غازی عِلم ُ الدین شہید(1929 ئ- 1908 ئ) فرانس کے واقعہ نے یاد تازہ کر دی

امریکہ و یورپی ممالک کے چند بیمار ذہنیت کے لوگ حضرت محمد ﷺ کے بارے میںجو گُستاخانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور وہاں کی حکومتیں جس طرح اُن کی پُشت پناہی کر رہی ہیں یہ آج کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ماضی سے آج تک اُن میں چند اہم نام ولیم میور، راج پال، سلمان رُشدی، تسلیمہ نسرین ، کرٹ ویسٹر گارڈ، پادری ٹیری جونزاور نیکولا بیسلے شامل ہیں۔جن کی وجہ سے جہاں ایک طرف دُنیا بھر کے مسلمانوں کی دِل آزاری ہو رہی ہے وہاں مسلمانوں کی طرف سے جذباتی اقدام کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔
غازی علم الدین شہید اُن میں سے ایک ہیں۔ تاریخ ِاسلام کے اس بطلِ جلیل نے شمع رسالت پر پروانہ وار نثار ہو کر عشاقِ مصطفےٰ کو آداب ِشہادت سکھا دیئے۔

غازی عِلم ُ الدین شہید

امریکہ و یورپی ممالک کے چند بیمار ذہنیت کے لوگ حضرت محمد ﷺ کے بارے میںجو گُستاخانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور وہاں کی حکومتیں جس طرح اُن کی پُشت پناہی کر رہی ہیں یہ آج کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ماضی سے آج تک اُن میں چند اہم نام ولیم میور، راج پال، سلمان رُشدی، تسلیمہ نسرین ، کرٹ ویسٹر گارڈ، پادری ٹیری جونزاور نیکولا بیسلے شامل ہیں۔جن کی وجہ سے جہاں ایک طرف دُنیا بھر کے مسلمانوں کی دِل آزاری ہو رہی ہے وہاں مسلمانوں کی طرف سے جذباتی اقدام کرنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔

غازی علم الدین شہید اُن میں سے ایک ہیں۔ تاریخ ِاسلام کے اس بطلِ جلیل نے شمع رسالت پر پروانہ وار نثار ہو کر عشاقِ مصطفےٰ کو آداب ِشہادت سکھا دیئے۔آپ نے اپنی جوانی کو عظمت ِ رسولﷺ پر قربان کر کے اہل ِایمان کو بتا دیا کہ مسلمان اپنا سر کٹا سکتا ہے مگر محبوب ِخُدا ﷺ کے حضور معمولی سی گستاخی بھی برداشت نہیں کر سکتا ۔اُنھوں نے اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کر کے حیات ِابدی حاصل کر لی اورتاریخ میں عشق و عقیدت کے اس عظیم مقام کے مستحق ٹھرے جس کے حصول کی تمنا ہر مسلمان کو ہو تی ہے۔ شاعر ِمشرق ڈاکٹرمحمد علامہ اقبال نے اُن کے بارے میں کہا تھا کہ " اَسی گلاں ای کر دے رہ گئے ترکھان دا منڈا بازی لہے گیا" ۔(ہم باتیں ہی کرتے رہ گئے اور بڑھئی کا بیٹا بازی لے گیا)۔

علم الدین کے والد طالع مند ایک غریب آدمی تھے،جن کا پیشہ نجاری(بڑھئی) تھا ۔ خاندان کے کچھ لوگ محلہ سر فروشاں لاہور اور کچھ خرادی محلہ لاہور میں آباد تھے۔طالع مند کی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد سُسر نے کچھ سال بعد اُنکی شادی اپنی چھوٹی بیٹی چراغ بی بی سے کر دی۔1906 ءمیں اُن کے بڑے بیٹے محمد دین کی اور پھر 4 ِدسمبر 1908 ءمیں سریانوالہ بازارکوچہ چا بک سواراں،رنگ محل لاہور کے ایک مکان میں علم الدین کی پیدائش ہوئی۔ابتدائی تعلیم کیلئے اُنھیں والد نے سریانوالہ بازارکی مسجد میں بھیجا اور پھر کچھ عرصہ بعد اپنے ایک واقف کار کے پاس مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیج دیا۔
علم الدین جب نوجوانی کی عمر میں قدم رکھا تو جسمانی ورزش کا شوق ہوا ۔جس کے بعد وہ خد وخال کے لحاظ سے شکیل نوجوان نظر آئے۔جسم سڈول ،رنگ سُرخ و سفید، پیشانی چوڑی اور بال سیاہ و گھنگریالے۔اُنھوں نے جوانی کی عمر میں ہی اپنے والد سے نجاری کا فن بھی سیکھ لیا تھا۔جسکی وجہ سے یکم جنوری 1928 ءکو اپنے والد کے ساتھ کوہاٹ جا کر بنوں میں فرنیچر کا کاروبار شروع کر دیا۔عملی زندگی کے آغاز کے بعد والدین کو اُنکی شادی کی فکر ہوئی تو اُنھوں نے اُنکی منگنی ماموں سراج دین کی بیٹی فاطمہ بی بی سے کر دی۔اس رسم کے بعد وہ لاہور میں اپنے ذاتی کاموں میں مصروف ہو گئے۔ شہر میں کیا ہو رہا تھا اُس کی خبر نہ تھی۔ یعنی بدبخت راج پال کون ہے اور اُس نے کیا جُرم ِعظیم کیا ہو ا ہے؟

