میں بھی جاؤں گا۔ ۔ ۔

الاآصف پلازہ کے سامنے واقع ہوٹل میں کچھ احباب کے ساتھ شہر قائداور ملک کی صورتحال پر گفتگو ہورہی تھی ، سبھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کررہے تھے ، کوئی ملک کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار موجودہ حکومت اور کچھ احباب حزب اختلاف کو قرار دے رہے تھے۔ یہ بات بھی بہت ہی واضح ہے کہ ہمارے ملک میں ہر شہری اب سیاسی سوجھ بوجھ ماضی کی نسبت حال میں کہیں زیادہ رکھتا ہے۔ بڑے بڑے مبصروں کی طرح وہ اپنے تبصرے اس طرح کرتے ہیں کہ سننے والے دنگ رہہ جاتے ہیں۔پی ڈی ایم کے حق میں کچھ احباب بول رہے تھے اور کچھ انکے خلاف اپنے دلائل دے رہے تھے۔ اس پوری مجلس میں دونوں اطراف کی رائے کا سنتے ہوئے تیسرا چائے کا پیالہ میرے ہاتھوں میں تھا ۔ بحث و مباحثے کا یہ دور جاری تھا کہ دونوں پاؤں سے معذور اک اور صاحب آئے اور کہنے لگے کہ میں بھی جاؤنگا۔ کہاں جائیں گے ؟ میرے سوال پر ان صاحب نے آسماں کی جانب دیکھا اور کہا کہ مفتی زرولی صاحب کے نماز جنازے میں۔۔۔ اب یہ سننا تھا کہ اس محفل میں جاری تمام بحث رک گئی اور سوالات شروع کہ انہیں کیا ہواِ کب ہو ا اور کیسے ہوا؟

انہی صاحب نے کہا کہ مفتی صاحب کو انڈس ہسپتال میں کورونا کے مرض کے باعث داخل کرایا گیا تھا جہاں وہ اسی مرض کے باعث وفات پاگئے ۔ سبھی افسردہ ہوئے انا ﷲ و انا الیہ راجعون پڑھا، نظریں جھکائیں اور محفل میں خاموشی چھا گئی۔ کچھ دیر کے سکوت کے بعد راقم نے ہی یہ اطلاع دینے والے فرد عارف سے نماز جنازہ کے متعلق پوچھا ،عارف کا کہنا تھا نماز جنازہ آج ہی ہے اور ان کے مدرسے کے قریب اک بڑا پارک ہے اسی میں آج بلکہ ابھی گیارہ بجے انکی نماز جنازہ ادا کی جائیگی۔ اس وقت صبح کے نو بجکر پچیس منٹ ہورہے تھے ان لمحات میں راقم سمیت سبھی اس مجلس کے مقصد کو بھول گئے تھے۔ یہ ساری اطلاعات دینے والے کا کہنا تھا کہ اس نماز جنازہ میں مجھے جانا ہے اور میں تو آپ سبھی سے یہ گذارش کروں گا کہ مفتی صاحب اک اعلی ظرف کے دیندار انسان تھے میں انکی دل سے عزت کرتاتھا اور ہمیشہ کرتا رہونگا ، نماز جنازہ میں بھی اسی جذبے کے تحت جانا چاہتا ہوں۔ دونوں پاؤں سے معذور ضرور ہوں تاہم میرے جذبات اور احساسات اﷲ جانتا ہے اور میں اﷲ ہی کی رضا کیلئے مفتی زرولی صاھب کی نماز جنازہ میں جانا چاہ رہاہوں۔ ان لمحات میں اس فرد کے یہ جذبات قابل تعریف تھے انہی کو مدنظر رکھتے ہوئے راقم نے ان کے ساتھ بلکہ انہیں لے کر نماز جنازہ میں جانے کا ارادہ کیا ۔ اس وقت اس محفل میں شریک افراد میں اک اور فرد بھی تیار ہوا اور یوں یہ محتصر سا قافلہ اسی معذور فرد کے کہنے پر رواں ہوا کہ ممتاز عالم دین تھے اسلئے بہتر یہی ہے کہ اس وقت ہی وہاں پہنچا جائے۔ ہم جلدی وہاں جائیں گے تو ہم باآسانی اگلی صفوں میں جگہ بنالینگے۔ یوں سہراب گوٹھ سے یہ قافلہ گلشن چورنگی کی جانب روانہ ہوا اور قریبا سوا دس بجے ہی معروف شاپنگ مال کے قریب پہنچا جہاں مدارس کے بچے اور جوان کھڑے ٹریفک کے نظام کو سنبھالنے کے ساتھ رہنمائی کر رہے تھے۔ متعدد جگہوں پر روکنے کے بعد جب وہ یہ دیکھتے کہ اک معذور شخص مفتی صاھب کی نماز جنازہ میں شریک ہونے کیلئے آیا ہے تو راستے میں موجود رکاوٹ کو دور کرنے کے ساتھ راستے کو آسان بنانے کی کوشش کرتے۔ عوام کے ہجوم کا تو یہ عالم تھا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی اور جوق درجوق عوام جنازہ گاہ میں داخل ہورہے تھے ، معذور عارف کے ساتھ اس دوسرے فرد کو پہلی ہی صف میں جگہ ملی اور راقم جنازہ گاہ کا جائزہ لینے کیلئے پارک اور پارک سے جڑے مدرسے کو دیکھنے گیا۔ صورتحال یہ تھی کہ پارک میں جگہ ختم ہوگئی تھی اور عوام پارک کے قریب سڑکوں پر صفیں بنارہے تھے، پارک کے آخری حصے میں پہنچ کر جنازہ گاہ کا جائزہ لیا اور اس دوران بارہا اعلانات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ نماز جنازہ آخری صف میں ہی ادا کی گئی اور دعا کے بعد آگے کی جانب بڑھتے ہوئے پہلی صف پہنچا جہاں عارف اپنی بیساکھیوں کے سہارے کھڑے منتظرتھے۔ پارک کے دروازوں پر ہجوم کے کم ہونے کا آدھا گھنٹے تک انتظار کیا اور بعدازاں وہاں سے اپنی سواری کی جانب چل دیئے۔ مدارس کے طلبہ اس معذور فرد کی وجہ سے ہمارے لئے راستہ بناتے گئے اور یوں ہم اپنی سواری کے پاس پہنچے اور وہاں سے واپس سہراب گوٹھ کی جانب چل پڑے۔ معروف شاپنگ سینٹر سے سپر ہائیوے تک کثیر تعداد میں لوگ پیدل رواں دواں تھے ۔نماز جنازہ کی اس ادائیگی میں کہیں معذور فرد دیکھائی نہ دیا ، یہ عارف ہی تھے جن کے دل میں اس بزرگ عالم دین کی محبت تھی اور انکی نمازہ جنازے میں جانے کا یہ ان کا ارادہ اک مضبوط اور مصمم ارادہ تھا جس کی بدولت اﷲ نے انہیں پہلی صف میں نماز جنازہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔

راقم انہیں چھوڑ کر گلستان جوہر میں واقع جامع مسجد و مدرسہ دارلخیر کی جانب بڑھے جہاں انہیں قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے کاوشیں کرنے والے اک رکن کی دادی کی نماز جنازہ میں شریک ہونا تھا، جامع مسجد و مدرسہ دارلخیر کہ جس کانام آتے ہی مفتی عثمان یار شہید کا چہرہ سامنے آجاتاہے ، وہ چہرہ سامنے ہی ہوتاہے کہ انکے والدمفتی اسفندیار کا چہرہ بھی سامنے آجاتاہے، بزرگ مبلغ اور دیندار کہ جنہوں نے شہید مفتی عثمان یار خان کی نماز جنازہ خود پڑھائی تھی۔ انہی کے مدرسے میں بعد نماز ظہر اک اور نماز جنازہ ادا کی اور مرحوم کے درجات کی بلندی کیلئے ڈھیروں دعائیں کیں۔ اس نماز جنازہ میں ان شہریوں سے بھی رابطے ہوئے جوڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے جاری تحریک میں طویل عرصہ شریک رہے۔

ان دونمازجنازوں کی ادائیگیوں کے بعد راقم اک بزرگ کے ساتھ شہر سے باہر سپرہائیوے پر واقع بحریہ ٹاؤن گئے ، بزرگ اپنے کاموں میں مصروف عمل رہے اور راقم صبح سے سہہ پر تک ایک ہی دن میں ادا کی جانے والی نمازہ جنازوں کو سوچتے رہے۔ زندگی کے سفر کو اور اس وقت اطراف میں گھومنے پھرنے والے شہریوں کو آتے جاتے دیکھتے رہے ، کسی کے چہرے پر ہنسی کے ساتھ مسکراہٹیں ہیں تو کوئی اپنی ذات میں گم اپنے کاموں میں مگن، سپرہائیوے پر کوئی تیز رفتاری کے حدوں کو چھوتے ہوئے شہر کی جانب بڑھ رہا ہے کوئی کہیں زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ شہر سے باہرکی جانب اپنی منزل مقصودکی طرف دورے جارہے ہیں۔ اسی نوعیت کی سوچیں کم اور مشاہدات جری تھے کہ سورج اپنے جھکاؤکی جانب تیزی سے بڑھتا ہوا محسوس ہوا ، قریب کی مساجد سے ایک بار پھر اﷲ اکبر اور اﷲ اکبر کے ساتھ نماز عصر کی اذانوں کا آغاز ہوااور کچھ دیر خاموشی میں اﷲ کی کبریائی و بلندی کو بیان کرنے کے بعد خاموشی اختیار کرلی گئی۔ بزرگ کو کچھ اور بزرگوں نے گھیرا اور انہیں اپنے ساتھ کہیں چلدیئے، راقم کچھ دیر انتظار کے بعد گاڑی سے جائے نماز نکال کر وہیں نماز عصر اداکرنے میں لگ گئے۔ نماز کی ادائیگی ہوئی اور اس کے بعد دعاؤں کا اک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا، نبی مہربان صلی اﷲ علیہ وسلم پر دورد بھیج کر دعائیں مانگیں اور دعائیں مانگنے کا یہ سلسلہ بزرگوں کی آمد پر اختتام کو پہنچا۔
 
