کھیتوں سے منڈیوں تک کسان کی ذلالت کی داستان

ایک وقت تھا کہ کسان صرف فصل اگانے تک ہی محدود تھا اور مارکیٹ کی سمجھ بوجھ نہ ہونے کے باوجود بھی اس کا گزر بسر ہورہا تھا۔ موجودہ دور میں جہاں زندگی کے دیگر شعبوں میں جدت آئی ہے وہیں مارکیٹنگ نے بھی ایک سائنس کی صورت اختیار کر لی ہے۔اب اگر کسان اپنی محنت کا زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ سے آگاہ ہونا بھی ضروری ہے۔ بھارت اور پاکستان کے کسانوں کو ہمیشہ ایک جیسے حالات کا سامنا رہا ہے۔ ابتدا میں دونوں ممالک کے کسان اپنی ضرورت سے زیادہ اجناس براہ راست کنزیومر کو بیچا کرتے تھے۔کسان کو بیج، کھاد وغیرہ خریدنے کے لیے رقم کی ضرورت پڑی تو اس نے ساہوکاروں کا رخ کیا جو اسے بھاری سود پر قرض دیتے تھے۔ فصل کی کٹائی کے بعد جب کاشتکار بھاری قرضہ چکانے کے قابل نہیں ہوتا تھا تو یہ ساہوکار اس فصل کو اونے پونے داموں خرید لیتے تھے۔اس طرح کسان استحصال کے نظام میں دھنستا چلا جارہا تھا جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کا زرعی شعبہ شدید متاثر ہونے لگا۔ اس مقصد کے لیے دونوں طرف قوانین بنائے گئے تاکہ کسان کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکے اور اسے فصل کے مناسب دام مل سکیں۔

اس مقصد کے لیے بھارت میں ایگریکلچر پروڈیوس مارکیٹ کمیٹی (اے پی ایم سی) بنائی گئی جس کے زیر انتظام ہر علاقہ میں کسانوں کے لیے منڈیاں قائم کی گئیں۔ پاکستان میں بھی اس سے ملتا جلتا منڈی کا نظام متعارف کرایا گیا اور کسان کو وہاں اپنی پیداوار فروخت کرنے کے لیے پابند کردیا گیا۔بنیادی طور پر یہ نظام کسان کے فائدہ کے لیے تھا کہ کسان اس منڈی میں اپنا مال بیچے گا جہاں کئی ٹریڈرز مختلف ریٹ لگائیں گے اور کسان کو جو بہترین ریٹ ملے گا وہ اس پر اپنا مال بیچ کر فائدہ کمائے گا۔ اسی طرح ریٹیلر آکر ٹریڈرز سے رابطہ کرے گا اور جہاں اسے سب سے مناسب قیمت ملے گی وہ اسے خرید کر کنزیومر کو بیچے گا اور منافع کمائے گا۔لیکن حقیقت میں اس کے الٹ ہوا کہ تمام ٹریڈرز نے آپس میں ریٹ فکس کر لیے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسان جب مال بیچنے آیا تو اس سے کم ریٹ پر خرید کر ریٹیلر کو مہنگے داموں بیچا جانے لگا جس کا اثر براہ راست کنزیومر کی جیب پر پڑا۔ اس سارے چکر میں کسان اور کنزیومر بری طرح متاثر ہوئے جبکہ ٹریڈرز اور مڈل مین کی چاندی ہوگئی۔ آسان الفاظ میں یہ کہ جو چیز کسان سے دس روپے میں خریدی جاتی تھی اس کی قیمت کنزیومر تک پہنچتے ہوئے چالیس روپے ہوجاتی تھی اور باقی سارے پیسے مڈل مین اور ٹریڈرز کی جیب میں۔ان مسائل سے نمٹنے کے لیے بھارتی حکومت نے نہ صرف منڈیوں کو اے پی ایم سی کے تحت ریگولیٹ کیا بلکہ ٹریڈرز کو بھی لائسنس جاری کیے تاکہ ان کی مناپلی کو کم سے کم کیا جاسکے۔اس کے علاوہ بھارتی حکومت نے 22فصلوں پر کم ترامدادی قیمت (Minimum Support Price) بھی دی تاکہ ٹریڈر سے مناسب قیمت نہ ملنے کی صورت میں حکومت کسان کی پیداوار کو مناسب قیمت پر خرید سکے۔کچھ عرصہ قبل شانتا کمار کمیٹی نے ان کسان دوست اقدامات کا پول کھولتے ہوئے رپورٹ پیش کی کہ صرف 6 فیصد کسان کم تر امدادی قیمت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ٹریڈرز کو سیاسی تعلقات کی بنیاد پر لائسنس کی بندر بانٹ نے زرعی منڈیوں پر ان کی اجارہ داری قائم کردی ہے۔