راج پال ایک کُتب فروش تھا ۔جس کی دوکان انارکلی میں ہسپتال روڈ پر عشرت پبلشنگ ہاﺅس کے سامنے واقع تھی ۔جہاں پر بالعموم آریہ سماج کی مذہبی کتابیں فروخت ہوتی تھیں۔ کسی آریہ سماج مہاشے نے ایک کتاب لکھ کر اُس کو دی۔جس میں رسول پاک ﷺ کی زندگی کے بعض پہلوﺅں پر اور مذہب اسلام پر نہایت سوقیانہ جملے درج تھے۔ جب راج پال نے 1924 ءمیں وہ کتاب " رنگیلا رسول " کے نام سے چھاپی تو اُس پر مصنف کا نام درج نہ تھا۔ناشر نے اس پر صرف اپنا نام دے کر قانونی تقاضا پورا کر دیا۔کچھ عرصہ تو وہ کتاب مسلمانوں کی نظروں سے نہ گزری ۔لیکن جب اس کتاب کا مسلمانوں کو علم ہوا تو راج پال کے خلاف شدید احتجاج کی لہر دوڑ پڑی اور کتاب کو تلف کرنے کیلئے کہا گیا لیکن انکار پر اُسکے خلاف دفعہ 153 الف کے تحت فرقہ وار انہ منافرت پھیلانے کے الزام میں مقدمہ دائر کروایا گیا۔۔ ان حالات میں اُس ہندو کو گرفتار کر کے چھ ) 6 ( ماہ قید کی سزا بھی دی گئی ۔لیکن پھر اُسکی اپیل پر ہائی کورٹ کے جج دلیپ سنگھ مسیح نے 1927 ءمیں اُس کو اس بنا پر بری کردیا کی مروجہ قانون میں اس جرم میں کوئی دفعہ نہ تھی۔ان حالات میں سر محمد شفیع اور مولانا محمد علی جوہر جیسے مسلمانوں کے راہنماﺅں نے بہت احتجاج کیا۔بلکہ محمدعلی جوہر نے ایک اخباری نمائندے سے یہ بھی کہا کہ " اگر راج پال ہائی کورٹ سے بری ہونے کے بعدمعذرت شائع نہ کرتا یعنی اس کتاب کو چھاپنے کا وہ دوبارہ مرتکب ہوتا تو میں اُ سے اپنے ہاتھوں سے قتل کر دیتا"۔لیکن پھر کچھ عرصے بعد راج پال نے اُس کتاب کو دوبارہ شائع کروادیا۔ اسطرح پھر ایک دفعہ اُس ہندو کے خلاف مسلمانوں کی نفرت کا اظہار کُھلے عام جلسوں میں ہونے لگا۔ اس دوران ایک نوجوان نے اُس پر قاتلانہ حملہ کر کے اُس کو زخمی بھی کر دیا۔وہ مردود تو علاج کے بعد پھرتندرسُت ہو گیا۔ جبکہ اُس نوجوان کو گرفتار کر کے قید کی سزا سُنا دی گئی۔