بزرگ اصفہانی روڈ پر اپنی رہائش گا کے قریب ہی اترے اس وقت مغرب کا ہوچکا تھا اور آذانیں جاری تھیں۔عباس ٹاؤن کے سامنے اک راستہ پر سے گذرتے ہوئے راقم کو اپنی گھر جانا تھا ، مغرب کی نماز ادا کرکے ہی آگے بڑھا جائے ، اسی خیال کے تحت امنہ مسجد پہنچا اسوقت باجماعت نماز جاری تھی ، نماز کے بعد امام مسجد نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ سید عبداﷲ صاحب کی نماز جنازہ بقیہ نماز کے بعد اداکی جائیگی ، سید عبداﷲ وہ صاحب ہیں ، امام کا اعلان جاری تھا ، کہ جنہوں نے اس امنہ مسجد کی بنیاد رکھی اور اس مسجد کے ساتھ مدرسہ بنانے میں انہوں نے خدمات سرانجام دیں۔

ایک ہی دن میں یہ تیسرا نمازجنازہ تھا ،بہرحال نماز ادا کی اور اسکے بعد نماز جنازہ بھی ادا کیا پھر گھر کی جانب گامزن ہوئے ، ابھی کچھ فاصلہ ہی طے کیا تو کراچی جو بے جاٹریفک کے میں اپنی شہرت رکھتا ہے، اس کہاوت کی عملی تصویر پیش نظر تھی ، وجہ ہجوم یہ سامنے آئی کہ اک گھر میں فوتگی ہوئی ہے اور اس گھر کے سامنے شامیانے لگے ہوئے ہیں جس کے باعث ایک طرف کا سڑک بند ہے اور دوسری سڑک پر تین اطراف سے سب گذر رہے ہیں اسلئے یہ رش ہے۔ اسی ہجوم میں اک فرد نے بتایا کہ امنہ مسجد میں جو ابھی نماز جنازہ ادا کی گئی ، اسی مرحوم کی رہائش گاہ ہے جس کے باہر یہ شامیانے لگے ہیں ۔ اس گھر کے سامنے سے روز صبح کے اوقات میں چہل قدمی کرتے ہوئے گزرنا ہوتا تھا ، انکے گھر سے بعد نماز فجر باآواز بلند قرآن کریم کاکلام ترجمعے کے ساتھ پڑھنے کی ریکارڈنگ جاری ہوتی تھی۔
 
اگلی صبح بھی جب مرحوم سید عبداﷲ کے گھر کے سامنے سے گذرے تو اﷲ کا کلام ترجمعے کے ساتھ جاری تھا، گھرکے قریب ہی جہاں مرحوم نے اک مسجد کی سنگ بنیاد رکھی ، جہاں مدرسہ بھی قائم ہوچکا ہے ، وہاں پر اﷲ کے دین کی تعلیم اور خدمت کا سلسلہ تاحال جاری ہے تو دوسری جانب انکے اپنے گھر میں بھی خیرو برکت کے ساتھ اﷲ کا کلام ترجمعے کے ساتھ سنائے جانے کا سلسلہ جاری ہے ، اﷲ ہی انکے درجات کو بلند کرئے اور انکے لواحقین کو اپنے برزگوں کے نقش قدم پر چلنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے، امین

کسی بھی گھر میں جب اک بچے کی ولادت ہوتی ہے تو چند ہی لمحوں کے بعد اسکے کانوں میں اذان دی جاتی ہے اور پھر زندگی گذرنے کے بعد جب موت واقع ہوتی ہے تو اسکی نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے، عملی زندگی میں دیکھیں تو اذان اور نماز کے درمیان کتنا وقت ہوتاہے ؟ اسی کم وقت کو جانچیں تو عملی زندگی کا کہ جس کے ختم ہونے کا یقین تو سبھی کو ہے تاہم وہ وقت کس لمحے ختم ہوگا اس بات یقین کسی کو نہیں ، لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس زندگی کو اسکی رضا کیلئے گذریں جس نے اس دنیا میں بھیجا ، مثبت اور منفی کی جنگ میں مثبت قدم رہیں اور آخرت میں نہ ختم ہونے والی زندگی کیلئے تیاری کریں۔ ۔۔
 

Hafeez khattak
About the Author: Hafeez khattak Read More Articles by Hafeez khattak: 195 Articles with 162463 views came to the journalism through an accident, now trying to become a journalist from last 12 years,
write to express and share me feeling as well taug
.. View More