عمر رسیدہ افراد کا عالمی دن


14 دسمبر 1990 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کثرت رائے کے ساتھ قرارداد منظور ہوئی کہ ہر سال یکم اکتوبر کو "بزرگوں کا عالمی دن" منانے منایا جائے گا۔ اس وقت سے لے کر اب تک ہر سال اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک میں یہ دن باقاعدگی کے ساتھ منایا جاتا ہے۔اس دن کو منانے کا مقصد عوام الناس میں بزرگ شہریوں کے مسائل اور حقوق کے حوالے سے شعور بیدار کرنا اور ان کی معاشرے کیلئے خدمات کا اعتراف کرنا ہے۔ بزرگ افراد کی ضروریات, مسائل اورتکالیف کے بارے میں سماجی آگاہی فراہم کرنا اور لوگوں کی توجہ بزرگ افراد کے حقوق کی پاسداری کی طرف مبذول کرانا ہے۔ یہ دن پہلی مرتبہ یکم اکتوبر 1991 کو منایا گیا۔ بزرگوں کے عالمی دن کے موقع پر دنیا بھر میں حکومتی سطح پر انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں کے زیر اہتمام سیمینارز، ریلیاں اور کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں۔ بزرگ شہریوں کے احترام، دیکھ بھال، علاج معالجے اور پنشن کے حصول میں آسانی کے مطالبات کیے جاتے ہیں۔ پاکستان کی 25 فیصد آبادی بزرگ شہریوں پر مشتمل ہے یعنی ساڑھے چھ کروڑ بوڑھے شہری علاج، کفالت، رہائش، ٹرانسپورٹ کے مسائل کا شکار ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کسی بھی معاشرے کے بزرگ افراد ایک قابل قدر اثاثہ ہوتے ہیں۔ آج بھی بہت سی قومیں پڑھے لکھے اور تجربہ کار بزرگوں پر مشتمل "تھنک ٹینک" تشکیل دے کر اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی تہذیب و تمدن میں عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال پر بہت توجہ دی جاتی ہے۔ 60 سال کی عمر کے بعد علاج معالجہ اور سفری سہولیات مفت مہیا کی جاتی ہیں۔ ان کے لیےکثیر تعداد میں نجی اور سرکاری "دار الکفالہ" (Old Age Homes) موجود ہیں، جہاں وہ اپنی زندگی کے آخری دن آرام سے گزار سکتے ہیں۔ مغربی معاشروں میں بوڑھے لوگوں کیلئے اس انتظام و انصرام کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اولاد اپنے بوڑھے ماں باپ کی خدمت کو بوجھ سمجھتی ہے اور ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داریاں قبول نہیں کرتی۔ کبھی کبھار "کرسمس" "فادرز ڈے" یا "مادرز ڈے" پر رابطہ کر کے انہیں کچھ تحائف دے کر اولاد اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو جاتی ہے۔ اسی کی دیکھا دیکھی مسلمان معاشروں خصوصا پاکستان میں بھی "اولڈ ایج ہوم سسٹم" رواج پا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی بڑی تیزی کے ساتھ بزرگوں کو دارلکفالہ اور دارلامان جیسی جگہوں پر چھوڑ کر جانے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور لوگ اپنے بزرگوں سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ "اولڈ ایج ہومز" میں رہائش پذیر بزرگ مرد اور خواتین کی نگاہیں الم ناک داستانیں بیان کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ بزرگ افراد اپنے بچوں کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب نظر آتے ہیں۔ بعض احسان فراموش اور بدبخت اولادیں عیدکے دن بھی اپنے والدین کی خیریت دریافت کرنے نہیں آتیں ۔ نہ صرف والدین بلکہ اسلام میں تو عزیز و اقارب اور ہمسایوں کے بھی بے شمار حقوق وفرائض ادا کرنے کا حکم ہے۔ لاوارث بوڑھے افراد کیلئے "دارالکفالہ" کا قیام ایک اچھا اور قابل تحسین اقدام ہے۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ مسلمانوں معاشرے کی اولادیں ماں باپ اور بزرگوں کی خدمت کو بوجھ سمجھیں اور انہیں ان خیراتی اداروں کے حوالے کر دیں۔ لیکن اب ہمارے معاشرے کی تلخ حقیت یہ ہے کہ اولادیں احسان فراموش ہوتی جا رہی ہیں۔ کچھ ایسے واقعات بھی منظر عام پر آئے کہ والدین سے بدسلوکی تو کیا احترامِ انسانیت کی ساری حدیں بھی پار ہو گئیں (الامان والحفیظ)۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ چار قسم کے عمر رسیدہ افراد کو "دار الکفالہ" میں قیام پذیر ہو نا پڑتا ہے۔ ایک وہ جنہوں نے ساری زندگی شادی نہیں کی اور اعزہ و اقارب بھی دیکھ بھال کی ذمہ داری سے قاصر ہیں۔ دوسرے وہ جنہوں نے شادی تو کی لیکن اولاد سے محروم رہے اور دیگر تعلق دار بھی ان کی خبر گیری کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔ تیسرے وہ جن کی اولاد نافرمان ہے اور ماں یا باپ کو اپنے لیے بوجھ سمجھتی ہے۔ لھذا ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ان بزرگوں کے (بوجہ بڑھاپا) چڑچڑا پن اور خدمت گزاری سے جان چھڑانے کا آسان طریقہ یہی ہے کہ انہیں کسی ایسے رفاعی ادارے کے سپرد کر دیں جو ان کی کفالت کی ذمہ داری قبول کرے۔ چوتھا یہ کہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچے تو چاہتے ہیں کہ ماں باپ کی خدمت کریں لیکن ان کی بیویاں بزرگوں کو گھر میں برداشت نہیں کرتیں۔ ہر روز کی تو تکار سے جان چھڑانے کیلئے دل پہ ہاتھ رکھ وہ اپنے والد یا والدہ کو کسی "اولڈ ایج ہوم" میں چھوڑ آتے ہیں۔ تہذیب حاضر کی نقالی میں پروان چڑھنے والے یہ رویے ہم سب کیلئے باعث عبرت اور ندامت ہیں۔ ہم مسلمان ہیں اور دین اسلام نے والدین اور بزرگوں کی خدمت پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ افسوس! کہ جس ماں کے قدموں تلےجنت ہے اور جس باپ کی رضا مندی میں اللہ تعالی راضی ہے، جنہوں نے زندگی بھر محنت و مشقت اور تکلیفیں برداشت کر کے اولاد کی پرورش کی ہے۔ آج جوان اولاد ان محسنوں کو اولڈ ایج ہوم کی نرسوں کے حوالے کر کے خود ایک عظیم سعادت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ وقت ہوتا ہے اپنے والدین کی خدمت کرکے ان سے دعائیں لینے اور ان کے احسانات کی قدردانی کا لیکن بصد افسوس کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارا معاشرہ بھی اس سعادت اور برکت سے محرومی کی راہ پر چل پڑا ہے۔ 22جون 2020ء کو اقوامِ متحدہ کی مدد سے برطانیہ کی Southampton University نے ایک رپورٹ مرتب کی جس میں ہوشربا انکشافات کیے گئے کہ ’’پاکستان بزرگوں کو بہتر معیارِ زندگی مہیا کرنے کے حوالے سے بد ترین ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے"۔ جہاں حکومت کو اس حوالے سے بہتر کارکردگی دکھانی چاہیے وہاں نوجوان نسل میں ماں باپ اور بوڑھے رشتہ داروں کی خدمت کے شعور کو بیدار کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ تعلیمی ادارے، مساجد کے خطباء اور سماجی تنظیمیں اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ قرآن پاک کی سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23 میں اللہ تعالی نے والدین کی عزت و تکریم کے حوالے سے ارشاد فرمایا کہ "اور تیرا رب فیصلہ کر چکا ہے اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو، اور اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف بھی نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور ان سے ادب سے بات کرو۔

 

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 216722 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More