علم الدین ایک دِن اندرون ِ شہر ایک جلسے کو دیکھ کر رُک گئے۔جلسہ اُس شاتم ِ رسول راج پال ہندو کے خلاف منعقد کیا گیا تھا۔ جب اُس جلسے میں راج پال کا نام سُنا تو اُس وقت تو وہ خاموشی سے اپنے بڑے بھائی جو کہ پہلے ہی جلسے میں خلافت کمیٹی کے رُکن کی حیثیت سے موجود تھے کے ہمراہ گھر آ گئے۔لیکن پھر اُنھوں نے اپنے بڑے بھائی سے پوچھا کہ راج پال کو قتل کرنے کا کیا انعام ہے؟ تو بڑے بھائی نے کہا کہ" پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا"۔چند دِن بعد بیرون ِ دہلی دروازہ درگا ِشاہ محمد غوث کے احاطہ میں مسلمانوں کا ایک اجتماع ہوا ۔جس میں عاشق ِ رسول ،امیر ِ شریعت عطاءاللہ شاہ بخاری نے بڑی رقت انگیز تقریر کی ۔علم الدین اپنے والد کے ساتھ اُس میں شریک تھے۔

بس یہاں سے سرفروش کا جذبہ بھڑکا ۔ 6 ِاپریل 1929ءکو اپنی والدہ سے اپنی پسند کا کھانا پکوا کر کھایا اور پھر اُن سے روزانہ سے زیادہ جیب خرچ لیکر سیدھے آتما رام نامی کباڑیئے کی دوکان پر پہنچے اور وہاں سے ایک چُھری خریدی۔سفید شلوار قمیص،کڑتی ،غرغابی اور دھاری دار پگڑی بوسکی کے لباس میں علم الدین اُس چُھری سمیت دن کے وقت راج پال کی دوکان میں جا پہنچے اور چُھری کا وار کر کے اُس سے نیچے پھینک دیااور وہاں سے چل دیئے۔لیکن پھر راستے میں خیال آ یا کہ کہیں وہ مردود زندہ نہ بچ جائے ۔واپس اُسکی دوکان پر پہنچے تو وہ ہلاک ہو چکا تھا اور اسکے دوہندو ملازموں نے سارا واقعہ دیکھنے پر شور مچاکر لوگوں کو اکٹھا کر لیا ہوا تھا۔ علیم الدین کو وہاں دیکھ کرہندوﺅں نے کو پکڑ کر مارنا شروع کر دیا ، جسکی وجہ سے وہ زخمی ہو گئے اور اس دوران پولیس آنے پر اُنھوں نے خود ہی گرفتاری بھی دے دی ۔جسکے بعد اس واقعہ کی تفتیش پولیس سب انسپکٹر چوہدری جلال دین کی سربراہی میں شروع کی گئی ۔اس دوران ہندوﺅں نے پہلے راج پال کی ارتھی کا جلوس نکالا اور پھر رام باغ نزد بادامی باغ میں نذر ِآتش کر کے اپنی مذہبی رسم کے مطابق راکھ دریائے راوی میں بہا دی۔

ان حالات نے مسلمانوں کو جذباتی کر دیا اور وہ خواہش کرنے لگے کہ علم الدین پر مقدمہ چلائے بغیر رہا کر دیا جائے ۔ لیکن 10ِ اپریل1929کو مقدمے کی پہلی پیشی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ای۔ایس لوئیس کی عدالت میں ہو ئی ۔ دوسری سماعت 16ِ اپریل 1929ءکو ہوئی جس میں استغاثہ کے وکیل لالہ راج کشن نے اُسکے دونوں ملازم کدارناتھ اور بھگت رام کو گواہ کے طور پر پیش کیا ۔ 25 ِ اپریل 1929 ءکو علم الدین کے تیئس (23 ) صفائی کے گواہان پیش ہوئے جن میںاُنکے والد بھی شامل تھے۔۔ لیکن 22 ِمئی 1929ءکو سیشن کوٹ نے علم الدین کو سزائے موت کا حکم سنا دیا ۔

علم الدین کی طرف سے جہاں وقت کے مشہور وکلاءخواجہ فیروز الدین، مسٹر سلیم اور خواجہ نیاز احمد مقدمے کی پیروی کر رہے تھے ۔ وہاں قائد اعظم محمد علی جناح سے بھی رابطہ کر کے ہائی کورٹ میںا پیل پر مقدمے کی پیروری کرنے کیلئے کہا گیا ۔ محمد علی جناح اس سلسلے میں بمبئی سے لاہور آئے اور عدالت میں دلائل دیتے ہوئے علم الدین کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کی ۔محمد علی جناح کے دلائل میں اتنا وزن تھا کہ ہائی کورٹ پہلی عدالت کا فیصلہ بدل سکتی تھی ۔لیکن 17ِ جولائی 1929ءکو کورٹ کے چیف جسٹس سر شادی لال نے ماتحت عدالت کی سزائے موت کا فیصلہ بحال رکھا ۔ اس مقدمے کے دوران علامہ اقبال نے علم الدین کی رہائی کیلئے بہت کوشش کی ، جسکی اگلی اور آخری کڑی مسٹر فرخ حسین ایڈووکیٹ کی وساطت سے پریوی کونسل لند ن میں درخواست دائر کرنا تھی ۔ درخواست کی گئی لیکن وہ بھی نامنظور ہوگئی ۔

