آج دل بہت پریشان ہے


دل نے سینے میں تڑپ کر انہیں جب یاد کیا
در و دیوار کو آمادہ فریاد کیا
پردہ شوق سے اک برق تڑپ کر نکلی
یاد کرنے کی طرح سے جب انہیں یاد کیا

تم یاد رہے مجھے عمر بھر کیوں یاد رہے ، مجھے یاد نہیں تم بھولے تو سب بھول گئے کیوں بھول گئے، تمہیں یاد نہیں

یادیں بھی کچھ عجیب چیز ہوتی ہیں ، جو پرانی ہوتی ہیں وہی یادیں کہلاتی ہیں۔ کیوں کہ نئی تو کوئی یاد نہیں ہوتی۔ لیکن یاد پھر بھی کیا عجیب چیزہے۔ ہنساتی ہے، رلاتی ہے، تڑپاتی ہے۔ کبھی کبھی مر جانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ کچھ یادیں اندر ہوتی ہیں۔ جب باہر آتی ہیں ، کچھ نہ کچھ تباہی ضرور چھوڑ جاتی ہیں۔ ان یادوں کی نفسیات بھی کچھ عجیب ہے۔ آپ بچپن کے کسی خوشی کے لمحے کو یادکریں تو رونا آجاتا ہے اور کسی رونے کے لمحے کو یاد کریں تو ہنسی آجاتی ہے۔ مطلب کہ انسان کے موجودہ حالت کو الٹ پلٹ کے رکھ دینا یاد کا کام ہے۔ اگر سوچا جائے تو یاد حال پر چھا جاتی ہے اور اگر حال میں گم ہوں تو یاد ماضی میں ڈوب جاتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں، آنسو ، آنکھوں کو خوبصورت بناتے ہیں، درد دل کو قیمتی بناتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یاد ہی حال کو خوبصورت اور یاد ہی حال کو دردناک بناتی ہے۔ یاد ، یاد ہی ہوتی ہے۔ اچھی بڑی نہیں ہوتی، بس یاد ہوتی ہے۔ وہ حالات جس میں آپ اسے یاد کرتے ہیں اسے اچھا یا بُرا بناتے ہیں۔ مزید یہ کہ ایک ہی یاد کسی کے لئے ہنسی کا سبب بنتی ہے اور کسی کے لئے رو نے کا۔ کسی نے کہا ہے کہ: ۔

تم یاد رہے مجھے عمر بھر
کیوں یاد رہے ، مجھے یاد نہیں
تم بھولے تو سب بھول گئے
کیوں بھول گئے، تمہیں یاد نہیں

کچھ یادیں انسان کے روٹین کا حصہ بن جاتی ہیں اور اسے ان کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ مگر کچھ یادیں اچانک آتی ہیں اور تند و تیز آندھی کی طرح سب کچھ اپنے ساتھ اڑا لے جاتی ہیں۔ دوست کی یاد بہت رلاتی ہے۔ رقیب کی یاد بہت جلاتی ہے اور محبوب کی یاد بہت ترپاتی ہے۔ اگر یہ تینوں یادیں اکٹھی ہی یاد آئیں تو انسان اپنے اندر مرجاتا ہے ۔ بظاہر زندہ رہتا ہے لیکن ایک لاش کی طرح۔ کچھ یادیں کسی چیز، واقعے، موقع ، شخص یا وقت کے ساتھ نتھی ہوتی ہیں۔ اور کچھ وقت بے وقت آجاتی ہیں۔ کچھ یادیں ، یاد کی جاتی ہیں اور کچھ یادیں ، یاد دلا دیتیں ہیں۔ کچھ یادیں فریاد کرتی ہیں اور کچھ یادیں انسان کو حال سے آزاد۔ جگر مرادآبادی نے کہا تھا کہ

