پولیس کے ہاتھوں نوجوان کا ناحق قتل ۔۔لمحہ فکریہ

دین اسلام اور اخلاقی اقدار کی رو سے انسانی جان کو ہمیشہ حرمت حاصل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی انسان کا ناحق قتل کرنا کفر کے بعد کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ ہے، اس لیے کسی انسان کو ناحق قتل کرنے میں اﷲ تعالیٰ کے حکم کی پامالی اور اس کی نافرمانی ہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ
’’ترجمہ: اور جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اﷲ اس پر غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا اور اﷲ نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کرر کھا ہے۔( سورۃ النسا، آیت نمبر 93)۔‘‘

رعایا کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے ،لیکن پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہیں ،یہاں تو امن امان کی بحالی کے لیے بیسیوں ادارے قائم کئے گئے ہیں ۔ قومی خزانے سے کروڑوں روپے ان پرخرچ کیا جاتا ہے ۔لیکن پھر بھی ملک میں امن و امان کی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے ۔

اسلام آباد پولیس کو ایک ’’مثالی پولیس‘‘ کہا جاتا ہے لیکن گذشتہ چند برسوں میں اسی پولیس کے جوانوں کے ہاتھوں کئی بے گناہ لوگوں کو گولی مار پر ہلاک کیا جاتا رہا ۔افسوسناک امر یہ ہے کہ شہریوں کی ہلاکت کے ان واقعات میں ملوث کسی ایک بھی پولیس اہلکار کو کبھی کوئی سزا نہیں دی جا سکی ۔ بلکہ انہیں محکمہ ترقیوں سے نوازاجاتا رہا ۔2 فروری 2017ء کو سیکٹر آئی ٹین میں پولیس ناکے پر موجود ایگل فورس کے 2 اہلکاروں نے ایک کار سوارتیمور ریاض نامی نوجوان کو گاڑی نہ روکنے پر گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا ،اس واقعہ میں نوجوان کے ساتھ گاڑی میں موجود خاتون محفوظ رہی۔اسی طرح بھارہ کہو ناکے پر کئی برس پہلے ایک مل اونر کو گاڑی نہ روکنے پر گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا ، آئی 9کے علاقے میں ناکے سے گذرنے والے ایک شخص کو دہشت گرد کہہ کر گولی مار دی گئی تھی ،اسی طرح کے کئی واقعات اسلام آباد میں پیش آ چکے ہیں ۔اب تازہ ترین واقعہ میں سرینگر ہائی وے پرسی ٹی ڈی سکواڈ اہلکاروں نے اسامہ ندیم نامی21سالہ نوجوان کو گاڑی نہ روکنے پر اس کا پیچھا کرکے گولیاں مار کر شہید کر دیا ہے ۔اس سانحے میں پولیس اہلکاروں نے نوجوان کو سامنے سے 17گولیاں ماری ہیں ،جس میں نے 3گولیاں اسے لگی ہیں۔اس کارروائی میں 5سے زاہد پولیس اہلکاروں نے نہتے نوجوان کی کار کا پیچھا کیا ۔ایک لمحے کو فرض کر لیا جائے کہ اسامہ نامی نوجوان کسی واردات میں ملوث تھا یا دہشت گرد تھا ۔لیکن قانون کسی طور بھی ملزم کو سیدھے فائرمارنے کی اجازت نہیں دیتا ۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ پولیس کے 5جوان ایک نہتے نوجوان کو قابو نہیں کر سکتے تھے کہ انہوں نے اسے قتل کرنے کا انتہائی اقدام اٹھا یا ۔اس ناحق قتل پر عوام سراپا احتجا ج ہیں ،ادھر مقتول کے والد نے الزام لگایا ہے کہ میرے بیٹے کا چند روز قبل پولیس اہلکاروں نے جھگڑ اہواتھا جس پر ان لوگوں سے میرے بیٹے کو دھمکی دی تھی۔حقیقت کیا ہے اس بارے تحقیقاتی رپورٹ آنے سے قبل کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ اطلاعات کے مطابق پولیس نے نوجوان کے بے گناہ ہونے کا بھی اعتراف کر لیا ہے۔ پولیس کا موقف ہے کہ اسامہ بے گناہ تھا،اسے مشکوک سمجھ کر گولیاں ماری گئیں ۔کمشنر اسلام آباد نے انسداد دہشتگردی ایکٹ کے سیکشن 19 کے تحت تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے، جو جلد از جلد اپنی تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ پیش کرے گی۔جے آئی ٹی کا سربراہ ایس پی صدر سرفراز ورک مقرر کیا گیا ہے جبکہ ڈی ایس پی تھانہ رمنا، ڈی ایس پی انویسٹی گیشن اور ایس ایچ او تھانہ رمنا کے علاوہ آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کا ایک ایک نمائندہ بھی جے آئی میں شامل ہوگا۔ اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے گرفتار اہلکاروں کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا ہے۔نوجوان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق مقتول کے سر، سینہ اور پیٹھ پر گولیوں کے واضح 11 زخم موجود ہیں۔ مقتول کے سینے پر زخم کے دو اور بائیں بازو پر ایک نشان ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق بظاہر مقتول کی موت زیادہ خون بہنے اور پھیپھڑے متاثر ہونے سے ہوئی۔ وزیر داخلہ شیخ رشیداحمد کا کہنا ہے کہ واقعے کے ذمہ دار اہلکاروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ چیف کمشنر اسلام آباد عامر احمد علی نے واقعے کی فوری جوڈیشل انکوائری کے لیے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مقررکردیا ہے۔