پاکستان میں اس نظام کی خرابیوں سے نمٹنے کے لیے ڈائریکٹ مارکیٹنگ بھی متعارف کرانے کی کوشش کی گئی جس میں منڈیوں کے اندر کسانوں کو جگہ دی گئی تاکہ وہ اپنی پیداوار براہ راست کنزیومر کو فروخت کرسکیں۔ اس طریقہ کار کا مقصد نہ صرف مڈل مین اور ٹریڈرز کی مناپلی کو کم کرنا بلکہ کنزیومر کو سستی اور صاف ستھری اشیا کی فراہمی بھی تھا۔لیکن یہ نظام اس لیےموثر ثابت نہیں ہوا کیوں کہ ہمارے کسانوں کو مارکیٹنگ کی سمجھ بوجھ نہیں ہے۔چونکہ کسان کو اپنی پیداوار کے بدلہ میں فوری رقم کی ضرورت ہوتی ہے تاکہوہ اگلی فصل کا خرچ سکے اس لیے ڈائریکٹ منڈی سسٹم میں بھی وہ گاہک کا انتظار کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا اس لیے مڈل مین ان سے مال خرید کر اپنے لوگوں کے ذریعے بیچتے ہیں۔ اگر کوئی کسان خود بیچنا بھی چاہے تو وقت کی کمی اور سٹوریج کی سہولت نہ ہونے کے باعث وہ جلد ہی ہمت چھوڑ جاتا ہے۔ اس سسٹم کے علاوہ حکومت پنجاب نے ایک آن لائن پورٹل ایگریکلچر مارکیٹنگ انفارمیشن سروسز (اے ایم آئی ایس) کی بھی بنیاد رکھی گئی جہاں مختلف شہروں اور منڈیوں کے روزمرہ کے ریٹ دستیاب ہیں تاکہ کسان اپنی مرضی سے منڈی کا انتخاب کر کے زیادہ منافع کما سکے۔لیکن یہاں بھی یہ مسئلہ آڑے ہے کہ ٹرانسپورٹ کی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے کسان اپنی قریبی منڈی میں ہی مال بیچنے پر مجبور ہے۔اس کے علاوہ پھل اور سبزیاں بھی قریب ترین منڈی میں بیچی جاتی ہیں کیوں کہ سٹوریج کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ان کے خراب ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ اس پراجیکٹ کو کامیاب بنانے کو لیے حکومت کو چاہیے کہ کسانوں کو نہ صرف مارکیٹنگ کی تعلیم دی جائے بلکہ سبسڈائز ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے تاکہ ان پر ٹرانسپورٹیشن کا اضافی بوجھ نہ پڑے۔مزید یہ کہ کسانوں کو پروسیسنگ اور سٹوریج کی سہولیات بھی فراہم کی جائیں تاکہ پھل، سبزیاں اور دیگر اجناس خراب نہ ہوں۔

