خلیفہ ثالث :شہید حضرت عثمان غنیؓ ذوالنورین

آپؓ کا اسمِ گرامی عثمان ،کنیت ابوعبداﷲ اورابوعمرو،لقب ذوالنورین(دونوروں والا)ہے۔والد کا نام عفّان اور والدہ کا نام ارویٰ تھا۔والد کی طرف سے آپ کا نسب نامہ یوں ہے: عثمان بن عفّان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد مناف؛ گویا آپؓ کا شجرہ پانچویں پشت میں حضور ؑ سے جا ملتا ہے۔والدہ کی طرف سے سلسلہ نسب یوں ہے:ارویٰ بنت کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبد شمس بن عبد مناف؛یعنی ماں کی طرف سے بھی آپ ؓکا سلسلہ نسب پانچویں پشت پر حضورؑ کے جدِامجد عبدِمناف سے جاملتاہے۔آپؓ کی نانی امِ حکیم البیضاء آپ ﷺ کے دادا جناب عبدالمطلب کی صاحبزادی اور آپ ﷺ کے والد جناب عبداﷲ کی سگی بہن تھیں۔اور ایک روایت کے مطابق جڑواں بہن تھیں۔اس طرح آپؓ حضورؑ کی سگی پھوپھی کے نواسے تھے اور سیدنا علیؓ سے بھی آپؓ کا یہی رشتہ تھا۔

آپ ؓ واقعہ فیل کے چھ سال بعد پیداہوئے۔آپؓ کا خاندان عہدِ جاہلیت میں بھی غیرمعمولی اقتدار کا حامل تھا۔آپؓ کے جد امیہ بن عبدِ شمس (جن کی وجہ سے آپؓ کو اموی کہاجاتا ہے) قریش کے رؤسا میں سے تھے۔عقاب جو قریش کا عَلَم تھا،وہ بھی اسی خاندان کے پاس تھا۔حرب بن امیہ ، عقبہ بن معیط، سیدنا ابوسفیانؓ اور سیدناؓ امیر معاویہؓ :سب اسی اموی خاندان سے تھے۔قریش کی سپہ سالاری کا منصب جو پہلے بنومخزوم میں تھا،عبدِ شمس کے زمانہ میں یہ منصب بنوامیّہ میں منتقل ہوگیا۔حرب بن امیّہ کی موت کے بعد جناب ابوسفیان اس منصب پر فائز ہوئے اور اپنے مسلمان ہونے تک قریش کی سپہ سالاری انہی کے ہاتھ میں رہی۔

آپ ﷺ کے نبوت کے اعلان کے وقت آپؓ کی عمر ۳۴ برس تھی۔آپؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دوست تھے اور یہی دوستی آپؓ کو اسلام کے در پر لے آئی اور آپؓ نے حضورؑ کے دستِ مبارک پر اسلام قبال کرلیا۔اسلام قبول کرنے کے بعد آپؓ کو وہ فضیلت حاصل ہوئی جو دینِ حنیف کی تاریخ میں کسی اور کو حاصل نہیں ہوئی یعنی آپؓ کے نکاح میں یکے بعد دیگرے حضورؑ کی دوصاحبزادیاں سیدہ رقیہؓ اور سیدہ امِ کلثوم ؓ آئیں۔آپؓ کے علاوہ کوئی شخص ایسا نہیں گزرا جس کے عقد میں یکے بعد دیگرے نبی کی دو بیٹیاں آئی ہوں۔اسی لیے آپؓ کو ذوالنورین(دو نوروں والا) کہا جاتا ہے۔آپؓ نے اپنے چچا اور دوسرے عزیز واقارب کی سردمہری اور تشدد سے تنگ آکر رسول اﷲ ﷺ کے حکم پر سیدہ رقیہ ؓ کے ساتھ ملکِ حبشہ کی جانب دس مردوں اور پانچ عورتوں کی معیت میں ہجرت فرمائی۔

اس ہجرت کے بارے میں حضورؑ نے فرمایا کہ سیدنا ابراہیم ؑ اور سیدنا لوطؑ کے بعد عثمانؓ پہلے فرد ہیں جنھوں نے اپنی بیوی کے ساتھ اﷲ کی راہ میں ہجرت فرمائی۔ مدینہ میں میٹھے پانی کا ایک کنواں’بئر رومہ‘ تھا جو ایک یہودی کی ملکیت تھا ۔وہ پانی کے دام وصول کرتا۔مسلمان غریب تھے اور ان کے لیے قیمت ادا کرنا مشکل تھا۔آپ ﷺ اکثر مغموم رہتے۔آپ ؓ نے جنت کی بشارت پر پہلے آدھا اور پھر باقی کا آدھا کنواں بھی خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا۔اس دور میں آپؓ نے ۲۴ ہزار درہم ادا کیے۔سیدنا عثمانؓ کا یہ صدقہ جاریہ آج بھی مدینہ میں جاری ہے جس کے لیے حضورﷺ نے سیدنا عثمان ؓ کو جنت کی بشارت دی تھی۔آپؓ حضورؐ کے وہ سفیر تھے جن کی شہادت کی خبر سن کر ان کا بدلہ لینے کے لیے حضورؐ نے صحابہ سے جہاد کی بیعت لی جسے بیعتِ رضوان کہتے ہیں۔آپؓ بڑے فخرسے بیان کرتے کہ میری جانب سے رسول اﷲ ﷺ کا بایاں ہاتھ میرے دائیں ہاتھ سے کہیں بہتر تھا۔

