جہیز کی دونوں قسمیں لعنت ہیں

اس حقیقت سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا کہ جہیز اک معاشرتی و اخلاقی ناسور ہے۔ملک و ملت کی بقاء اسی میں ہے کہ اس کی ہر شکل کو ناپید کر دیا جائے۔جہیز اس مال وزر کو کہتے ہیں جو والدین اپنی دختر نیک اختر کو رخصتی کے وقت عنایت کرتے ہیں۔

اگر چہ والدین کی جانب سے تحائف دینا اک مستحسن عمل ہے۔لیکن موجودہ دور میں جہیز اک معاشر تی خرابی بن کر ابھرا ہے ۔در حقیقت یہ ایک ہندوانہ رسم ہے۔جسے مسلمانوں نے اس حد تک قبو ل کر لیا ہے کہ یہ فرسودہ رسم ہماری رگوں میں سرایت کر گئی ہے۔شرع نے جہاں دوسرے مذاہب کے بر عکس صنف نازک کے مقام ومرتبہ کو بلند کیا ہے وہاں جائداد میں بھی ان کا حصہ مقرر کر دیا ہے۔مسلم طبقہ (برصغیر)کے 99/ لوگ اپنی بیٹیوں کو جائداد میں ان کا مقرر کردہ حصہ دینے کے بجائے جہیز کے ذریعے اسکی تلافی کرتے ہیں ۔جو کہ ایک اخلاقی و شرعی جرم ہے۔اس قبیح رسم کے ہولناک نتائج وقتا فوقتا ہما رے سامنے آتے رہتے ہیں۔ مثلاً
1۔ایک نجی چینل کے مطابق کم جہیز لانے کی پاداش میں خاوند نے اپنے ماموں کے ساتھ مل کر بیوی کو کوئیں میں گرا دیا۔جس سے اس کی ریڑھ کی ہڈ ی ٹوٹ گئی ۔
2۔لاہور کے نوجوان نے کوشش کے باوجود بہن کا جہیز نہ بنا سکنے کی وجہ سے دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کر لی۔
3۔معمولی جہیز کی بناء پر بیوی پر تیل چھڑک کر جلا دیا۔
4۔کم جہیز لانے کی پاداش میں بیو ی کو زہر پلا دیا۔(اخباری رپورٹس)
5۔جہیز نہ لا نے کے جرم پر شادی کے دوسرے روز دلہن کو قتل کر دیا گیا۔

رسمو ں‘ رواجوں کے آہنی شکنجے میں جکڑے والدین بسا اوقات بھاری قرض(IMF) لے کراس انسانیت سوز رسم کا دم بھر تے ہیں۔اور پھر سالہاسال قرض اتارتے رہتے ہیں یا پھر اگلی نسلوں کو منتقل کر جاتے ہیں۔تضنع و بناوٹ سے بھرپور زندگانی میں عوام جہیز کی ادائیگی کو فریضہ دین سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ بعض لوگ اسے بنت رسول ﷺ خاتون جنت حضرت فاطمہؓ کی رخصتی سے منسوب کر تے ہیں ۔جو کہ پرلے درجے کی لغو بات ہے۔چونکہ شیرخدا ‘حیدر کرار‘حضرت علیؓ رحمت اللعالمین ﷺ کی کفالت میں تھے۔ اسلیئے رخصتی کے وقت چند اشیائے ضرورت دی گئیں۔اور ان میں سے بیشتر حضرت علیؓ کی زرہ مبارک فروخت کر کے خریدی گئیں۔اور مولا علی ؓ نے مہر بھی اسی رقم میں سے ادا کیا(آج کل بھاری مہر کی شرائط قائم کر کے نکاح میں رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں)۔عرب میں اس قسم کی زہریلی رسم کا تصور ہی مفقود ہے۔بلکہ سسرال والے ہی ضرورت زندگی کی جملہ اشیاء کا بندوبست کرتے ہیں۔ویسے منطقی اعتبار سے بھی یہی طرز عمل درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ دلہن تو مہمان ہوتی ہے اور اہتمام کرنا میزبان کا ہی حق بنتا ہے۔

بھاری بھر کم جہیز کے پس پردہ جذبہ نمود ونمائش بھی پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔اور اکثر دیہی علاقوں میں تو جہیز کا سامان بکھیر کر اپنی دولت کے جاہ وجلال سے مرعوب کرنے کی انتہائی سعی روا رکھی جاتی ہے۔تاکہ گاﺅں کے گوشے گوشے میں ان کی جاہ وحشمت کی شنید ہو اور سسرالی گھر میں بیٹی کی شنوائی بھی ممکن ہو سکے۔جہیز کے محرکات میں لالچی دامادوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔
بقول شاعر
ہے جستجو کہ خوب (قیمتی جہیز)سے ہے خوب تر کہاں
اب دیکھئے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں؟