حال ہی میں بھارتی حکومت نے منڈیوں سے مڈل مین کے اثرورسوخ کو ختم کرنے کے لیے تین آرڈیننس پاس کر کے "ون نیشن، ون مارکیٹ" کا تصور دیا ہے۔کہنے کو یہ آرڈیننس کسان کے مارکیٹنگ کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہیں لیکن کسانوں نے مستقبل کے خدشات کے پیش نظر ملک بھر میں ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے۔ان آرڈیننس کے تحت اے پی ایم سی کو ختم کر کے کنٹریکٹ فارمنگ اور فری مارکیٹ کو فروغ دیا جائے گا۔عام طور پر بڑے کاروباری ادارے اور کمپنیاں خام مال ٹریڈرز اور مڈل مین سے خریدتے ہیں لیکن اس آرڈیننس کے بعد کسان مڈل مین کے چنگل سے آزاد ہوجائے گا اور اپنا مال براہ راست برانڈز اورکاروباری کمپنیوں کو بیچ سکے گا۔مثال کے طور پر اگر نیسلے کو جوس بنانے کے لیے آموں کی ضرورت ہے تو وہ آم پیدا کرنے والے کسان سے براہ راست معاہدہ کرے گا جس کے باعث مڈل مین کی جیب میں جانے والا پیسہ بھی کسان کو منافع کی صورت میں ملے گا۔کاغذی کاروائی میں یہ آرڈیننس کسان کے لیے بہت فائدہ مند معلوم ہوتا ہے لیکن کسانوں کے اس پر کئی تحفظات ہیں۔چونکہ 85فیصد سے زیادہ چھوٹے کسان ہیں جنہیں مارکیٹنگ کی سمجھ بوجھ نہیں ہے اس لیے وہ بڑی کمپنیوں سے سودے بازی میں مات کھا جائیں گے۔اس نظام کے حق میں سب سے بڑا دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ مڈل مین کے چنگل سے کسانوں کو آزادی مل جائے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ بڑی کاروباری کمپنیوں تک براہ راست کسانوں کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے عام منڈیوں کے مڈل مین وہاں سے اٹھ کر اس سسٹم میں آجائیں گے اور کسانوں کا استحصال جاری رہے گا۔حال ہی میں گجرات میں پیپسی کمپنی نے کسانوں کے خلاف ہرجانہ کا کیس دائر کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر بڑی کاروباری کمپنیاں کسانوں کو ان کا حق نہیں دیں گی تو چھوٹے کسان ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ اس طرح کی مارکیٹنگ میں میں کم تر امدادی قیمت (ایم ایس پی) کا کوئی تصور نہیں ہے جس کی وجہ سے کسانوں کو نقصان کا خدشہ زیادہ ہے۔ہریانہ میں اس آرڈیننس کے خلاف احتجاج کرنے والے کسانوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے کسانوں کو کاروباری مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔اے پی ایم سی پرائس ڈسکوری ہوتی تھی یعنی زرعی اجناس خریدنے کے لیے بولی لگا کرتی تھی لیکن اس قانون کے تحت کانٹریکٹر کو قیمت متعین کرنے کا مکمل حق حاصل ہوگا جس کی وجہ سے کاروباری طبقہ مستقبل میں اپنی من مانیاں کرسکتا ہے۔چونکہ یہ نظام فری مارکیٹ کے تصور پر ہے اس لیے حکومت کی طرف سے اس میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی اور نہ ہی کوئی فنڈز جاری کیے جائیں گی۔اس لیے ممکن ہے کہ شروع میں اس نظام کے تحت کسان کو فائدہ ہو لیکن یہ سسٹم دیر پا نہیں ہے کیوں کہ کاروباری طبقہ ہمیشہ اپنے پرافٹ مارجن کو کسانوں پر ترجیح دے گا۔کسانوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اے پی ایم سی کو ختم نہ کیا جائے بلکہ اس کو ریگولیٹ کرتے ہوئے ڈیجٹلائز کیا جائے تاکہ آن لائن منڈیوں میں کارٹلائزیشن کا سدباب کیا جاسکے اور کسانوں کا استحصال کم سے کم ہو۔کانٹریکٹ فارمنگ کو فروغ دینا اگرچہ برا نہیں ہے لیکن کسانوں کو اس میں کم تر امدادی قیمت(ایم ایس پی) دی جائے تاکہ بمپر پیداوار ہونے کی صورت میں نقصان کا اندیشہ نہ رہے۔چونکہ پاکستان اور بھارت کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہے اس لیے یہ صورتحال دونوں حکومتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ اگر معیشت بچانی ہے تو کسان کو ان کی محنت کی بہترین قیمت دینا ہوگی۔

Saad ur Rehman Malik
About the Author: Saad ur Rehman Malik Read More Articles by Saad ur Rehman Malik: 29 Articles with 28889 views Journalist by passion, Agronomist by choice, Leader by nature and Entrepreneur to be.. View More