خلیفہ دوم حضرت عمرِ فاروقؓ کی بنائی گئی چھ رکنی کونسل جس میں سیدنا عثمانؓ،سیدناعلیؓ،سیدناطلحہ بن زبیرؓ،سیدناسعد بن ابی وقاص ؓ،سیدنا زبیر بن العوامؓ ، سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ شامل تھے؛نے سیدنا عثمان ؓ کو خلیفہ مقرر کیاجس کے بعد بیعتِ عام ہوئی۔اس وقت آپؓ کی عمر ستر برس تھی۔فتوحات کے لیے آپؓ کا عہد منفرد ہے۔آپؓ نے خلیفہ دوم کی چھوڑی ہوئی سلطنت کو مزید وسیع کیا۔آپؓ کے عہد ِ خلافت میں فارس،آزربائیجان،آرمینیہ،رے،اندلس،اسکندریہ،افریقہ کے کئی علاقے،قبرص،خراسان،طبرستان،بلخ،کرمان،سجستان،کابل،زابل،دیبل ،جرزان اور نہاوند فتح ہوئے۔کسریٰ اور قیصر آپؓ کے دور میں ہلاک ہوئے۔

آپؓ نے بارہ برس خلافتِ راشدہ کو کامیابی سے چلایا لیکن پھر سازشوں کا دور شروع ہوا۔آپؓ نے ان بارہ برس میں مملکت کے طول و عرض کو خوشحال کردیا۔فتوحات کی وسعت ، مالِ غنیمت کی فراوانی ، وظائف کی زیادتی ، تجارت اورزراعت کی ترقی ، حکومت کے عمدہ نظم ونسق نے ملک میں فارغ البالی ، تمول اور عیش وتنعم کو عام کردیا۔یہودی اور قیصر وکسریٰ کے بچے کھچے عناصر نے سازشوں کا جال بڑی کامیابی سے بنا۔آپؓ کی نرم مزاجی،حلیم طبعی اور دھیمے مزاج نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔عبداﷲ بن سبا نے اس فتنے کی ابتدا بصرہ سے کی اور پھر کوفہ میں یہ فتنہ داخل ہوگیا۔آپؓ نے گورنروں کی مجلسِ مشاورت کا انعقاد کیا۔سیدنا سعید بن العاص نے مشورہ دیا کہ فتنوں اور فتنہ اٹھانے والوں کاسرکچل دیا جائے (اور ان کا راستہ درست تھا،اگر ایساکرلیاجاتا تو سانپ کا سراٹھانے سے پہلے ہی کچل دیا جاتا)لیکن آپؓ نے سب کو سننے کے بعد صلح رحمی پر بات کا خاتمہ کردیا۔

آپؓ کے نرم رویہ نے سازشیوں کو کوفہ اور بصرہ کے علاوہ مصر میں بھی شرپھیلانے کا موقع دے دیا۔وہ زہر پھیلانے کے بعد مدینہ کی طرف بڑھے اور خاموشی سے اس کا محاصرہ کرلیا۔کبار صحابہ،امہات المومنین اور حضرت علیؓ نے اپنااپنا کردارادا کرنے کی کوشش کی لیکن فتنہ گرکسی کی ماننے کو تیار نہ تھے۔امیرالمومنین کو انچاس روز تک قصرِ خلافت میں محصور کردیا گیا کہ خلافت چھوڑ دیں لیکن آپؓ نے انکار کردیا کہ میں نے خلافت طاقت کے ذریعے حاصل نہیں کی اور خلافت کی خلعت مجھے حضورؑ نے پہنائی ہے۔آپؓ کا اس مسجد نبوی میں جانا اور امامت کروانا بندکردیاگیا جس کی توسیع بھی آپؓ نے کروائی تھی۔پانی بند کیا گیا،اس کنویں کا پانی جو آپؓ نے سب کے لیے خرید کروقف کیاتھا۔آپؓ کے ملنے جلنے پر پابندی لگا دی گئی۔آپؓ باغیوں کے سامنے آئے اور ان سے مخاطب ہوئے؛سنو لوگو تم مجھے قتل کرناچاہتے ہو جب کہ اﷲ نے مجھے دس فضیلتوں سے نوازا ہے:اسلام لانے میں میرا چوتھا نمبر ہے۔رسول اﷲ ﷺ نے اپنی صاحبزادی میرے حبالہ عقد میں دی۔اور ان کی وفات پر دوسری صاحبزادی کا مجھ سے نکاح کردیا۔میں نہ زمانہ جاہلیت میں بدکاری کے قریب گیا اور نہ ہی اسلام لانے کے بعد۔میں نے کبھی چوری نہیں کی۔میں نے کبھی گانا نہیں گایا اور نہ سنا۔میں نے اسلام لانے کے بعد سے اب تک کبھی برائی کی خواہش نہیں کی۔جب سے میں نے اپنے دائیں ہاتھ سے رسول ﷺ کی بیعت کی ہے،کبھی اس ہاتھ سے اپنی شرم گاہ کو نہیں چھوا۔میں نے عہد نبوی کے جمع شدہ قرآن کے نسخہ کی نقول تیارکرواکرمملکت کے مختلف گوشوں میں بھیجا۔اور جب سے اسلام لایا ہوں ،ہر جمعہ ایک غلام آزاد کرتا ہوں۔