ان تمام واقعات کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات واضح ہے کہ پولیس لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کی بجائے شریف شہریوں کے لیے سوہان روح بنتی جا رہی ہے ۔حاکم وقت کو فرات کے کنارے بھوک اور پیاس سے مرنے والے کتے کا بھی حساب دینا ہوگا ،لیکن ہمارے حکمران بڑے بڑے دعوؤں کے باوجود رعایا کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ نہیں دے پا رہے ۔کوئی ایک سال قبل جب سانحہ ساہیوال میں 4بے گناہوں کو سرعام قتل کیا گیا تھا تو اس پر تمام تر احتجاج کے باوجودانصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے تھے ۔بلکہ گرفتار پولیس اہلکاران کو بعد ازاں عدم ثبوت پر بّری کروا دیا گیا تھا ۔اگر اس وقت سانحہ ساہیوال کے ذمہ دار پولیس اہلکاروں کو سزا دی گئی ہوتی تو شاہد آج اسلام آباد میں یہ واقعہ رونما نہ ہوتا ۔لیکن پاکستان کا یہ المیہ ہے کہ یہاں غریبوں کو تو تختہ دار پر لٹکا دیا جاتاہے لیکن باقی لوگ قتل و غارت کرنے اور ظلم و زیادتی کے باوجو د آزاد گھوم رہے ہوتے ہیں ۔

جوان اولاد کی موت کا غم کتنا بڑا دکھ اور صدمہ ہے یہ صرف ماں باپ ہی سمجھ سکتے ہیں ۔اور جب کسی ماں کا بے گناہ اور نہتا لخت جگر یوں سرعام گولیوں سے چھلنی کردیا جائے تو یقینا اس ماں کے دل سے نکلنے والی ’’آہ‘‘اور بدعا عرش ہلا دیا کرتی ہے ۔ریاست مدینہ کے دعویدار حاکم کو یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ ایسی دکھیاری ماؤں کی آہ و بکا کبھی رائیگاں نہیں جایا کرتی ۔کاش! کہ عوام کی جان و مال کے محافظ ادارے اور لوگ اس بات کا احساس کر سکیں کہ ظلم تو ظلم ہے ،اور اﷲ بہترین انصاف کرنے والا ہے ۔زندگی سراپاآزمائش ہے ۔انسانی جانوں پر ظلم یا بے گناہوں کا قتل ایسا گھناؤنا جرم ہے جس کی معافی نہیں ہے ،،یہ سب حقوق العباد کا حصہ ہیں اور اس میں کوتاہی کی سزا انسان کو مرنے سے پہلے بھگتا پڑتی ہے ،لیکن شاہد ہمیں اس کا ادراک ہی نہیں ہوتا ۔

ہمارے ہاں ایک رواج بن چکا ہے کہ جب بھی کوئی سانحہ رونماء ہوتا ہے تو وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سمیت تما م حکومتی ذمہ داران عوامی رد عمل سے بچنے کے لیے روایتی تفل تسلیوں والے بیان داغ دیتے ہیں ، واقعے کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا جاتا ہے ۔بعد ازاں عوام کو ’’من گھرٹ کہانیاں ‘‘سنا کر خاموش کروا دیا جاتا ہے ۔لیکن اب ایسا نہیں ہونا چاہئے ۔ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس واقعہ میں انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ملزمان کو قرار واقع سزا کو یقینی بنائیں ۔ایسا نہ ہوکہ سانحہ ساہیوال سمیت اس قسم کے دیگر واقعات کی طرح سانحہ اسلام آباد بھی روایتی ’’اشک شوئی‘‘ کے بعد داخل دفتر ہو جائے ۔حالات کا تقاضا ہے کہ بے گناہ اور نہتے شریف شہریوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے پولیس اہلکاروں کو نشان عبرت بنا دیا جائے تاکہ آئندہ کسی اور ملازم کو اس قسم کا ظلم کرنے کی جرات نہ ہو ۔
 

syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 114870 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.