سہاگن اورپیا اور کھیل کے میدان

تقسیم پر بات آئی تو کچھ ایسوسی ایشنز کے عہدے بھی تقسیم ہیں یعنی ایک بندہ ایک ایسوسی ایشن میں ہے تودوسری میں بھی ہے چلو اس کی کوئی تک بنتی ہے کہ کام ہی چلانا ہے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان ایسوسی ایشنز کی اولمپک کیساتھ الحاق ہے کہ نہیں. یہ وہ سوال ہے جس کے بارے میں پوچھنے کی کوئی ہمت نہیں کرتا.ان ایسوسی ایشنز کے کھیلوں کے مقابلے ہر ماہ منعقد کروائے جاتے ہیں کبھی صوبائی سطح پر ، کبھی گالہ کے نام پر .حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بعض ایسے ایسوی ایشنز بھی ہیںجن کے نام کاغذات میں ہیں لیکن حقیقت میں بالکل نہیں لیکن ان کے مقابلے کروائے جارہے ہیں ، فنڈز جاری ہورہے ہیںاور پھر اللہ اللہ خیر صلا..

اردو زبان کا ایک مقولہ ہے کہ سہاگن وہی جسے پیا من چاہے .پیا کا من کس پر آتا ہے یہ پیا ہی جانے لیکن کھیلوں کے شعبے میں سہاگن تو بہت ہیں لیکن پیا وہی ہے جو خرچہ آتاہے اور خرچہ کس پر اور کیوں کرتا ہے یہ ایک ایسی داستان ہے جسے دیکھ کر اور سن کر بھی عجیب لگتا ہے . پیا خود ہی سہاگنوں کیساتھ ظلم میں مصروف ہے.سپورٹس کے شعبے میں پیاحکومت ہیں اور سہاگنیں بہت ساری یعنی کھیلوں کی تنظیمیں -

خیبر پختونخواہ میں لگ بھگ چالیس کی قریب سہاگنیں پیا کے نزدیک ہونے کی کوشش کرتی ہیں ان میں کچھ تو قانونی ہیں جس طرح میاں بیوی کا رشتہ قانونی ہوتا ہے اور بوائے اور گرل فرینڈ کا رشتہ غیر قانونی ہوتا ہے اس طرح ان سہاگنوں سوری ایسوسی ایشنز میں کچھ قانونی اور کچھ غیر قانونی ہیں لیکن جس طرح قانونی بیوی کے ہوتے ہوئے غیر قانونی تعلق رکھنا غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے اس طرح قانونی سہاگنوں یعنی ایسوسی ایشن کے ہوتے ہوئے غیر قانونی ایسوسی ایشن کو سپورٹ کرنا غلط ہے لیکن یہ کام دھڑلے سے خیبرپختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں جاری و ساری ہے-

مزے کی بات تو یہ ہے کہ جس طرح سپورٹس ایسوسی ایشنز کیساتھ رویہ اور تعلق رکھا جاتا ہے اور تنظیموں کو کچھ نہیں ملتا . قانونی طور پر کام کرنے والے ایسوسی ایشنز کے عہدیدا ر اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتی پر بات نہیں کرتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کرنے سے وہ اپنے پیا یعنی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے نظروں سے آ جائیں گے اور امکان ہے کہ اگر گرانٹس ملنا بھی ہوا تو پھر نہیں ملے گا یہی ڈر انہیں اپنے حق کیلئے آواز بلند کرنے اور کسی بھی فورم پر بات کرنے سے روکتا ہے یعنی جس طر ح ہمارے معاشرے میں سہاگن کو یہ کہہ کر سسرال بھیجا جاتاہے کہ کچھ بھی ہو تو خاموش رہا کرو اور کچھ نہ بولو اور پھر وہ غریب سہتی رہتی ہے اپنے پیا کے قانونی بیوی ہوتے ہوئے وہ پیا کے گرل فرینڈ پر ہونے والے غیر قانونی خرچے بھی دیکھتی ہیں لیکن بول نہیں سکتی . کیونکہ اسے ڈر ہوتا ہے کہ اگر کچھ بول دیا تو پھر میری اوقات نہیں. بس یہی کام خیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں کھیلوں کے ایسوسی ایشنز کیساتھ جاری و ساری ہے.

