قربانی کے جانور اور فلسفہ

قربانی والہ جانور ایسا پیارا خوبصورت اورتندرست ہوکہ اس کی مثال ملنا مشکل ہی نہ ہو بلکہ ناممکن ہو! یہ دیکھاوا ہے یا قربانی سے پیار اس کا فیصلہ ہم کرنے والے ہم کون ہیں ؟ یہ خالص اﷲ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔ جی ہاں ہر وہ صاحب ثروت جو قربانی دینا چاہتا ہے اس کی یہی تمنا اور خواہش ہوتی ہے کہ جانور بے عیب ۔خوبصورت اور گوشت سے ڈھکا ہوا ہو!

بحثیت مسلمان افسوس ہم نے پہلے والی تمام اُمتوں کی ’’ برائیاں ‘‘ اکھٹی کر لی ہے ( یعنی ہم تمام برائیوں میں ملوث ہیں) حالانکہ ہم جانتے کہ اﷲ پاک کی ذات نے پہلی اُمتوں کو ہلاک اورتباہ وبربادکر دیا تھا ۔ یہ اﷲ پاک کا کرم اور محسنِ انسانیت حضرت محمد ﷺ کا امت محمدیہ ؐ سے محبت ہے!

قربانی کے جانور وں کی خریت و فروخت کے لئے دنیا بھر میں ’’ منڈی مویشیاں ‘‘ سج دھج جاتیں ہیں اور قربانی کے جانوروں کو خریدو فروخت میں ایک صنعت کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے!

عید الاضی کے قریب آتے ہی قربانی کے جانور عام گھریلوں جانوروں کی نسبت ’’ موٹے تازے ہٹے کٹے گوشت سے لش پش خوبصورت ‘‘ جانور جہاں منڈی مویشی کی رونق جازبِ نظر اور پُرکشش ہوتے ہیں وہاں عام جانوروں کی نسبت 100% فیصد مہنگے ہوتے ہیں ۔ بے شک جن لوگوں کو شوق ہوتا ہے اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کا وہ صاحبِ ثروت دل کھول کر اﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ۔ اور ایسے ہی لوگوں کو اﷲ تعالیٰ مزید توفیق اور برکت دیتا ہے اور وہ ہر سال پہلے کی نسبت مہنگا جانور اﷲ کی راہ میں خریدتے اور قربان کرتے ہیں۔ جیسا میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ پہلے گزری ہوئی تمام اُمتوں کی وہ برائیاں ( جو اپنی ایک ایک برائی کی وجہ سے دنیا سے نیست و نمود ہوئیں ہیں ) ہم میں سب موجود ہے ۔!

زیادہ نفع کے لالچ میں بیوپاری حضرات نے ’’ عیدِ قربان ‘‘ کے فلسفہ کو سمجھے بغیر دنیاوی لالچ کے تحت جانوروں کو ’’ کیمیکلز اور سٹرائیڈز ‘‘ انجکشنوں کا اندھا دھند استعمال کرواتے ہیں جس سے جانور دوسرے ہم پلہ جانوروں کی نسبت گوشت پوشت کازخیرہ بن جاتا ہے اور پھر بیوپاری یعنی ٹھک حضرات لوگوں کو ہزاروں کا جانور لاکھوں میں فرخت کرتے ہیں ۔ اگر کسی بیوپاری سے لٹکتے مٹکتے گوشت والے جانور کی صحت کے متعلق پوچھا جائے تو ’’ پستہ بادام ۔ مکھن ملائی ‘‘ کھلانے کا جواب دیا جاتاہے۔ہو سکتا ہے کچھ لوگ میری بات کا یقین نہ کریں انسان اختلاف رائے کا حق رکھتا ہے اس طرح وہ لوگ بھی مجھ سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر گزارش ہے اس معاملے کو سمجھنے کے لئے صرف تین مثالیں دونگا

پہلی مثال :۔ باڈی بلڈرز کوئی بھی ہو خوبصورت جسم اور بڑے بڑے مسلز کی وجہ صرف خوراک نہیں ہوتی اور نہ ہی کھانے پینے سے ایسا ممکن ہے اکثریت ’’ کیمیکلز اور سٹرائڈز ‘‘ استعمال کرتے ہیں ۔

