بارش ، شام اور دہشت

خوف ایک پریشان خیال دماغ میں عفریت بن جاتا ہے ۔بہادر بننے کے لیے سب سے پہلے اپنے اندر کے خوف سے لڑنا پڑتا ہے ۔

شام کا وقت اپنے اند ر اداسی کے سنگ رومانیت کا تاثر لیے آتا ہے ۔ لیکن میرے زندگی کی ایک شام ایسی بھی تھی جس نے میرے روح تک کو لرزا دیا تھا ۔اس روز میں میں دیر تلک سوتی رہی ۔

نجانے کیسی بے خبری کی نیند تھی ۔ آنکھ کھلی تو کمرے میں اندھیرا پھیل چکا تھا۔باہر بڑے زور کی بارش ہو رہی تھی ۔کمرے کے ایک کونے سے ابوجی کے کراہنے کی آواز آئی تو میں گھبرا کر بستر سے اٹھی اور باورچی خانے کی طرف بھاگی ۔دل ہی دل میں اپنی غفلت کو کوستے ہوئے ان کے لیے دودھ گرم کرنے لگی ۔اسی ا ثناء میں باورچی خانے کی کھڑکی کے پاس سے بلی کے چلانے کی آواز آئی۔اس بلی نے دوروز سے ہمارے ناک میں دم کر رکھا تھا ۔کو ئی جانوراس کی ٹانگ چبا گیا تھا اور وہ زخمی ٹانگ لیے کراہتی پھر رہی تھی ۔ہمارے گھر میں ویسے ہی کسی کو جانوروں کو پالنے میں دلچسپی نہ تھی ۔امی کا خیال تھا کہ اگر ایک دفعہ اس زخمی بلی کو کو کچھ کھانے پینے کو ڈال دیا تو یہ ہمارے گھر کا پیچھا نہیں چھوڑے گی۔ان کی بات کو صحیح مانتے ہوئے کسی نے بھی اس بلی پر توجہ نہ دی ۔ابو جی کو دودھ کے ساتھ دوائی پلاتے ہوئے میری آنکھوں سے ایک بار پھر آنسو رواں ہو گئے۔فالج کے حملے نے انہیں بلکل ہی بے بس اور لاچار بنا دیا تھا ۔جب سے میرے بڑے بھا ئی اکبر پوسٹ ڈاکٹریٹ کے لیے لندن سدھارے تھے تب سے انہوں نے بات چیت کر نے کی شعوری کو شش بھی ترک کر دی تھی ۔

ہاں تو میں اس شام کی بات کر رہی تھی جس نے زندگی کے متعلق میرے ادراک کوایک نئی جہت بخشی ۔ابو جی کو دوائی پلانے کے بعد میں نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا تو بارش مزید زور پکڑتی دکھائی دے رہی تھی ۔وقفے وقفے سے گونجنے والی بجلی کی کڑک جسم میں کپکپی طاری کررہی تھی ۔سامنے والے گھر کی روشن بتیاں جل تھل بارش میں مدہم سی نظر آرہی تھیں۔یہ علاقہ رہائش کے لحاظ سے مجھے کبھی پسند نہ رہا تھا ۔دور دور تک کہیں تلاش کرنے ہی سے کوئی گھر آباد ملتا تھا ۔یہاں آباد لوگ کم تعلیم یافتہ اور نئی دولت کی چمک کی وجہ سے مضحکہ خیز حد تک حواس باختہ دیکھائی دیتے تھے ۔ نہ بات کرنے کی تمیز اور نہ ہی رہنے سہنے کا کوئی سلیقہ نظر آتا تھا ۔بہرحال اس مہنگائی کے دور میں ہمارا اپنا مکان بن گیا تھا ،یہی بڑی بات تھی ۔کسی گاڑی کے ہارن کی آواز سے میں اپنے خیالات میں ڈوبی ہوئی سی ایک دم چونک گئی۔سامنے والے گھر کے ہاں یہ روزانہ کا معمول تھا۔چند اوباش قسم کےلوگ رات بھر شور مچاتے رہتے ۔ان کے اونچے اور بے ہنگم قہقہے سماعتوں پر ناگوار گزرتے ۔بارش سے اپنے آپ کو بچاتے کچھ لوگ منیر صاحب کے گھر جلدی جلدی گھسنے کی کوشش کر رہے تھے۔یہ یقیناً سامنے والے منیر صاحب کے دوست تھے جو سرِشام ہی ان کی بیٹھک میں براجمان ہوجاتے۔منیر صاحب کے گھر میں ان کی بیگم آدھ درجن بچوں کے ساتھ موجود تھیں۔لیکن حالت یہ تھی کہ جب بھی میں کالج جانے کےلیے گھر سے گیٹ سے نکلتی تو یہ کسی آس پاس کی گلی میں موجود کوئی بیہودہ سا فلمی گیت گنگنا رہے ہوتے۔
اس شام نجانے کیوںمیرا دل بری طرح گھبرا رہا تھا ۔ہر قسم کا پریشان کن خیال مجھے گھیرے ہوئے تھا ۔بارش کے شور کو چیرتے ہوئے منیر صاحب کے دوستوں کا غل غپاڑہ مجھے ہولائے جارہاتھا۔ایسے لگ رہا تھا کی جیسے منیر صاحب اور ان کے دوست میرے بے بسی پر ہنس رہے ہوں۔جیسے کہ ان سب کو پتہ ہو کہ میں اپنے بیمار اور مفلوج باپ کے ساتھ گھر میں اکیلی ہوں۔خوف ایک پریشان خیال دماغ میں عفریت بن جاتا ہے ۔بہادر بننے کے لیے سب سے پہلے اپنے اندر کے خوف سے لڑنا پڑتا ہے ۔بہرحال یہ سب زرین اقوال ان لمحات میں میرے دماغ میں کہیں سے بھی اتر نہیں رہے تھے ۔ سردی کے باوجود میں وہیں کھڑکی کے پاس کھڑی پسینے میں نہا گئی۔کانپتے ہاتھوں سے میں نے جلدی جلدی سب دروازوں اور کھڑکیوں کی کنڈیوں کو چیک کرنا شروع کیا۔اسی دوران اچانک ہی ایک خیال کے آنے سے گویا میری ٹانگوں سے جان ہی نکل گئی۔میں نڈھال سی ہو کر قریب پڑی کرسی پر ڈھیر ہو گئی۔میں سوچ رہی تھی کہ ضرور اشعر بھائی اور امی نے چکوال جاتے وقت منیر صاحب کی بیگم یا پھر خود منیر صاحب کو بتایا ہو گا کہ و ہ ایک روز کے لیے چکوال جا رہے ہیں،اور پیچھے سے میر ا خیال رکھنے کی تاکید بھی کر گئے ہوں۔اف خدایا۔۔۔۔۔میں کیا کروں ؟ کس کو مدد کےلیےپکاروں؟ یہ امی کی خالہ کو بھی آج ہی مرنا تھا ۔اور اگر مرنا ہی تھا تو کیا یہ ضروری تھا کہ اشعر بھا ئی بھی امی کے ساتھ چلے جاتے ۔ہاں ان کا جانا ضروری تھا کیونکہ ہمارے گاؤں کا برادری سسٹم اشعر بھائی کی غیر حاضری کو کبھی معاف نہیں کرتا ۔

