لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے

سابقہ الیکشن میں میری طرح کے لاکھوں لوگوں نے تحریک انصاف کو اس لئے ووٹ نہیں دئیے تھے کہ عمران خان ، اس کی جماعت اور اتحادی فرشتے تھے بلکہ اس لئے دئیے تھے کہ ہم سابقہ دو حکمران جماعتوں سے اتنے تنگ آئے ہوئے تھے کہ جب ایک تیسری آپشن سامنے آئی تو ہم نے اپنا فرض سمجھ کر، ذمہ داری سمجھ کر اور حق سمجھ کر اپنے ووٹ تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈال دئیے ۔ یقیناً اس میں سبز باغوں ، وعدوں اور دعووں کا بھی کماحقہ ’’ہاتھ‘‘ تھا کہ ہم یہ سمجھ بیٹھے کہ عمران خان جو وعدے کررہے ہیں وہ پورے ہوں گے، ہم لوگوں نے ایک آخری چانس لیا تھا، ہم جانتے تھے کہ ہم غلطی پر بھی ہوسکتے ہیں لیکن اس کے علاوہ ہمارے پاس اس وقت کوئی چارہ نہیں تھا چنانچہ مجھ سمیت لاکھوں لوگوں نے نہ صرف خود ووٹ دئیے بلکہ دوست احباب کو بھی آمادہ کیا کہ آخری چانس کے طور پر ایک بار ان دو جماعتوں کے علاوہ کسی تیسری طاقت کا راستہ ہموار کیا جائے کیونکہ ہ میں غالب امکان نظر آرہا تھا کہ ملک کی جتنی تباہی ہوچکی اس سے زیادہ شائد ہی کوئی کرسکے، یہاں بھی غلطی کا امکان بہرحال موجود تھا لیکن ہم نے چانس لینا زیادہ بہتر خیال کیا ۔

الیکشن کے بعد حکومت بن گئی، عددی اکثریت کس طرح پوری ہوئی یہ ہم سب جانتے ہیں ، کس طرح کے اتحادی ساتھ شامل کرنا پڑے، یہ بھی ہمارے سامنے ہے، حتیٰ کہ قاف لیگ اور ایم کیو ایم کے شامل ہونے کے بعد تو اس ضمن کوئی بات جچتی ہی نہیں ، ہم نے سمجھا کہ ظاہر ہے اگر حکومت بنانی اور چلانی ہے تو اس طرح کے کمپرومائزز کرنے پڑیں گے، تحریک انصاف کو ووٹ دینے والے عوام کی اکثریت نے طوہاً و کرہاً دونوں جماعتوں سمیت باقی اتحادیوں کی حکومت میں شمولیت کو برداشت بھی کرلیا لیکن پھر بھی یہ امید تھی کہ وزارت عظمیٰ پر چونکہ عمران خان موجود ہے اس لئے کچھ زیادہ نقصان نہیں ہوگا ۔

لیکن ہوا کیا، سابقہ ادوار کی غلطیوں کا ایکشن ری پلے، ہر معاملہ میں مزید کمپرومائزز، مزید یوٹرن، اپنے دعووں اور وعدوں کے برعکس ہر وہ کام کیا گیا جس کا نقصان پاکستان اور اس کے عوام کو ہوا، ہر ڈیپارٹمنٹ، ہر وزارت، ہر ہر شعبہ ہائے زندگی میں ایسے رتنوں کو چنا گیا جنہوں نے شائد جان بوجھ کر یا وہ اس قابل ہی نہیں تھے، گند ہی گند ڈالا ۔ عدلیہ کے ساتھ معاملات ہوں ، ڈاکٹروں کا مسئلہ ہو، آٹے و دیگر اشیائے ضروریہ کی بات ہو، پانی و بجلی کا مسئلہ ہو، اسلام آباد میں ہندو مندر کی تعمیر کا معاملہ ہو (اس پر کسی اور کالم میں بحث ہوگی کہ کیا کسی اسلامی ملک میں حکومت بیت المال سے نئے مندر تعمیر کرنے کا حق رکھتی ہے?)اور تو اور سالہا سال سے قائم شدہ مساجد کو مسمار کرنے کی روش کونسی ریاست مدینہ کی نمائندگی کررہی ہے، اگر مسجد کی تعمیر و قیام میں کوئی مسائل تھے بھی تو کیا اللہ کے گھر کو مسمار ہی کیا جانا چاہئے تھا یا پورے اسلام آباد اور بنی گالہ سمیت ریگولرائزڈ کرنے کی ضرورت تھی;? مزید یہ کہ پورے عرصہ حکومت میں ہر ہر لمحہ وکلاء کے ساتھ مخاصمت بڑھائی گئی، صدیوں سے چلنے والے معاملات کو چھیڑا گیا اور آخر پر وکلاء کے لائسنس کو تاعمر منسوخ کرنے کا بل داغ دیا گیا، بل بھی اس ایم این اے نے پیش کیا جس کا باپ ساری عمر اسٹیبلشمنٹ کے کاندھے پر سوار رہا اور بوٹوں والوں کی نوکری کرتا رہا (یقیناً اللہ کے پاس جانے والوں کو برا نہیں کہنا چاہئے لیکن کیا کریں کہ ’’آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے‘‘ والی کیفیت ہے، بل واپس لینے کی بھی علیحدہ کہانی ہے) ہر محکمہ، ہر ادارہ اور ہر شعبہ میں تنزلی کے نئے معیار قائم کئے گئے ۔ ہ میں کہا گیا تھا کہ صرف روزانہ کی کرپشن ہی رک جائے تو پاکستان کو قرض نہ لینا پڑے، اب تو یقیناً کرپشن نہیں ہورہی پھر اتنے قرضے کیوں , ختم ہونے والے مالی سال کا آخری تیر یہ چلایا گیا کہ چار روز پہلے ہی پٹرولیم کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کردیا گیا، اگر بجٹ کو سامنے رکھ کر ایسی کوئی اشد ضرورت تھی بھی تو کیوں قوم کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ پٹرولیم سے وابستہ مافیا کو نوازا گیا ہے، انہیں اونٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق چند کروڑ کا جرمانہ کرکے، اربوں روپے سے نوازا گیا ہے، ، اکثر لوگوں کو معلوم نہیں کہ حقائق کیا ہیں ، اگر حقائق اس کے برعکس ہیں ، اشد ضرورت کے تحت ایسا کیا گیا ہے تو تقریروں والے وزیر اعظم جو سابقہ وزیر اعظم کی طرح ایک ہی بات بار بار کرنے کے عادی ہیں ، اس معاملہ میں قوم کو اعتماد میں کیوں نہ لے سکے، بہت سے اور بڑے بڑے سوالیہ نشانات ہیں جو بار بار سامنے آتے ہیں لیکن جواب ندارد ۔

