پولیس گردی اور عوام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج با دلِ نخواستہ ایک ایسے مسئلے پر بات کرنے جا رہی ہوں جو ہمارے معاشرے میں خوف اور دہشت کی علامت بن چکا اور اگر اب بھی اس پر آواز نہ اٹھائی گئی تو آگے چل کر یہ مسئلہ عوام اور حکومتوں کے درمیان تصادم اور انتشار کی سب سے بڑی وجہ بنے گا،چونکہ یہ مسئلہ ایک سرکاری محکمے کی پیداوار ہے اس لئے میں نے با دلِ نخواستہ کا لفظ استعمال کیا کیونکہ بحیثیت پاکستانی مجھے حکومتی اداروں پر تنقید کرنا بالکل بھی پسند نہیں مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ جن کاندھوں پر بوجھ پڑتا ہے صرف وہی جانتے ہیں کہ بوجھ کی شدت اور اُسے برداشت کرنے کی استطاعت میں توازن کس طرح برقرار رکھ کر اپنا آپ بچایا جا سکتا ہے۔یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ محکمہِ پولیس میں ایسےبہادر،ایماندار،ہمدرد اورفرض شناس افسران و اہلکاران کی کمی نہیں ہے کہ جنہوں نے صحیح معنوں میں عوام کے خدمت گار اور محافظ ہونے کا ثبوت دیا اور خطرناک مجرموں کو گرفتار کرنے کے لئے اپنی جان تک دینے سے گریز نہیں کیا۔اب آئیے! اصل بات کی طرف چلتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پولیس گردی کی ایک تصویر

آج با دلِ نخواستہ ایک ایسے مسئلے پر بات کرنے جا رہی ہوں جو ہمارے معاشرے میں خوف اور دہشت کی علامت بن چکا اور اگر اب بھی اس پر آواز نہ اٹھائی گئی تو آگے چل کر یہ مسئلہ عوام اور حکومتوں کے درمیان تصادم اور انتشار کی سب سے بڑی وجہ بنے گا،چونکہ یہ مسئلہ ایک سرکاری محکمے کی پیداوار ہے اس لئے میں نے با دلِ نخواستہ کا لفظ استعمال کیا کیونکہ بحیثیت پاکستانی مجھے حکومتی اداروں پر تنقید کرنا بالکل بھی پسند نہیں مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ جن کاندھوں پر بوجھ پڑتا ہے صرف وہی جانتے ہیں کہ بوجھ کی شدت اور اُسے برداشت کرنے کی استطاعت میں توازن کس طرح برقرار رکھ کر اپنا آپ بچایا جا سکتا ہے۔یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ محکمہِ پولیس میں ایسےبہادر،ایماندار،ہمدرد اورفرض شناس افسران و اہلکاران کی کمی نہیں ہے کہ جنہوں نے صحیح معنوں میں عوام کے خدمت گار اور محافظ ہونے کا ثبوت دیا اور خطرناک مجرموں کو گرفتار کرنے کے لئے اپنی جان تک دینے سے گریز نہیں کیا۔اب آئیے! اصل بات کی طرف چلتے ہیں۔۔

کہتے ہیں کہ ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندا کردیتی ہے مگر جب پورا تالاب ہی گندا ہو تو تعفن کا چاروں طرف پھیلنا لازمی امر ہے۔محکمہ پولیس کی حالت بھی اسی تالاب جیسی ہو چکی ہے کہ جس میں اِکا دُکا ہی صاف ستھری مچھلی داخل ہو پاتی ہے اور پھر پہلے سے موجود بعض ”گندی مچھلیاں” مل کر اس کا جینا حرام کر کے اُسے کونے میں لگائے رکھتی ہیں،المیہ یہ ہے کہ بسا اوقات نامی گرامی ٹاؤٹوںاور انڈر ورلڈ مافیاسے اپنے تعلقات کے بل بوتے پر اس کا کام ہی تمام کروادیتی ہیں۔دیکھنے میں آیا ہے کہ بیشتر پولیس والوں نے مبینہ طور پر اپنی بادشاہت قائم کرنے اور اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے ظلم و بربریت کی وہ داستانیں رقم کیں کہ جن کو سن کر ہر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں،بعد ازاں یہی واقعات بین الاقوامی سطح پر پورے ملک اور قانون کی بدنامی کا باعث بنے۔

پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ حق وانصاف کی فراہمی ہے،اس معاملے میں پولیس کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے، پولیس گردی،لوگوں کے ساتھ ان کے سفاکانہ رویے،رشوت خوری اور جرائم کی پشت پناہی کے حوالے سے عوامی شکایات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، موجودہ صورتحال میں پولیس اور عوام کے درمیان اعتماد کی فضا باقی نہیں رہی، عوامی خدمت کا یہ ادارہ سفاکی اور ظلم و بربریت کی علامت بن چکا ہے، بیشتر عوام اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی پر صرف اس لئے خاموشی اور صبر کو ترجیح دیتے ہیں کہ تھانے کے چکروں میں پڑنے اور ناحق پیسہ بھرنے سے بچ سکیں اورعوام کی اکثریت کویہ بھی یقین ہوتا ہے کہ چمک یا سفارش کے زور پرمخالفین فوری آزاد ہو جائیں گے اور پولیس والوں کی حمایت حاصل کر لینے کے بعد انہیں مزید نقصان پہنچانے کے درپے ہوں گے،کیونکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہر مجرم کو کسی نہ کسی طرح پولیس کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔

ایک نظر پولیس گردی کرنے والے مشہور کرداروں اور ظلم کے واقعات پر ڈالی جائے توماضی قریب میں معاشرے میں بڑھتی ہوئی پولیس گردی میں جن لوگوں اور واقعات نے سب سے زیادہ کردار ادا کیا ان میں پولیس آفیسر عابد باکسرکا نام بدترین خوف و دہشت کی علامت بن کر سامنے آیاجس نے پنجاب میں سیاسی اشارے پر درجنوں نہیں، سینکڑوں بیگناہوں کو قتل کروایا۔اس کے بعد را ؤانوارکا نام آتا ہے جس نے سندھ میں سیاسی اشارے پر بیگناہوں کو قتل کیا اور نجانے کیوں ابھی تک قانون کی گرفت میں نہیں آ سکا،کراچی میں ایک نوجوان سرفراز کو سر عام گولیاں مار کر قتل کیا گیا،پھر ساہیوال پولیس کا گھناؤنا اور شرمناک واقعہ کہ جس کے بعد کسی بھی پاکستانی کے دل میں پولیس والوں کے لئے رتی برابر بھی عزت باقی نہ رہی اور بچے،جوان،بوڑھے،مرد،خواتین غرضیکہ سب کے سب ہی خود کو غیر محفوظ سمجھنے پر مجبور ہو گئے کہ کسی کو بھی سڑکوں پر پولیس والے گولیوں سے چھلنی کر دیں گے اور بعد میں انہیں” دہشت گرد”قرار دے کر ہمیشہ کیلئے ان کا کفن بھی میلا کر دیں گے۔

اس واقعہ کے بعد عوام نے سوشل میڈیا پر پولیس کے خلاف کھل کر اپنی نفرت کا اظہار کرنا شروع کیا اور بیشتر شہروں میں پولیس اہلکاروں کے ساتھ مزاحمت کے واقعات بھی رونما ہوئے ۔آئے روز اخبارات اور سوشل میڈیا پر پولیس گردی کے واقعات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں جن کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ابھی حال ہی میں خیبر پختونخواپولیس کے حوالے سے مبینہ طور پرایک واقعہ سامنے آیا ہے کہ جس میں ایک دل برداشتہ نوجوان عامر تہکال نے پولیس والوں کی بدتمیزی پر نشے کی حالت میں غصے اور گالی گلوچ کا مظاہرہ کیا تو پولیس اہلکاروں نے اُسے نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ اس کو برہنہ کر کے تصاویر کھینچ کرسوشل میڈیا پر وائرل بھی کر دیں اور اس کے گھر کی خواتین کے بارے میں فحش کلامی بھی کی۔

پہلے تو صرف ایک S.H.O سارے علاقے کے لئے دہشت کی علامت ہوا کرتا تھا اب تو نچلے درجے کا پولیس اہلکار بھی اپنی بساط کے مطابق عوام کے لئے عذاب بنا رہتا ہے پہلے صرف رشوت ان کے پیٹ کا جہنم بھرنے کے لئے ضروری ہوا کرتی تھی اب تو یہ عوام کی عزت و ناموس اور جان کے ہی دشمن بن چکے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسا محکمہ جسے معاشرے کی خدمت اور تحفظ کے لئے قائم کیا گیا اُسے کس نے عوام ہی سے دشمنی کی اجازت دی۔؟کس کا فرض تھا کہ اس محکمے کو چیک کرتا۔۔؟کون ہے جو انہیں ان کا اصل کام یاد دلائے۔۔؟ کون ہے جو انکا قبلہ درست کرنے پر دھیان دے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس اور عوام کے درمیان پیدا ہونے والی نفرتیں اور دوریاں ختم کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے جائیں۔ اگر اب بھی اس ادارے کے اختیارات کی حدود کا ازسرِ نو جائزہ نہ لیا گیا اور ان کی من مانیوں اور سینہ زوری کو نہ روکا گیا تو آگے چل کر عوام اور پولیس کے مابین بدترین تصادم کی فضا تکلیف دہ صورتحال پیدا کر دے گی جو کہ بعد ازاں خانہ جنگی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔۔اللہ پاک ہماری عوام کو ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھے۔آمین

 

Munazza Syed
About the Author: Munazza Syed Read More Articles by Munazza Syed: 10 Articles with 8778 views columnist and Peotess

.. View More