کر ابھری. 20 دسمبر1971 سے 13 ، اگست1972 تک بھٹو صدر پاکستان کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔ 14 ۔ اگست 1973 سے5 جولائی 1977 تک وہ وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے۔

اس عرصے میں1973 کا آئین،ایٹمی پروگرام کا آغاز،اسلامی سربراہی کانفرنس اور دیگر کارنامے تاریخ میں ان کے نام لکھے گئے۔ 5 جولائی 1977 کو ان کی حکومت ختم کر دی گئی اورپاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم کو گرفتار کر کے ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو3 ستمبر کو نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے الزام گرفتار کیا گیا اور ان پر قتل کا مقدمہ چلایا گیا۔

24 ، اکتوبر سے مقدمے کی کارروائی کا آغاز ہوا۔ مسعودمحمود سلطانی گواہ بن کر بھٹو کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ 18 ،مارچ 1978 لاہور ہائی کورٹ نے بھٹو کو مجرم قرار دے کر سزائے موت دینیکا فیصلہ سنادیا گیا۔ 25مارچ 1978 سپریم کورٹ میں فیصلے کے خلاف اپیل کی گئی اور مختلف مراحل کے بعد24مارچ 1979کو نظر ثانی کی اپیل بھی مستردکردی گئی۔ بالآخر گیارہ روز بعد 4 ۔اپریل 1979 کواس اہم قومی رہنما کوفوجی آمرجنرل محمد ضیاالحق کے دور حکومت میں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔

پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم قائد عوام ذوالفقارعلی بھٹو شہید کی شخصیت اتنی پہلودارہے اور ملک و قوم او رعالم اسلام کے حوالے سے ان کی خدمات اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا احاطہ کسی ایک مضمون میں کرنا ممکن ہی نہیں ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ہی وہ پہلے سیاسی رہنما ہیں جنہیں عوام میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی اور جن کے نام پر آج تک ووٹ دیا جاتا ہے۔بھٹو کے دور میں ہی سب سے پہلے قومی شناختی کارڈز کا اجرا شروع کیا گیا،عالم اسلام کو بھٹو صاحب نے ہی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور لاہور میں عالم اسلام کے رہنماؤں کی پہلی سربراہ کانفرنس کا کامیابی سے انعقاد کیا،بھٹو صاحب کے دور میں پہلی بار زرعی اصلاحات کا نفاذکیا گیا،1973 کا آئین پاکستا ن بھی بھٹوصاحب کی کوششوں سے ہی بنا اورپاکستان کے اس واحد متفقہ آئین کی تخلیق اور اس کا نفاذ بھی بھٹو صاحب کا ہی کارنامہ ہے ،شراب نوشی پر پابندی اورقادیانیوں کو کافر قرار دینے کے انقلابی اقدامات بھی بھٹو صاحب نے ہی کیئے ،1973 کے آئین میں پہلی بار اردو کوپاکستان کی قومی اور سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا،بھٹوصاحب نے ہی پاکستانی قوم کو قومی لباس شلوار قمیض سے روشناس کروایاجو دنیا بھر میں پاکستانیوں کی پہچان بن چکا ہے ،سستی روٹی اور سستے کپڑے کے پلانٹ بھی سب سے پہلے بھٹو صاحب ہی نے لگائے ،پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لیئے بنیادی کوششوں کا آغاز بھی بھٹو صاحب کے ہی دور میں شروع ہوا اور بھٹو صاحب نے ہی پاکستان کا سب سے پہلاایٹمی پلانٹ اور ری ایکٹر فرانس کے تعاون سے لگایا جس کے نتیجے میں آج ہمار ملک عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے دشمن اب تک ہمار اکچھ نہیں بگاڑ سکے غرض یہ کہ بھٹو صاحب کا کارناموں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ ان کا مکمل تزکرہ اس مختصر کالم میں نہیں کیا جاسکتا لیکن افسوس کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے مقبول ترین محب وطن سیاسی رہنما ’’بھٹو‘‘کو فوجی آمر جنرل ضیاالحق نے امریکی اشارے پر اقتدار پر قابض ہوکر ایک نام نہادقتل کے جھوٹے مقدمے میں ملوث کرکے نہایت بے دردی اوربزدلی کے ساتھ رات کے اندھیرے میں پھانسی پر لٹکادیا۔جبکہ ان کی قائم کردہ پاکستان پیپلز پارٹی وہ واحد سیاسی پارٹی ہے جو سب سے زیادہ مرتبہ اقتدار میں آچکی ہے ۔
ذوالفقار علی بھٹو کو اعلیٰ سیاسی سوجھ بوجھ،قائدانہ صلاحیت اورولولہ انگیز شخصیت کی بدولت پاکستان اور بیرونی دنیا میں ایک متحرک اورباعمل بہادر سیاسی رہنما کے طور پرزبردست شہرت حاصل ہوئی لیکن ملک دشمن، مفادپرست سیاست دانوں،سازشی عناصر اور سامراجی طاقتوں کو بھٹوصاحب کی یہ زبردست عوامی مقبولیت ایک آنکھ نہ بھائی کیونکہ بیرونی طاقتوں کو تو ایسے بکاؤ سیاست دان چاہیئے ہوتے ہیں جو ان کے مفادات کے حصول کے لیئے ان کے اشاروں پرناچ سکیں لیکن بھٹو میں منافقت اور مفاد پرستی نہ تھی یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ولولہ انگیز سیاسی زندگی گزاری اوبڑی شان اور بہادری سے سامراجی قوتوں،فوجی آمروں اور ان کے زرخریدچمچوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں للکارااور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کرپاکستانی عوام کے حقوق کی خاطرنہایت مہارت کے ساتھ صاحب اقتدار اور بادشاہ گر قوتوں کو ہر میدان میں چت کرکے اپنی غیرمعمولی سیاسی صلاحیتوں کا لوہا منوایاوہ ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ کا وہ سنہرا باب ہے جس پر پوری پاکستانی قوم کو فخر کرنا چاہیئے ۔

ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو اپنے قیام کے 25سال بعد یعنی1973میں ایک ایسا منظم اور مربوط دستور دیاکہ یہ دستور آج بھی پورے پاکستان کی لاج ہے اور اِس کی روشنی میں ملک و ملت کے ترقی و خوشحالی کی راہیں متعین کی جاتی ہیں اور اِسی دستور نے آج پورے پاکستان یعنی وفاق سمیت صوبوں کو ایک اکائی کے طورپر متحدکر رکھاہے اور اِس کے ساتھ ساتھ شہیدذوالفقارعلی بھٹو کا جودوسرا اور بڑا عظیم کارنامہ تھا وہ یہ کہ انہوں نے پاکستان سے کئی گنابڑے اور جارحیت پسنداپنے پڑوسی ملک بھارت کو لگام ڈالنے کے لئے اپنی اولین ترجیحات میں پاکستان کو ایک ایٹمی ملک بنانے کی داغ بیل ڈالی اور بالآخر یہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کاہی منصوبہ تھا اور اِن کی ہی انتھک محنت کا ثمر تھا کہ پاکستان 1998میں ایٹمی دھماکے کرکے خود کو ایک ایٹمی ملک کا درجہ دلوانے میں کامیاب ہواجس سے بھارت کو یہ انتباہ کیا گیا کہ خبردار اگر اْس نے پاکستان کی جانب میلی آنکھ سے بھی دیکھاتو اِس کی آنکھیں نکال لی جائیں گیں۔اوریہی شہید ذوالفقار علی بھٹو تو تھے کہ جنہوں نے ملک میں پہلی بار شراب کی پابندی لگانے اور قادیانیوں کو غیر مسلم کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ ملک میں جمعہ کے دن مکمل طور پر عام تعطیل کا اعلان بھی کیا یوں اِن کے اِن اقدامات سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ وہ ایک اﷲ ، ایک رسول صلی اﷲ علیہ وال وسلم اور ایک قرآن کو ماننے والے پکے اور سچے مسلمان بھی تھے ۔اوراب اِس میں بھی کسی قسم کے شک و شبہ کی کو ئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ قائدعوام شہید ذوالفقار علی بھٹوکی شخصیت کواول روز سے ہی جو عوامی پذیرائی حاصل ہوئی تھی اور آج تک ہے وہ اِس ملک میں بانی پاکستان قائداعظم کے بعد کسی بھی مرد سیاست دان یا کسی مرد وزیر اعظم کو نہیں مل سکی ہے ۔