باہر بلی کی میاؤں میا ؤں پھر سے شروع ہو گئی تھی ۔وہیں بیٹھے ہوئےمیرے من جانے کیا خیال آیا کہ میں نے باورچی خانے کا دروازہ جو پچھلے صحن میں کھلتا تھا ،کھول کر ذرا سا جھانکا ۔بلی ایک
کو نے میں سکڑی سمٹی بیٹھی تھی ۔میں نے اسے پچکارا تو وہ لنگڑاتی ہوئی اندر آگئی ۔دروازہ بند کر لینے کے بعد میں نے بلی کے لیے ایک کٹوری میں دودھ ڈال دیا۔ کچھ دیر ہی میں اس نے سارا دودھ پی لیا ۔میں نے اس کی زخمی ٹانگ کی مرہم پٹی بھی کر دی ۔بلی کی نگا ہوں میں میرے لیے انتہائی ممنونیت تھی ۔اب میں گھر میں جدھر بھی جاتی وہ میرے پیچھے پیچھے گھومنے لگی تھی ۔

شام رات میں ڈھلنے لگی تھی ۔بارش پورے زور و شور سے جاری تھی ۔بیڈروم سے ابو جی کے کراہنے کی آوازیں پھر سے آنے لگیں۔میں گھبرا کر ان کے پاس پہنچی اور گھبرا کر ان کے ماتھے پر ہاتھ رکھا ۔وہ بخار سے تپ رہے تھے اور ساتھ ہی اکبر بھا ئی کا نام پکار رہے تھے۔

" جی ابو جی مجھ سے بات کر یں ۔ ہم نے اکبر بھائی کو آپ کی بیماری کی اطلاع دے دی ہے۔وہ جلدی ہی آپ کے پاس پہنچ جائیں گے ۔‘‘