اتنی لمبی تمہید سے کھیلوں کے ڈائریکٹریٹ او ر ایسوسی ایشنز میں جاری کشمکش پر بات کرنا ہے ، اس شعبے سے وابستہ کھیلوں کے بہت سارے ایسوسی ایشنز ایسے ہیں جنہیں سکولوں کے مدرس چلا رہے ہیں جو کہ خود غیر قانونی ہے یعنی ایک سکول کا ٹیچر بھی کھیلوں کی ایسوسی ایشنز کا اہم رہنما ہے ،مزے کی بات یہ ہے کہ کوئی یہ دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ سرکار کا ایک ملازم جس کی صبح کی ڈیوٹی سکول میں ہے کس طرح ٹورنامنٹ منعقد کرکے کھلاڑیو ں کے نام پر فنڈنگ لے رہا ہے اور پھر کھلاڑیوں سے انٹری فیس کے نام پر مقابلوں کیلئے رقمیں وصول کی جاتی ہیں.سب سے حیران بات تو یہ ہے کہ کھیلوں کے ان مخصوص مقابلوں کے امتحان تین ماہ بعد ہوتے ہیں اور اس کیلئے حصہ لینے والے کھلاڑیوں کو فیس ادا کرنی پڑتی ہے لیکن یہاں پر ہر ایرا غیرا اور نتھوا خیرابلیک بیلٹ ہے.کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ تین ماہ سے قبل کس طرح کے مقابلے کروا کر بیلٹ تقسیم کروائے جارہے ہیں .

تقسیم پر بات آئی تو کچھ ایسوسی ایشنز کے عہدے بھی تقسیم ہیں یعنی ایک بندہ ایک ایسوسی ایشن میں ہے تودوسری میں بھی ہے چلو اس کی کوئی تک بنتی ہے کہ کام ہی چلانا ہے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان ایسوسی ایشنز کی اولمپک کیساتھ الحاق ہے کہ نہیں. یہ وہ سوال ہے جس کے بارے میں پوچھنے کی کوئی ہمت نہیں کرتا.ان ایسوسی ایشنز کے کھیلوں کے مقابلے ہر ماہ منعقد کروائے جاتے ہیں کبھی صوبائی سطح پر ، کبھی گالہ کے نام پر .حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بعض ایسے ایسوی ایشنز بھی ہیںجن کے نام کاغذات میں ہیں لیکن حقیقت میں بالکل نہیں لیکن ان کے مقابلے کروائے جارہے ہیں ، فنڈز جاری ہورہے ہیںاور پھر اللہ اللہ خیر صلا..

کھیلوں کے ان ایسوسی ایشنز کیساتھ ہمارے اپنے کچھ صحافی بھی "کرتا دھرتائوں" میں شامل ہیں ا وروہ اوپن مقابلوں کی آڑ میں بین الاقوامی مقابلوں کیلئے اپنے اداروں کے لیٹر پیڈ تک جاری کرواتے ہیں اور پھرکبھی کوریج کے نام پر اور کبھی مقابلوں میں حصہ لینے کے نام پر لوگ " سمگل" ہوجاتے ہیں. یہ وہ بہترین آئیڈیا ہے جس پرپیا یعنی سپورٹس ڈائریکٹریٹ توابھی تک نہیں سمجھا لیکن کچھ سہاگن یعنی ایسوسی ایشنز سمجھ چکی ہیں.اوراس پر خاموشی ہیںانسانی سمگلنگ کے خلاف کام کرنے والے ایف آئی اے سمیت کوئی بھی ادارہ اس معاملے کی تحقیقات نہیں کررہا .کہ گذشتہ تیس سالوں یعنی تین دہائیوں سے کتنے صحافی غیر ممالک میں"ہوٹلوں میں ویٹری " کیلئے خیبر پختونخواہ سے نکل گئے ان میں کتنے اصلی صحافی تھے اور کتنے دو نمبر صحافی تھے. کتنے کھلاڑی جینئون تھے اور کتنے دو نمبر کھلاڑی ..اور اسی کے ساتھ ساتھ اس لعنت میں کن کن صحافیوں اور کن کن ایسوسی ایشنز نے مال بنایا.یہ وہ سوال ہے .جس کو یہاں پر اٹھانا کسی کیلئے بھی قابل مذمت ہے.. کیونکہ صحافی آسمان سے اتری مخلوق ہیں اور چند ایسوسی ایشنز سوری سہاگن پیا کی منظور نظر ہیں.. اس لئے چپ ہی میں بہتر ہے..


 

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 585 Articles with 413814 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More