فوجی حکمران جنرل ضیا الحق نے اپنے غاصبانہ اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے بھٹو صاحب کو قتل کے ایک انہتائی متنازعہ مقدمے میں ملوث کرکے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیاجس کے بعدان پر عدالت میں مقدمہ چلااور ہائی کورٹ کے جج مولوی مشتاق حْسین نے بھٹو صاحب کو انتہائی غیرمنصفانہ طور18 مارچ 1978کوسزائے موت کا فیصلہ سنایا،اس وقت کے امریکہ نواز حکمران فوجی آمر جنرل ضیاالحق نے اس فیصلے پر4اپریل 1979کو عمل کرکے ایک عدالتی قتل کیا ،اوراپنے اس گھناؤنے عمل کے نتیجے میں اس نے عالمِ اسلام کوایک عظیم رہبر اور شخصیت سے محروم کردیا ۔لیکن بھٹو کو مار کر بھی مارا نہیں جاسکا ۔

قائد عوام ذوالفقار علی بھٹوکی زندگی اور موت دونوں قابل رشک ہیں کیونکہ ان جیسی متحرک اور فعال زندگی اوردلیرانہ شہادت بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے اور ایسے ہی لوگ تاریخ کے صفحات اور لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔بھٹو صاحب نے جس خاندان میں جنم لیا اس میں شروع سے ہی روپے پیسے کی کوئی کمی نہ تھی کہ وہ کرپشن کرنے کے لیئے سیاست کا رخ کرتے بلکہ بھٹو صاحب نے تو عوامی حقوق کی بالا دستی اور پاکستان کو ایٹی طاقت بنانے کی پاداش میں پھانسی کے پھندے کو چوم کر جام شہادت نوش کیالیکن اپنے اصولوں اور نظر یات پرسمجھوتا نہیں کیا،انہوں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی ذاتی مفاد کی بات نہیں کی بلکہ ہمیشہ ملکی مفادات اور عوامی خواہشات کو مقدم رکھ کر نظام حکومت کو چلایا لیکن افسوس کہ آج کا دور مفاد پرستی،لسانیت،اور قومیت کا پرچار کرنے والے سیاست دانوں کا دور ہے جس میں حب الوطنی ایک جرم بن چکی ہے آج کے مفاد پرست ،قوم پرست اورلسانیت پسنداگر خود کو لیڈر سمجھتے ہیں تویہ ان کی خوش فہمی ہے کیونکہ عوام اب سیاسی طور پر بہت باشعور ہوچکے ہیں اور وہ کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنا جانتے ہیں۔اگر کسی کو سیاست دان بننے اور کہلانے کا شوق ہے تووہ ذوالفقارعلی بھٹو شہید اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے سیاست سیکھے جنہوں نے دنیا بھر میں اپنے مثالی کردار اور عمل سے پاکستانی سیاست دانوں کا اچھا اور قابل تقلیدامیج بنایایہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر بھٹو خاندان کا نام عموماً اورذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیر بھٹوکا نام خصوصاً بہت عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے، ان دونوں عظیم سیاسی رہنماؤں کے کردار و عمل نے ان کو پاکستانی سیاست کا لازمی حصہ بنادیا ہے جس کے اثرات پاکستانی سیاست پر کل بھی تھے ،آج بھی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتاہے ، چمن میں دیدہ ورپیدا

پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذو الفقارعلی بھٹو کو ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کرکے پھانسی دے کر شہید کیا گیا اور ان کی بے نظیر بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کوپہلے توکراچی میں خودکش بم دھماکے کے ذریعے مارنے کی کوشش کی گئی لیکن اس میں ناکامی کے بعد27 دسمبر کو2007 کوراول پنڈی میں تاریخی جلسہ عام کے بعد لیاقت باغ کے قریب ان کو بھی گولیاں مار کر شہید کردیاگیا ۔ پاکستانی سیاست میں بھٹوخاندان اپنا لہوشامل کر کے پاکستانی قوم کو ہمیشہ اس بات کا احساس دلاتا رہا کہ عوام کی جائز ضرورتوں، امنگوں اور خواہشات کو پورا کرنے اور پاکستان کے استحکام اور سلامتی کے لیئے اپنی جان کی بازی لگانے والے محب وطن لوگ ابھی ختم نہیں ہوئے لیکن افسوس27 دسمبر کی شام بھٹوخاندان کے لہو سے روشن پاکستانی سیاست کا آخری چراغ بھی بجھادیا گیا اور پاکستان دشمن عناصربے نظیر بھٹو کو بھی ابدی نیند سلانے میں کامیاب ہوگئے اوربے نظیر بھٹو کو بھی اپنی حب الوطنی،بہادری اورعوامی مقبولیت کی قیمت آخر کار اپنے خون سے ہی چکانی پڑی ۔یہی وہ لوگ ہی جنہوں نے مختلف ادوار میں فوجی آمروں اور ان کے کاسہ لیس سیاسی چمچوں کے آگے سرجھکانے کی بجائے سر اٹھاکر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان سے عوام کے جمہوری حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد جاری رکھی جس کی پاداش میں بھٹو خاندان کے چار اہم ترین افراد شہید کردیئے گئے لیکن تمام تر کوششوں اور مظالم کے باوجود’’بھٹو‘‘ کانام پاکستانی سیاست اور پاکستانی عوام کے دلوں سے نہیں نکالا جاسکا۔
یہ بازی خون کی بازی ہے ، یہ بازی تم ہی ہاروگے
ہر گھر سے بھٹو نکلے گا ، تم کتنے بھٹو ماروگے

بھٹو خاندان نے پاکستان کی فلاح وبہبود اور استحکام کے لیئے اپنی جان کی پرواہ کیئے بغیر سیاسی جدوجہد میں فعال ترین کردار ادا کرکے پاکستانی عوام کے دلوں میں جو جگہ بنائی ہے اور جو بلند مقام حاصل کیا ہے وہ ان سے کوئی نہیں چھین سکتا،وقت اور تاریخ پاکستانی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے کردار اور کارناموں کو ہمیشہ محفوظ رکھیں گے۔

ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمارے مفادپرست معاشرے میں ذوالفقارعلی بھٹواوربے نظیر بھٹو جیسے محب وطن رہنماؤں نے جنم لیاجنہوں نے اپنی ساری زندگی عوامی حقوق کی سر بلندی اور پاسداری کے لیئے وقف کردی لیکن افسوس ان دونوں قابل فخر سیاسی حکمرانوں کو قتل کردیاگیااورپاکستانی قوم عظیم مدبر اور محب وطن سیاسی رہنما ؤں سے محروم ہوگئی۔ذوالفقارعلی بھٹو کی شہادت کے بعد جو خلا پیدا ہوا اسے تو ان کی باصلاحیت اور بہادر بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو نے پر کردیا تھا لیکن محترم بے نظیر بھٹو کی شہادت سے پاکستانی قیادت میں جو خلا پیدا ہوا ہے اسے اب شاید ہی کبھی پورا کیا جاسکے کیونکہ ان کے بعد ان کے جانشین کے طور پر غٰیر متوقع طور پر جو شخصیت پیپلز پارٹی کے نئے قائدکی صور ت میں سامنے آئی اور پھرصدر پاکستان جیسے اہم ترین منصب پر فائز ہوئی وہ بھٹوخاندان کا داماد ہونے ،بے نظیر بھٹوشہید کا شوہر ہونے اور بے نظیر بھٹو کے بچوں کا باپ ہونے کے ناطے بھٹوخاندان میں شامل ضرور ہیں لیکن ان کی رگوں میں دوڑنے والا خون بھٹو خاندان کا نہیں ہے ،بھٹو خاندان اور پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاسی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے جب پارٹی اور ملک کی قیادت کسی ’’بھٹو‘‘کے ہاتھ میں نہیں ہے اور یہی وہ فرق ہے جو ہمیں پاکستان پیپلز پارٹی کی سابقہ اورحالیہ قیادت کے طرز حکمرانی میں واضح طور پرنظرآتا ہے۔ورنہ عوامی ضرورتوں، امنگوں اور مسائل سے لاتعلقی، چینی ، گھی،خوردنی تیل ،بجلی ،گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ،کمیشن کی خاطر یوٹیلیٹی اداروں کو نااہل انتظامیہ کو فروخت کرنا، مفادپرستی،ضمیرفروشی ،کرپشن اور اقرباپروری جیسی بڑی برائیوں کا فروغ بلکہ سرپرستی اور مہنگائی کے طوفان کوقابو کرنے کی صلاحیت اور اہلیت سے محرومی یا مجرمانہ خاموشی کسی بھی دور میں’’ بھٹوز‘‘کی پیپلز پارٹی کا شیوہ نہیں رہا۔

آج 5 جنوری2021 کو جبکہ پوری قوم قائدعوام ذوالفقارعلی بھٹو کا 94 واں یوم پیدائش منا رہی ہے پاکستانی عوام کاسب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ عوام کو طاقت کا سرچشمہ قرار دینے والی ذوالفقار علی بھٹو جیسے عوامی رہنما کی بنائی ہوئی پاکستان پیپلزپارٹی ،جسے کوئی فوجی آمر،سیاسی اتحاد اور امریکی سازش نقصان نہ پہنچاسکی اسے چندمفاد پرست افراد کے ٹولے نے نہایت چالاکی کے ساتھ’’ ہائی جیک ‘‘کیا اورپھر اقتدار میں آنے کے بعد مخلص،سینئر اور وفادارنظریاتی کارکنوں کو نظر اندار کرتے ہوئے ذاتی مفادات کے حصول کے لیئے اپنی تقریروں میں عظیم ترین سیاسی اور عوامی رہنماؤں بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی تصویروں کو سجا کراور ’’ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ‘‘اور’’ زندہ ہے بی بی زندہ ہے ‘‘کے نعرے لگا لگاکرجس بری طرح عوام کا استحصال کیا ہے اور عوام کی بنیادی ضرورتوں کو مہنگائی کے طوفان میں غرق کرکے، عوامی مسائل سے آنکھیں چرا تے ہوئے اب تک جس طرح نظام حکومت کوچلایا ہے اس نے شیروں کی طرح جینے والے شہیدوں کی پارٹی کوجو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اس پرہر پاکستانی کا دل خون کے آنسو رورہا ہے۔

جب تک پیپلز پارٹی کی قیادت ’’بھٹوز‘‘کے ہاتھ میں رہی عوام نے اس پارٹی کے نمائندوں کو بھر پور انداز میں ووٹ دے کر کامیابی سے ہمکنار کروایا لیکن افسوس 27 دسمبر کی شام راول پنڈی کے لیاقت باغ کی جلسہ گاہ کے باہرمحترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پارٹی قیادت انتہائی غیرمتوقع طور پر جن لوگوں کے ہاتھ میں آئی انہوں نے اقتدار میں آتے ہی سب کچھ بدل ڈالا،نہ’’ بھٹوازم‘‘ باقی رہا نہ’’ بھٹو ز ‘‘کی اصل پیپلز پارٹی۔ یہی وجہ ہے کہ زرداری حکومت کے 5 سال مہنگائی اور بدامنی کے لحاظ سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کے بدترین سال تھے اس دور میں اندھیر نگری اور چوپٹ راج کا عملی مظاہرہ پوری قوم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