میں یہ بات ببانگ دہل کہنا اور بتاناچاہتا ہوں کہ مجھ سمیت ، تحریک انصاف کے لاکھوں ووٹرز نہ تو بھیڑ بکریاں ہیں ، نہ گونگے بہرے ہیں اور نہ ہی جیالوں ، پٹواریوں اور یوتھیوں کی طرح جاہل، گنوار اور دھڑے بازہیں ۔ ہم سوال ضرور کریں گے، ہم جواب ضرور مانگیں گے، حکومت کو جواب دینا بھی پڑے گا اور کٹہرے میں بھی کھڑا ہونا پڑے گا ۔ ہم اچھی بات کی تعریف بھی ضرور کریں گے (حالانکہ اب زیادہ امید باقی نہیں رہی کہ موجودہ وزیروں اور مشیروں کے ہوتے، حکومت کوئی اچھی بات کرسکتی ہے) ، برے اور عوام کش کاموں پر تنقید بھی کریں گے، زبان سے برا بھی کہیں گے اور جہاں ضرورت پڑی، انشاء اللہ ہاتھ سے بھی روکیں گے، ہم کسی کے زر خرید غلام نہیں ہیں ، ہم اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہے ہیں ، اپنے کانوں سے سب کچھ سن رہے ہیں ، ہم محسوس بھی کررہے ہیں ، ہماری حسیات ابھی اللہ کے فضل سے قائم و دائم ہیں ۔ ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کی بہتری کے لئے تیسر آپشن کو ووٹ دیا نہ کہ اس ملک کی مزید تباہی کے لئے ۔ ہم عمران خان سے اگر ہمدردی رکھتے ہیں تو اس وجہ سے کہ ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والوں سے جنگ کرے، اس لئے کہ وہ یہاں کے عوام کی بہتری کے لئے کام کرے، اس لئے ہرگز نہیں کہ وہ بہت ہینڈسم ہے، اس لئے ہرگز نہیں کہ اس نے ورلڈ کپ جتوایا تھا، اس کو ذہن میں رکھیں کہ حکومت کرکٹ میچ کی طرح نہیں چلتی۔۔۔حکومت چلانے کے طریقے کافی مختلف ہوتے ہیں خصوصاً اگر فلاحی ریاست کی حکومت کو چلانا ہو تو، پھر صرف حکومت برائے حکومت نہیں ہوتی، پھر ہر لمحہ عوام کی اور ملک کی فلاح و بہبود ہوتی ہے۔۔۔ اگر کوئی آپ کو کام نہیں کرنے دیتا، اگر اچھے کاموں میں رخنہ اندازی ہوتی ہے، روڑے اٹکائے جاتے ہیں ، الیکٹیبلز کو اکسایا جاتا ہے، اتحادیوں کو ورغلایا جاتا ہے، کسی بھی طرح سے فلاح کے کام کرنے میں رکاوٹ ہے تو معاف کیجئے گا آپ میں اور پچھلی حکومتوں میں کیا فرق ہے? کونسی تبدیلی ہے? یہ حکومت ہے، جنازہ تو نہیں کہ آپ اتر نہیں سکتے۔۔۔! معاف کیجئے گا ہم جنہوں نے آپکو ووٹ دئیے، مختلف طعنے بھی سنے، گالیاں بھی برداشت کیں ، اس ملک کی تباہی برداشت نہیں کرسکتے، اگر ملک کو سنبھال نہیں سکتے، اپنے وزیروں کو لگام نہیں ڈال سکتے، اسلام کو چھوڑ کر ہر مذہب کی فکر دامن گیر ہے تو یہ وہ ایجنڈہ نہیں جس کے لئے ہم نے ووٹ دئیے تھے، ہرگز نہیں ۔۔۔! ہم ساری صورتحال کو آپ اور آپکی حکومت کی نظر سے نہیں دیکھ سکتے، قطعاً نہیں ۔۔۔! بقول شاعر

’’لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم‘‘
 

Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 206769 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.