آہ۔۔۔! بھائی جان

اللہ تعالیٰ نے 2017 میں مجھے اور کچھ دیگر فیملی ممبرز کو حج کی سعادت نصیب فرمائی ، حج سے پہلے بڑے بھائی جان جناب جمیل فیضی بسلسلہ کاروبار یو اے ای میں مقیم تھے، ان سے رابطے کافی حد تک بحال ہوچکے تھے لیکن دوران حج میں نے سوچا کہ میرے بڑے بھائی جو کہ میرے والد کی جگہ ہیں ، ان کو کسی بھی صورت میں منانا ہے اور ان کی ناراضگی اور غلط فہمیوں کو ختم کرنا ہے، اللہ تعالیٰ نے میری عقل کی رہنمائی فرمائی اور اپنی انا کو بالائے طاق رکھ کر میں نے فیصلہ کیا کہ کسی بھی طرح اپنے والد جیسے بڑے بھائی کو مزید ناراض نہیں رہنے دینا اور چاہے مجھے ماضی کے تمام معاملات کی ذمہ داری (اس میں میری غلطی تھی یا نہیں تھی)اپنے کندھوں پر لینی پڑے تو بھی بھائی صاحب کو ہر صورت منانا ہے ۔ چنانچہ شائد 2017 کا اواخر تھا اور میں بھائی جان مرحوم کے آفس واقع جوہر ٹاءون میں موجود تھا، ان کے ایک قریبی دوست جناب ولید بٹ صاحب کی موجودگی نے مجھے حوصلہ دیا، میں نے بٹ صاحب سے درخواست کی کہ مجھے بھائی جان سے معافی لے دیں ، انکو ہمارے معروضی حالات سے کافی واقفیت تھی چنانچہ انہوں نے شفقت کا مظاہرہ کیا اور میرا ساتھ دیا، میں اپنے بڑے بھائی جو کہ یقیناً میرے والد کی جگہ تھے، ان کے پاءوں میں بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ ’’ماضی میں جو کچھ بھی ہوا، غلط فہمیاں اور شکر رنجیاں پیدا ہوئیں ، سب کی ذمہ داری میں قبول کرتا ہوں ، مجھے معاف کردیں ، آئندہ میں کبھی دانستگی میں ایسی بات یا حرکت ہرگز نہیں کروں گا جس سے آپکی دل آزاری ہو یا آپکو دکھ پہنچے، اگر ایسی نادانستگی میں حرکت سرزد ہوجائے تو میں فوراً آپ سے معافی مانگ لوں گا، بس ایک بار اللہ کے لئے مجھے معاف کردیں کیونکہ آپ میرے اور سب بہن بھائیوں کے لئے والد کی جگہ ہیں اور ہم آپ سے مزید دوری یا آپکی ناراضگی برداشت نہیں کرسکتے‘‘ ۔ ساتھ ہی ساتھ میں نے یہ بھی عرض کردیا کہ ’’آپ چونکہ بڑے بھائی اور والد کی جگہ ہیں تو آپکو سارے حقوق حاصل ہیں کہ آپ میرے ساتھ جو بھی سلوک کرنا چاہیں ، آپکا حق ہے، اگر آپ مجھے جی پی او چوک (جس کے بالکل ساتھ میرا آفس واقعہ ہے) میں کان پکڑواکر جوتے بھی رسید کریں گے تو میں اف تک نہیں کروں گا، بس ہ میں آپکی محبت اور شفقت درکار ہے، کوئی دنیاوی لالچ ہرگز نہیں ‘‘ ، انہوں نے جواب میں فرمایا کہ ’’نہیں پہلے کچھ لوگوں کے بیچ بیٹھ کر حساب کتاب کرلیتے ہیں ، باتیں کلیئر کرلیتے ہیں ‘‘، میں نے جواباً عرض کیا کہ ’’ میں کسی حساب کتاب یا کلیرنس میں نہیں الجھنا چاہتا نہ پرانی باتیں دہرانا چاہتا ہوں ، میں مانتا ہوں کہ تمام کی تمام غلطیاں میری تھیں ، البتہ اگر حساب کتاب کی بات ہے تو آپ مجھے بتادیں کہ اگر میرے ذمہ کچھ نکلتا ہے تو میں وہ ادا کرنے کا پابند ہوں ‘‘ میرا یہ کہنا تھا کہ بھائی جان نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا ، خود بھی روئے، مجھے بھی رلایا، تمام گلے شکوے دور ہوگئے، ہماری دوستی بحال ہوگئی، پرانا اور سہانا دور بھی لوٹ آیا، میرے حوصلہ کرنے، انا کو خاطر میں نہ لانے سے سب بہن بھائیوں کے ساتھ انکے تعلقات از سر نو بحال ہوگئے، جس پر میں جتنا اللہ کا شکر ادا کروں اتنا ہی کم ہے ۔ میں یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ہمارے والد گرامی جناب شیخ ریاض احمد فیضی مرحوم کے اس دار فانی سے رخصت کے کچھ عرصہ بعد کچھ غلط فہمیوں ، ’’اپنے جیسے‘‘ کچھ ’’غیروں ‘‘ کی ’’مہربانیوں ‘‘ اور کچھ جذباتی باتوں کی وجہ سے کچھ عرصہ ہمارے آپس کے تعلقات سردمہری اور کشیدگی کا شکار رہے لیکن اللہ کی دی ہوئی توفیق، میرے حوصلے اور ہمت اور بھائی جان کی محبت و شفقت کی وجہ سے معاملات نپٹ بھی گئے اور سمٹ بھی گئے، میں اللہ تعالیٰ کا ایک بار پھر شکر ادا کرتا ہوں کہ میرے دل میں اب اس حوالے سے بے اطمینانی یا پچھتاوا نہیں ہے ۔ الحمداللہ

وقت کا پہیہ رکتا نہیں ہے، چلتا رہتا ہے، وقت جامد نہیں ہوتا، ایک ایک لمحہ، ایک ایک ساعت گذرتی رہتی ہے، انسان اگر نیت ٹھیک کرلے تو اللہ تعالیٰ آسانیاں اور رحمتیں بھی نازل فرماتا ہے، مشکلات سے بھی بچاتا ہے کیونکہ وہی ذات ایسی ہے جو کسی کو مشکلوں سے نکال سکتی ہے، اسی سے مانگیں تو سب کچھ ملتا ہے، کسی غیر کے در سے کچھ بھی نہیں ملتا نہ دنیا نہ آخرت ۔ چنانچہ وقت گذرنا شروع ہوگیا، اچھا وقت لوٹ آیا، بھائی جان کے ساتھ روز ملاقاتیں ، گھر میں آنا جانا، میرے آفس میں انکی تشریف آوری، گھنٹوں ان کی باتیں سننا، پہروں ان کا ساتھ ، وہ یادیں اب میرا اثاثہ ہیں ۔ ماضی میں یوں ہوا کرتا تھا کہ جب کبھی دو تین چھٹیاں اکٹھی ہوجاتی تھیں تو ہم بھائی مری اور اسلام آباد کی راہ لیا کرتے تھے ۔ مجھے یاد ہے کہ بھائی جان کے بیٹے کی شادی کے بعد ہم پوری فیملی اکٹھے مری گئے ۔ اس کے بعد جولائی2018 میں مجھے ایک کام سے نوشہرہ، کے پی کے جانا تھا کہ بھائی جان کہنے لگے ’’یار مجھے بھی ساتھ لے چلو، بڑا عرصہ ہوا اکٹھے کہیں گئے نہیں ‘‘ چنانچہ ہم دونوں بھائی پہلے نوشہرہ گئے، پھر وہاں سے اسلام آباد پہنچے جہاں برادرم جواد فیضی کے گھر ٹھہرے، اسلام آباد گھومے پھرے، محترم قاضی عبدالقدیر خاموش سے ملاقات کی، مری گئے، ایبٹ آبادجواد فیضی کے سسرال گئے، واپس اسلام آباد پہنچے اور بوجوہ ہنگامی طور پر لاہور پہنچنا پڑا، سب یادوں کے پردے پر چل رہا ہے کہ کیسے بچپن میں وہ ہ میں لاڈ کیا کرتے تھے، کتنے سہانے دن تھے، ساری ساری رات گپیں لگانا، ہوٹلوں میں کھانے، کیک رس کھانے کی دوڑ، کیا کیا باتیں بتاءوں کہ کیسی محبت دی انہوں نے، ہم نے بھی ان کو الحمداللہ والد والی عزت و احترام دیا ۔ وہ صرف میرے اور دیگر چھوٹے بہن بھائیوں کے ہی ’’بھائی جان‘‘ نہ تھے بلکہ ہم سب کے دوستوں کے بھی ’’بھائی جان‘‘ تھے، ہمارے حلقہ ہائے احباب میں ’’بھائی جان‘‘ کا لفظ شائد ان کے لئے مخصوص ہوچکا ہوا تھا ۔

بھائی جان کی زندگی کے آخری تقریباً دو سال ایسے گذرے کہ وہ بہت ڈپریشن میں تھے ۔ کچھ ’’اپنوں ‘‘کی طرف سے ایسا سلوک کیا گیا جس کے وہ ہرگز حقدار نہیں تھے ۔ وہ تو محبتیں بانٹنے والے تھے، وہ تو سب کا خیال رکھنے والے تھے، اپنے تو اپنے غیر بھی ان کے ساتھ کچھ وقت گذار لیتے تو بس ان کے ہی ہوجاتے تھے، ان کے گرویدہ ہوجاتے تھے، اپنے پروفیشن میں بھی عظیم تھے، لوگوں کے مفادات کا تحفظ اپنی اولین ذمہ داری گردانتے تھے ۔ سوشل ورک اور لوگوں کی خدمت کے جذبہ سے سرشار تھے ۔ سب سے بڑھ کر حب نبی میں سب کچھ نچھاور کرنے کو ہمہ وقت تیار تھے ۔ ختم نبوت کے پہرے دار تھے ۔ کچھ سال پہلے کچھ بدبختوں نے ہمارے پیارے نبی آخر الزمان حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخانہ خاکے شاءع کئے تو اس وقت سے اپنی زندگی کے آخری ایام تک بہت مضطرب اور بے چین تھے، مستقل ہفتہ وار پروگرام برائے دفاع حرمت رسول ﷺ کے روح رواں اور بانی تھے ۔ پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے میری روٹین تھی کہ میں صبح ان کے اٹھنے کے وقت کا اندازہ لگا کر انہیں فون کیا کرتا تھا، حال احوال پوچھنا، انکی شوگر بارے دریافت کرنا، ناشتہ کرلیا، دوائی لے لی اور اس کے بعد دوپہر یا شام کا پروگرام بنانا کہ آپ کتنے بجے آئیں گے، کھانا اکٹھے کھائیں گے، کبھی انہوں نے آمادگی کا اظہار کرنا اور کبھی انکار کرنا، پھر میں نے کہنا کہ امی جان بھی آپکو یاد کررہی ہیں ، پلیز ان کو بھی مل جائیں ، کھانا بھی اکٹھے کھا لیں گے اور گپ شپ بھی ہوجائے گی، روزانہ کا یہی معمول بن گیا تھا، آخری رمضان میں بھی بہت سی افطاریاں اکٹھی کیں ، اکٹھے رشتے داروں کے گھر بھی گئے یہاں تک کہ انکی بیٹی کے گھر بھی اکٹھے ہی جانے کا اتفاق ہوا، انکی بیٹی کے گھر پر تھے جب عید کے چاند کا اعلان ہوا، اعلان سن کر جلدی جلدی وہاں سے نکلے اور صبح عید کی نماز کا پروگرام بنایا ۔ عید والے دن اکٹھے چاروں بھائیوں ، ایک بہنوئی اورہمارے بچوں نے نے عید کی نماز ادا کی ۔ امی جان کے پاس بیٹھ کر ناشتہ کیا، ناشتے کے بعد بھائی جان کہنے لگے کہ اب میں چلتا ہوں ، (وہ تنہا ایک اپارٹمنٹ میں رہ رہے تھے) میں نے کہا کہ آپ یہیں امی کے پاس رک جائیں اور آرام کریں بلکہ عید کے ایام یہیں گذار لیں کیونکہ آپکی بلڈنگ میں تو کوئی بھی ان دنوں رہائش پذیر نہیں ہے سب لوگ اپنے گھروں کو گئے ہوئے ہیں ، کہنے لگے کہ ’’یار تم لوگوں کے بچے چھوٹے ہیں ، وہ شور کرتے ہیں اور عید کے دن انہیں شور کرنا بھی چاہئے جبکہ مجھے اب تنہا رہنے کی عادت پڑ گئی ہے، شور برداشت نہیں ہوتا ، دوسرے یہ کہ تمہیں پتہ ہے کہ کافی دنوں سے نیند پوری نہیں ہوئی اس لئے میں چلتا ہوں کہ جا کر نیند پوری کرلوں گا، شام کو رابطہ کروں گا‘‘، چنانچہ وہ چلے گئے، رات تک دو تین بار فون پر رابطہ ہوا تو کہنے لگے کہ بہت بے چینی ہے، نیند بھی نہیں آرہی شائد گرمی زیادہ ہے، میں نے کہا کہ آپ یہاں آجائیں یا میں آجاتا ہوں لیکن انہوں نے مجھے روک دیا کہ نہیں عید کا دن ہے تم گھر پہ رہو، عید کے دو دنوں میں ملاقاتیں بھی ہوئیں ، وہ ہمیشہ کی طرح چہک تو رہے تھے لیکن کوئی ’’ڈپریشن اور پریشانی‘‘ تھی جو ان کو اندر ہی اندر بے چین کئے ہوئے تھی، مجھے معلوم ہے کہ انکو کیا کیا ڈپریشن تھا، کیا پریشانی تھی جو کہ ان کو بے چین کئے ہوئے تھی، ایک ایسا بندہ جو ہر وقت سب کو ہنساتا ہو، جو سب کے آنسو پونچھتا ہو، جو سب کی پریشانیوں میں ، تکلیفوں میں مدد کرتا ہو، محفلیں سجاتا ہو ، دوست اسے ملنے کے بہانے ڈھونڈتے ہوں ، جو خود دوستوں ، عزیزوں ، رشتے دارون کو ملنے کے بہانے ڈھونڈھتا ہو اور عید کے دن وہ قید تنہائی کا شکار ہو، ان بچوں سے جن میں اس کی جان تھی، ان سے ملنا تو دور کی بات، ان کو دیکھنا تو دور کی بات ، ان کی آواز بھی نہ سن پایا ہو، آپ ہی بتائیں اس آدمی کی کیا کیفیت ہوگی اور اسکی قوت مدافعت کہاں رہ گئی ہوگی;238; عید کے دو دن جس کرب اور اذیت میں انہوں نے گذارے وہ وہی جانتے ہیں ، ہم صرف اس کی شدت کا اندازہ ہی لگا سکے ۔