عوام کسی بھی حکمران یا سیاسی پارٹی کی سنگین غلطیوں کو کبھی معاف نہیں کرتے اور جیسے ہی انہیں امید کی کوئی کرن نظر آتی ہے ان کے دلوں میں چھپا ہوا لاوا کسی آتش فشاں کی طرح اچانک ہی پھٹ کر باہر آجاتا ہے جو سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے ۔ لہذا اب بھی وقت ہے کہ ہمارے سیاست دان تاریخ سے سبق حاصل کرکے سنبھل جائیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ تاریخ انہیں کوئی سبق سکھادے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ تمام قائدین اور کارکنوں کو آج کے دن اپنا احتساب کرکے یہ سوچنا ہوگا کہ ذوالفقارعلی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے فلسفے اور نظریے(بھٹوازم) کواختیار کرنے میں ہی پیپلزپارٹی اور پاکستان کی بقا کا راز پوشیدہ ہے۔

آج جبکہ ایک بار پھرجب5 جنوری کوساری قوم اپنے عظیم قائدذوالفقارعلی بھٹو کو خراج عقیدت پیش کررہی ہے اورملک بھر میں ذوالفقارعلی بھٹو شہید کا 94 واں یوم پیدائش منا یا جارہاہے ضرورت اس بات کی ہے کہ بھٹوصاحب کے انداز فکر،فلسفے اور طرز حکمرانی (بھٹوازم )کے مطابق حکومتی امور کو انجام دے کر عوام میں پائی جانے والی بے چینی اور بڑھتی ہوئی نفرت کے اسباب کو دور کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی سینیئر اور مخلص سیاسی قیادت کو ہوش میں آکر اپنا فعال کردار ادا کرناہوگااور کیا ہی اچھا ہواگر اس کام کا آغازپیپلز پارٹی کی سینیئر سیاسی قیادت اپنی صفوں سے مفادپرست اور خوشامدپسندعناصر کو نکال کرشروع کرے جنہوں نے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیئے ’’بھٹوز‘‘کا نام استعمال کرکے،بھٹوخاندان کا اور پیپلز پارٹی کاامیج خراب کیا ۔ لہذا اس جانب فوری توجہ دیتے ہوئے سینیئر، فعال اور مخلص پارٹی کارکنوں کوآگے لایا جائے ورنہ یہ نہ ہو کہ لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ جس پیپلز پارٹی کو کوئی فوجی آمر،سیاسی اتحاد اوربیرونی طاقت ختم نہیں کرسکی اسے اپنوں نے ہی ختم کردیا ۔اور بقول شاعر: گھر کو آگ لگ گئی ،گھر کے چراغ سے ۔۔۔۔

کاش پاکستان پیلزپارٹی کی قیادت ان مخلص قائدین کو مل جائے جو’’بھٹوازم‘‘کے سچے پیروکارہیں اوربھٹوزکے فلسفے اورنظیریے سے اچھی طرح واقف ہیں اور ملک کو اس کے مطابق چلانے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ آخر میں فخر پاکستان قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو شہیدکی شخصیت کو منظوم خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے میں اپنے یہ چند اشعاربھٹو صاحب کے چاہنے والوں کی نذرکرتا ہوں۔
ذوالفقارعلی بھٹو کو منظوم خراج عقیدت
۔۔۔۔۔شاعر:فریداشرف غازی۔۔۔۔۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو ، مرگیا بھٹو
دار پر چڑھ کر ، دلوں میں اتر گیا بھٹو
یوں تو لیڈر بہت سے آئے ، گئے، او ر آئیں گے
قائداعظم کے بعد ہے ، سب سے بڑ ا بھٹو
تحریر : فرید اشرف غازی ۔کراچی

 

Fareed Ashraf Ghazi
About the Author: Fareed Ashraf Ghazi Read More Articles by Fareed Ashraf Ghazi : 119 Articles with 125239 views Famous Writer,Poet,Host,Journalist of Karachi.
Author of Several Book on Different Topics.
.. View More