اُس وقت چیف سیکرٹری ایچ ڈبلیو ایمرسن اور گورنر پنجاب سر جیفری ڈی ماﺅنٹ مورنسی تھے۔ جن کا جھکاﺅ ہندوﺅں کی طرف ہونے کے باعث مسلمانوں کی طرف سے مزید احتجاج وجہ بن سکتا تھا اور حکومت وقت کو یہ بھی ڈر تھا کہ لاہور میں علم الدین کو پھانسی دینا ایک نئے فساد کو جنم دینے کے برابر ہے۔ چنانچہ اس خدشہ کے پیش ِنظر 3 ِ اکتوبر 1929¾ءکو رات گئے انھیں سنٹرل جیل لاہور سے گوجرانوالہ لے جایا گیا اور پھر رات کی تاریکی میں ہی میانوالی منتقل کر دیا گیا۔ اُن کے والد نے حکومت سے درخواست کی کہ علم الدین کو لاہور میں پھانسی دی جائے جو 23 ِ اکتوبر 1929 ءکو مستر د کر دی گئی ۔27،28 اور 29 ِاکتوبر 1929ءکو رشتے داروں اور عزیزواقارب نے اُن سے ملاقات کی اوراُن کے دوست شاعر جنہوں نے میانوالی جیل میں ان سے آخری ملاقات کی وہ اُستاد عشق لہر تھے۔ اس دوران اُنھوں نے وصیت کی کہ میری لاش کے ہمراہ فساد بالکل نہ کیا جائے۔جو میری قمیص عدالت میں پڑی ہے وہ میرے ماموں سراج دین کو دی جائے۔میری شلوار میرے بھائی محمد دین کو دی جائے ۔جو یہاں میرے چار کپڑے ہیں اُن میں سے پگڑی میرے تایا مہرالدین کو قمیص چھوٹے تایا نورالدین اور کُرتی جھنڈو برادر پھجے کو دی جائے۔سلیپر میرے بڑے بھائی غلام محمد کو دیئے جائیں۔

30 ِاکتوبر 1929ء کو علم الدین سے آخری ملاقات کیلئے کے ورثاءکو جیل میں بلایا گیا ۔ پھر 31ِ اکتوبر 1929ءکو جمعرات کی صبح 7 بجے اُنھیں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا اور علم الدین ”غازی علم الدین شہید“ بن گئے ۔محبوب خدا کے اس شہدائی کو فی الوقت میانوالی کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا تا کہ لاہور دفن کرنے پر کوئی بڑا ہنگامہ نہ ہوجائے ۔لیکن جب مسلمان راہنماﺅں کی طرف سے اس بات کی یقین دہانی کروانے پر کہ غازی علم الدین شہید کی میت لاہور لانے پر کوئی جلسہ ، جلوس یا ہنگامہ برپا نہیں کیا جائے گا تو حکومت نے میت لاہور لانے کا بندوبست کر دیا ۔جس سے لاہور میں سر محمد شفیع ، علامہ اقبال اور چند میونسپل کمشنروں نے وصول کیا ۔ اُنکی قبر مبارک مولانا ظفر علی خان مالک روزنامہ " زمیندار" نے خاص اپنی نگرانی میں بنوائی۔ مولانا سید محمد دیدارعلی شاہ الوری اور علامہ اقبال نے اُنھیں لحد میںاُتارا۔ اس سے قبل نماز ِجنازة قاری محمد شمس الدین خطیب مسجد وزیر خان لاہور نے پڑھائی۔جنازہ میں بڑی تعداد میں عاشقانِ رسول ﷺ نے شرکت کی۔ اسطرح اکیس (21 )سالہ ” غازی علم الدین شہید “ کو میانی صاحب کے قبرستان میں سپردخاک کر دیاگیا ۔



 

Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 204 Articles with 308497 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More