عید کے تیسرے دن سے میرے ہردلعزیز بھائی جان کی طبیعت خراب ہوئی، اکتیس مئی دوپر تک گھر میں رہے اور شام کو ہسپتال لے جانا پڑا ، یکم جون کی صبح ان کو شدید علالت کی وجہ سے میو ہسپتال میں وینٹی لیٹر پر شفٹ کرنا پڑگیا ۔ بہت دعائیں ، اللہ کے آگے بہت التجائیں ، مناجات۔۔۔ لیکن اللہ کی رضا کے آگے سرجھکانا ہی پڑتا ہے کہ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ بھی تو نہیں ہوتا ۔ وہ شخص جس کی بہادری کی لوگ داد دیا کرتے تھے، وہ شخص جس کے بارے میں ان کے جاننے والے کہا کرتے تھے کہ وہ مضبوط قوت ارادی کا مالک ہے اور وہ شخص جس کے بارے میں دوران علالت کہا جاتا تھا کہ یار اس نے بہت کڑے وقتوں میں حوصلہ نہیں ہارا اس لئے اس بیماری سے بھی لڑے گا اور انشاء اللہ بیماری کو شکست دے گا، بالآخر وہ شخص ’’اپنوں ‘‘ کی بیگانگی کی وجہ سے اور اللہ کے حکم کی وجہ سے زندگی ہار گیا، سات اور آٹھ جون کی درمیانی رات اللہ کے پاس چلا گیا، ہ میں دوبارہ یتیم ،بے سہارا و بے آسرا کرکے، اس دنیا کے دکھوں سے بہت دور اللہ کی پناہ میں چلا گیا ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ (سات جون کو ہی میری والدہ بھی شدید بیماری کی حالت میں کچھ وقت ہسپتال کی ایمرجنسی میں گذار کر آئیں اور جن کو شدید علالت کی وجہ سے ہم ابھی تک بھائی کی وفات حسرت آیات کا بتا بھی نہیں سکے)

مجھے اللہ پر مکمل بھروسہ ، ایمان اور یقین ہے کہ میرا بھائی اللہ کی جنت میں اعلیٰ مقام پر فائز ہے، اس بھروسے، ایمان اور یقین کی دو بڑی وجوہات ہیں ۔ ایک یہ کہ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے، حدیث مبارکہ ہے کہ جو کوئی وبائی امراض میں فوت ہوا وہ شہید ہے، دوسری یہ کہ جس اذیت، کرب اور ڈپریشن میں انہوں نے پچھلے ڈیڑھ دو سال گذارے ہیں اور جو تکالیف ایام علالت میں برداشت کی ہیں ، واویلا نہیں کیا، اللہ کا حکم سمجھ کر بیماری کی شدت کو برداشت کیا اس کی وجہ سے یقیناً میرا اللہ ان کے گناہوں ، غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگذر کرے گا اور مجھے یقین ہے کہ پچھلے ڈیڑھ دو سال کی اذیت، کرب اور ڈپریشن اور ایام علالت کی تکالیف اور سختیاں ان کے گناہوں ، غلطیوں اور کوتاہیوں کا کفارہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ میرے والد جیسے بڑے بھائی کو کروٹ کروٹ جنت عطا کرے، انکی آخری آرامگاہ کو جنت کا باغ بنا دے۔۔۔ آمین ۔ آخر پر سب سے بھائی جان کی مغفرت کے لئے دعا کی درخواست اور والدہ محترمہ اور میری ساس محترمہ کے لئے دعائے صحت کی درخواست ہے کہ دونوں ہی شدید بیمار ہیں ۔ جزاک اللہ خیرا ۔
 

Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 206685 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.