مثال نمبر دو ! دودھ دینے والے جانوروں کی خوراک اعلیٰ سے اعلیٰ قسم کی بھی ایک حد تک دودھ میں اضافہ کا سبب بنتی ہے۔ مگر آکسی ٹوسین کا انجکشن دودھ میں اضافہ کا 100 فیصد راز ہے

مثال نمبر تین:۔ وہ دلہن اور پہلوانوں کی طرح ہٹے کٹے سجائے گئے قربانی کے جانور تین ماہ بعد لٹکتے مٹکتے گوشت پوشت کے ساتھ نظر نہیں آئیں گئے ۔کیمیکلز اور سٹرائڈز کی بدولت ملنے والی ’’صحت و تندرستی تین سے چار ماہ میں ختم ہو جاتی ہے۔ ایک اور خاص بات تین چار ماہ دور صرف پندرہ بیس دن میں دیکھنے والی آنکھ کو فرق محسوس ہو سکتاہے۔

اکثروپیشترمیڈیا میں پڑھنے اور دیکھنے کو ملتا ہے منڈی مویشی میں جعلی دانت جعلی سینگ والہ ڈرامہ پکڑا گیا ہے۔

یہ بات ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ سچا پکا مسلمان ایسا کرنا تو دور سوچ بھی نہیں سکتا۔ برحال حکومتوں کا کام ہے اس نازک اور اہم ایشوز پر توجہ دے تاکہ یہ ناسور جڑ سے اکھڑ سکے!
عید ِ قربان کو ہم سنتِ ابراہیمی کہہ کر مناتے ہیں ! حضرت ابراہیم علیہ السلام وہ عظیم شخصیت ہے جب جوان ہوئے تو توحید کی تبلیغ کے لئے ’’ نمرود نے آگ میں ڈالنے کا فیصلہ کیا اور کہا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ’’ توحید کا پرچار ‘‘ چھوڑ دو یا زندہ جلنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ مشرکوں نے کئی دن تک لکٹریوں کو ثواب کی نیت سے اکھٹا کر کے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالہ گیا۔ سبحان اﷲ !
آسمان پر فرشتے خلیل اﷲ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اﷲ سے عشق دیکھ رہے تھے ۔ رضوان فرشتہ نے پیارے خلیل اﷲ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پھولوں کا ہار پہنایا جب آپ ؑ کو آگ میں پھیکا گیا ۔ ایک نقطہ بارش برسانے والہ جلیل القدر فرشتہ تیار ہے کہ حکم ِ خدا ملے اور میں بارش برسا کر آگ کو ٹھنڈا کروں ۔ وہ خالق مالک رازق اﷲ جن کا خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام ہے جب آگ میں ڈالے گئے تو اﷲ نے فرشتوں کو حکم نہیں دیا بلکہ آگ کو اﷲ نے حکم دیا ۔ اے آگ میرے خلیل پر گُل و گلزار اور
سلامتی والی ہو جا۔ آگ کے شعلے اتنے بھڑک رہے تھے آگ کے علاوہ کوئی چیز نظر نہیں آرہی تھی! اسی طرح پھر بڑاپے میں اولاد نرینہ ملے اور حکم خدا پر جنگل میں بیٹے اور بیوی کو اﷲ کے سپرد کر دینا ۔ اور جب بیٹا جوان ہو ، اکلوتا ہو، بڑھاپا ہو اور پھر اپنے ہاتھوں سے ’’ قربان ‘‘ کرنا ہو۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتنا ہی تصور کریں اور اﷲ پر پختہ یقین کر لیں ۔ انشااﷲ پھر ہم شیطان کے بہکاوے میں آکر دیکھاوے یا دنیاوی لالچ کے عوض اپنے ایمان پر سمجھوتہ نہیں کریں گئے۔ یااﷲ ہماری قربانیوں ، عبادات اور صدقہ خیرات کو قبول و منظور فرماکر سچا پکا مسلمان بنا آمین
 

Dr Tasawar Hussain Mirza
About the Author: Dr Tasawar Hussain Mirza Read More Articles by Dr Tasawar Hussain Mirza: 296 Articles with 312510 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.