لیکن کم بخت سبائی آپؓ کی شہادت سے کم پر تیار نہ تھے۔آپؓ کا محاصرہ سخت کردیا گیا۔کئی روز تک بغیر کھائے پیئے روزہ رکھتے اور افطار کرتے۔آپؓ تلاوت فرمارہے تھے کہ سبائیوں نے عقبی دیوار توڑ دی۔کنانہ بن بشر ، محمد بن ابی بکر، سودان بن حمران ، عمرو بن الحمق،غافقی بن حرب ان کے سردار تھے۔غافقی کم بخت نے قرآن کو پاؤں کی ٹھوکر ماری۔کنانہ نے لوہے کی لٹھ ماری۔خون کا فوارہ قرآن اور تاریخ کو سرخ کرگیا۔عمرو بن الحمق نے دامادِرسولؐ ،پیکرِ حلم وحیا اور جامع القرآن کو شہید کردیا۔یہ ۱۸ ذی الحجہ ۳۵ ہجری بروز جمعہ عصر کے بعد کا وقت تھا۔ہفتہ کی رات اس مظلوم شہید خلیفہ کا جسد خاکی جنت البقیع کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔

آپؓ کو کتابتِ قرآن کے ساتھ ساتھ قراتِ قرآن سے بھی خاص شغف تھا۔حدیثِ رسولؐ کا شوق بھی آپؓ کے رگ وریشے میں پیوست تھا۔آپؓ کی روایت کردہ حدیث کی کل تعداد ۱۴۶ ہے۔آپؓ قرآن اور حدیث کے عالم ہونے کے ساتھ ساتھ مجتہدانہ شان کے بھی حامل تھے۔آپؓ علمِ وراثت اور علم المناسک کے بھی ماہر تھے۔آپؓ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔خوفِ خدا،محبتِ رسولﷺ ، شرم وحیا،تواضع وخاکساری،ایثار،دیانت داری اور امانت،صبروتحمل،زہدوتقویٰ،جودوسخااورصلہ رحمی آپؓ کی زندگی کا لازمہ تھے۔حضرت عثمانؓ کی دوصفات پر سب متفق ہیں:حسن وجمال اور حیا۔رسولﷺ نے فرمایا کہ آسمان کے فرشتے بھی عثمانؓ سے حیا کرتے ہیں۔آپؓ نے زندگی کے مختلف ادوار میں آٹھ شادیاں کیں ،جن سے آپؓ کے نوبیٹے اور سات بیٹیاں ہوئیں۔پانچ بیٹے اپنی صفات اور علم و فضل کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ان میں عبداﷲ،عمرو،ابان،عمر اور سعید شامل ہیں۔

حضرت شاہ ولی اﷲ کے مطابق سیدنا عثمان ؓ کی شہادت سے دنیا سے خلافت راشدہ خاصہ کا قیامت تک کے لیے خاتمہ ہوگیاجو امت مسلمہ کے لیے نقصانِ عظیم ہے۔آپؓ کی شہادت سے دوسرا نقصان یہ ہوا کہ یہ تقسیم ہوگئی۔قیامت تک اس میں جنگ وجدل،فرقہ پرستی،سب وشتم کا سلسلہ جاری ہوگیا جو رکتا نظر نہیں آتا۔سیدنا عبداﷲ بن سلامؓ نے فرمایا تھا کہ ربِ کعبہ کی قسم عثمانؓ کی شہادت کی وجہ سے بہت سے لوگ جو ابھی اپنے آباواجداد کی پشتوں میں ہیں اور بہت بعد میں پیداہوں گے،ضرور قتل ہوں گے۔ان کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف درست ثابت ہوچکی۔آپؓ نے مزید فرمایا تھا کہ اگر عثمانؓ کو قتل کردوگے تو فتنوں کے در ہمیشہ کے لیے کھول لو گے جو قیامت تک بند نہیں ہوں گے۔تیسرانقصان یہ ہواکہ خلافتِ اسلامیہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مدینہ سے چلی گئی۔چوتھا نقصان یہ ہوا کہ بہ قول امام محمد بن سیرین سیدنا عثمان ؓ کی شہادت کے بعد فرشتوں نے اسلامی جنگوں میں مسلمانوں کی مدد کرناچھوڑدی۔
 

abdul karim
About the Author: abdul karim Read More Articles by abdul karim: 34 Articles with 51453 views i am a man of some rules and regulations.i like maturity in the behavious of persons and in nations.i do not believe in strictness of thoughts but i b.. View More