میں ہذیانی انداز میں بولے جارہی تھی۔اچانک مانو کی میاؤں مجھے ہوش کی دنیا میں واپس لے آئی۔میں نے جلدی سے ابو جی کا بلڈ پریشر چیک کیا ۔اف خدایا ! ان کا تو بلڈ پریشر بھی بڑھا ہوا تھا۔میں نے الماری سے بلڈ پریشر کی دوائی کی تلاش شروع کر دی ۔بوتل کو کھولا تو خالی پڑی ہوئی تھی ۔ لگتا تھا کہ آج ہی دنیا کی ساری مصیبتں نازل ہونی تھیں۔اب کیا ہو گا ؟اس وقت اگر ابو جی کی طبیعت ذیادہ خراب ہو گئی تو میں کیا کر وں گی ؟ میرے حواس ناگہانی حالات میں کبھی قائم نہ رہتے تھے۔مجھے اشعر بھائی پر شدید غصہ آرہا تھا ۔ انہیں جانے سے پہلے ابوجی کی تمام دوائیوں کو چیک کر کے جانا چاہیے تھا ۔ایک دم بجلی زور سے کڑکی ۔ میرا دل دہشت سے ڈول گیا ۔ابو جی کی طبیعت کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی ۔ مجھے اپنے فیملی ڈاکٹر کا خیال آیا ۔میں نے چونک کر ٹیلی فون کی طرف دیکھا۔اسی لمحے ٹیلی فون کی گھنٹی چیخ اٹھی ۔میں نے کانپتے ہاتھوں سے ریسور اٹھایا ۔
ہیلو !!ہیلو۔۔؟

آگے سے مکمل خاموشی تھی ۔میں نے دھڑ سے رسیور کریڈل پر دے مارا۔ اب تو میرے برداشت کی حد ہی ہو گئی تھی ۔وہیں زمین پر بیٹھ کر رونے لگی ۔مانو میرے پاؤں چاٹنے لگی ۔وہ اچھل کر میری گود میں آبیٹھی اور میں اسے سہلاتے ہو ئے سسکیاں بھر رہی تھی ۔اتنے میں وہ چھلانگ لگا گھر کے مرکزی دروازے کے پاس جا کر میاؤں میاؤں کرنے لگی ۔تب مجھے سمجھ آئی کہ باہر کو ئی صحن کا مین گیٹ پیٹ رہا ہے ۔ شاید بارش کی وجہ سے گھر کی بیل خراب ہو چکی تھی ۔ میں نے دل ہی دل میں خدا سے گڑگڑا کر دعائیں مانگنا شروع کر دیں۔ مجھے لگا کہ کو ئی میر ا نام لے کر زور زور سے پکار رہاہے ۔شاید میرے کان بج رہے تھے ۔
’’نہیں!!! نہیں!! کچھ بھی ہو جا ئے میں دروازہ نہیں کھولوں گی۔‘‘میں نے دھل کر اپنے آپ سے پکا عہد لیا ۔
دروازے پر ہونے والی دستک کی ٹھک ٹھک میرے وجود کو روئی کی طرح دھنک رہی تھی ۔میرا نام پکارنے والے کی آواز بارش اور ہوا کی آوازوں کے ساتھ مل کر عجیب آسیب ذدگی کی سی کیفیت پیدا کر رہی تھی ۔مجھ میں اپنی جگہ سے اٹھنے کی ہمت ناپید ہو چکی تھی ۔میرا سارا وجود دہشت کے مارے بے جان ہوا جارہا تھا۔لیکن میرے کان آوازوں کو پوری طرح سن رہے تھے ۔ اب دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز بند ہو چکی تھی ۔تھوڑی دیر کے بعد صحن میں کسی کے چھلانگ لگانے اور پھر دہپ سے گرنے کی آواز آئی۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں ۔ میں نے کمرے کے دروازے پر نگاہ ڈالی اور سن ہوکر رہ گئی ۔ دروازے کی کنڈی کھلی تھی ۔ میں نے اپنے جسم کی ساری طاقت مجتمع کرنے کی کوشش کی کہ اٹھ کر دروازے کی کنڈی بند کر دوں ۔ لیکن ابھی میں اٹھنے کی کوشش میں ہی تھی ایک شخص تیزی سے کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔

اف میرے خدایا !!یہ تو اکبر بھا ئی تھے ۔ میں بے ساختہ ان سے لپٹ کر رونے لگی ۔یہ سوچے بغیر کہ وہ اتنی دور کا سفر کر کے آرہے تھے۔وہ مجھے شفقت بھری تسلیا ں دینے لگے اور ساتھ ساتھ ابو جی کا ہاتھ پکڑ کر ان کی نبض ٹٹولنے لگے۔اس کے بعد میرے ارد گرد کیا ہوا میں اس پر کچھ ذیادہ توجہ دینے کے قابل کہاں تھی ۔اکبر بھائی نے سب کچھ سنھبال لیا تھا ۔ بھائی واقعی میں بہنوں کے سائبان ہوتے ہیں ۔ میں نم آلود آنکھوں سے اکبر بھائی کو دیکھ رہی تھی اور مانو بار بار میرے قدموں میں خوشی سے لوٹ پوٹ ہوجارہی تھی ۔اس شام کی دہشت اور بارش نے مجھے بہت کچھ سکھا دیا تھا ۔زندگی کی دوڑ میں صبر برداشت اور ہمت کا دامن کبھی بھی چھوڑنا نہیں چاہیے ۔ اور بعض اوقات چھوٹی سی نیکی بھی آپ کا دشوار راستہ آسان کر دیتی ہے ۔

Atiya Adil
About the Author: Atiya Adil Read More Articles by Atiya Adil: 19 Articles with 23934 views Pursing just a passion of reading and writing ... View More