دل نے سینے میں تڑپ کر انہیں جب یاد کیا
در و دیوار کو آمادہ فریاد کیا
پردہ شوق سے اک برق تڑپ کر نکلی
یاد کرنے کی طرح سے جب انہیں یاد کیا

لوگ کہتے ہیں کہ بھول جانا ایک اچھی بات ہے ، ورنہ انسان کا ماضی اسے زندہ نہ رہنے دے۔ لیکن یہ بھی دیکھیں کہ خدا نے بھول جانے کے ساتھ انسان کو یاد کرنے کی صفت بھی دے دی۔ کہ بھولو پھر یاد کرو ۔ بھولو پھر یاد کرو ۔ بھولو پھر یاد کرو۔ لہذا بھولنا انسان کے لئے مفید نہیں اور نہ ہی یاد کرنا نقصان دہ۔ اگریہ دونوں ایک دوسرے کی جگہ بدلتی رہیں۔ اگر مسلسل بھولتے گئے اور یاد نہ کیا تو بھی جینا دشوار۔ اگر مسلسل یاد کیا اور بھولے نہ تو بھی جینا مشکل۔ جو یادیں ، یاد رکھی جاتیں ہیں تو ان کو یاد کرنے کے بھی کچھ طریقے اور کچھ آداب ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ یاد کو تنہائی میں محسوس کرتے ہیں۔ کچھ لوگ دیا جلاتے ہیں ، جام سجاتے ہیں ، محفل لگاتے ہیں اور پھر یاد کرتے ہیں۔ محفل لگا کر یاد کرنے کا اپنا ہی مزا ہوتا ہے ۔ لوگ موجود ہوتے ہیں اور محسوس کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ یاد کتنی مدت کے بعد اور شدت سے آپ کو یاد آئی۔ لوگوں کا اور یادوں کا بھی ایک تعلق ہے۔ کسی نے لکھا تھا کہ میں نے تمہاری یاد کو شہر کے گلی کوچوں میں تقسیم کر دیا ہے تاکہ آنے جانے والے لوگوں کی دھول میں یہ دھندھلا جائے۔ لیکن یادیں کب دھندھلاتی ہیں۔ ان پر جتنی بھی دھول جمع ہو پھر بھی وہ ختم نہیں ہوتیں۔ اور جب یاد آتی ہیں تو وہ دھول اور تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اس لئے یادوں کو دھول میں نہیں دبانا چاہئے ، ان کو یاد کرنا چاہئے۔ یاد کرو ، بھلادو ، یاد کرو ، بھلادو۔ یاد کرو ، بھلا دو۔ اس عمل میں جتنا لطف ہے اتنا ہی یہ اس یاد کی شدت کو کم کرنے میں مفید ہے۔ غلطیوں سے سبق سیکھنا ایک محاورہ ہے اور اکثر استعمال ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ انسان غلطیوں سے نہیں یادوں سے سبق سیکھتا ہے۔ غلطی جب حال میں ہوتی ہے تو وہ کبھی بھی غلطی نہیں لگتی۔ اسے کو ئی بھی دوسرا نام دے دیا جاتا ہے ۔ جس میں مصلحت کا لفظ سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ جب وہ مصلحت ماضی کا حصہ بنتی ہے اور پھر یاد آتی ہے تو وہ مصلحت نہیں بلکہ غلطی کا احساس دلاتی ہے، جس سے انسان سبق سیکھتا ہے۔ اس لئے انسان کو مصلحتوں کو بھول جانا چاہئے تاکہ جب وہ یاد آئیں تو غلطیوں کا احساس ہو۔ جب حال ماضی میں بدل جاتا ہے تو انسان کے پاس کچھ نہیں رہتا ۔ اس وقت اس کا سب سے بڑا سرما یہ اس کی یادیں ہوتی ہیں۔ یاد یں علم کی طرح ایک ایسا سرمایہ ہیں جو انسان کا ذاتی اثاثہ ہوتی ہیں۔ اسے کو ئی نہیں چھین سکتا ، کوئی بھی نہیں، سب سے بے رحم طاقت ‘وقت’ بھی نہیں۔ یادیں عمر کا حاصل ہوتی ہیں اور تنہائیوں کی محفلیں سجانے کا سامان۔ تنہائی اور یاد کا تعلق بھی عجیب ہے۔ تنہائی یادوں کا سبب بنتی ہے اور یادیں انسان کو مزید تنہا کر دیتی ہیں۔تنہائی میں تنہا ہو جانے کا احساس ایسا ہے کہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے کہ اس وقت الفاظ بھی آپ کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ زبان گنگ ہوجاتی ہے۔ آپ اپنے ساتھ اکیلے ہوتے ہیں اور سوچیں بھی یادوں کی سرحد میں داخل نہیں ہو سکتیں۔ سوچ اور یاد میں بہت ہی معمولی فرق ہے۔ سوچ اور یاد کی سرزمین ایک ہے، بس درمیان میں ایک باریک لکیر لگا دی گئی ہے۔ آپ سوچ کی سرزمین پہ ہیں یا یاد کی اس کا پتا ایسے لگتا ہے کہ یاد کی سرزمین کی فصل ماضی ہے اور سوچ کی سرزمین کی فصل حال۔ آپ جو فصل کاٹنا چاہیں ، آپ کو اس کی سرزمین پر جانا پڑے گا۔ میں نے پہلے لکھا تھا کہ یاد مثبت یا منفی نہیں ہوتی ، یہ وہ حالات جن میں آپ کو یاد آتی ، اسے مثبت یا منفی بناتے ہیں۔ مگر سوچ مثبت یا منفی ہو سکتی ہے، اور یہی حالات کو مثبت یا منفی راہ پر ڈال دیتی ہے۔ جب سوچ حالات کو مثبت یا منفی راہ پر ڈال دیتی ہے، تب حالات آپ کی یاد کو مثبت یا منفی معنی پہناتے ہیں۔ سوچ کا ایک اختتام ہے ، مگر یاد کا کوئی اختتام نہیں۔ ہم اس دنیا سے جیسے ہی رخصت ہوتے ہیں ، سوچ کےدروازے ہم پر بند کر دئے جاتے ہیں مگر یاد کے دروازے پھر بھی کھلے رہتے ہیں۔ اور آخرت میں تمام باتیں پھر یاد کروائی جائیں گی۔ ہم جو بھول بھی گئے یا بھولنے کی اداکاری کریں گے، وہ پھر بھی یاد کروائی جائیں گی۔ اور اس دنیا میں کئے گئے کاموں کی یاد ہمیں تڑپائے گی۔ ہم اس وقت ان کو بھولنا بھی چاہیں تو نہیں بھول پائیں گے۔ تو پھر آج ان یادوں کو کیوں بھولیں۔ اپنی سوچ کو مثبت رکھیں ، وہ حالات کو مثبت رکھیں گی۔ اور مثبت حالات ہر یاد کو مثبت پہلو پہنائیں گے۔ اور یہ یادیں ہمیں تڑپانے کی بجاءے ہمیں غلطیوں کا احساس دلائیں گی۔ اور غلطی کا احساس ہی سب سے بڑی جیت ہے۔ اور یہ احساس مستقبل ترتیب دیتا ہے۔ تو اگر آپ ایک اچھا مستقبل حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس ترتیب کو اچھی طرح یاد کر لیں۔ سوچ ۔ حالات ۔ یاد ۔ احساس ۔ مستقبل۔

دعاوں کا طلبگار محمد مسعود نوٹنگھم یو کے

 

Mohammed Masood
About the Author: Mohammed Masood Read More Articles by Mohammed Masood: 61 Articles with 165466 views محمد مسعود اپنی دکھ سوکھ کی کہانی سنا رہا ہے

.. View More