جن کی فرمائشیں پوری کرتے کرتے لڑکی کے والدین غربت کی گہری کھائی میں جا گرتے ہیں۔اگرچہ بھاری جہیز کے خلاف کچھ قوانین بھی موجود ہیں لیکن اس قہر آلود رسم کے خاتمے کیلئے ہمیں اپنا انداز فکر درست کرنا ہو گا۔

اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا ضروری ہے کہ بیٹیوں کی قدروقیمت جہیز سے نہیں بلکہ ان کی اخلاقی و معاشرتی تربیت سے عیاں ہوتی ہے۔جو اسکی باقی ماندہ زندگی میں اپنا گہرا اثر چھوڑتی ہے۔والدین کو چاہیے کہ اپنی بچیوں کو امور خانہ داری ‘طبی معلومات اور شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے فنی ودینی تعلیم دلوائیں تاکہ ان کا مستقبل درخشاں ہو سکے۔لاکھو ں کی تعداد میں بے جرم و خطاء لڑکیاں اب بھی کنواری بیٹھی ہیں۔اور ہزارہا لڑکیوں کے بال تو والدین کی چوکھٹ پر ہی سفید ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے والدین کے پاس جہیز بنانے کیلئے خطیر رقم موجود نہیں ہوتی۔شاذونادر چند لڑکیاں جوش جوانی میں آکر بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہیں۔”زنا“ جیسا قبیح جرم جس سے دین حق کو سخت چڑ ہے بسا اوقات جہیز کی ہی مرہون منت ٹھہرتا ہے۔اور نتیجاً لڑکیاں عدالتوں کا رخ کرتی ہیں‘بے گھر ہوتی ہیں یا پھر قتل ہو جاتی ہیں۔اور صدیوں تک نسلیں طنزوتشنیع کے سلسلہ وار گھناﺅنے زخم سہتی ہیں ۔

جہیز کی دوسری قسم پہلی قسم کے بالمقابل کہیں زیادہ درد و الم کا باعث ہے۔یہ قومی سلامتی و معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔اس قسم میں والدین ”گزشتہ حکومت “ کو اور سسرال موجودہ حکومت کو کہتے ہیں ۔جہیز کی دونوں قسموں میں کافی مشتر ک باتیں پائی جاتی ہیں۔ہماری بیشتر حکومتیں یہی تجزیہ پیش کرتی آئی ہیں کہ پچھلی حکومت نے ہمیں جہیز میں :دگرگوں معیشت‘خالی خزانہ‘حساس اداروں میں نالائق افراد کی بھرتی‘اقرباءپروری‘آئین کی پامالی و لاقانونیت‘سورج مکھی کے پھول کی مانند ایک ہی محور میں گردش کر تی خارجہ پالیسی ‘غربت وافلاس‘فاقہ کشی‘عدم مساوات‘لوڈ شیڈنگ ‘درآمدات و برآمدات میں سرعت کے ساتھ کمی‘کالا باغ ڈیم کا ناکام منصوبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ دی تھیں۔لیکن ہم نے دن دگنی و رات چگنی محنت کر کے حالات کا رخ کافی حد تک بدل دیا ہے اور اب ملک تر قی کی راہ پر گامزن ہے۔حالانکہ صورتحال اسکے برعکس ہوتی ہے جس کا اظہار اسکے بعد آنے والی حکومت واشگاف الفاظ میں کر دیتی ہے۔در حقیقت ہر حکومت نے جہیز میں قدرے اضافہ ہی کیا ہے۔ اگر کسی فوجی حاکم نے بنیاد فراہم کی تو جمہوریت میں موجود مفاد پرست عناصر نے (اپنی حکومت میں )اسے رنگ وروپ بھی ضرور عطاءکیا۔جمہوریت کے دلدادہ بعض تجزیہ کار صرف فوجی حکمران کو ہی آمر تصور کرتے ہیں جبکہ فی الحقیقت نفسیاتی آشوب میں مبتلا‘ طبع حلیم و روشنی طبع سے محروم ہر وہ مطلق العنان حاکم جو بے توقیر معرکے رقم کرے ‘جو اصولوں ‘آدرشوں اور نظریوں کے بجائے ذرا ذرا سی اناﺅ ں کے پھریرے لہرائے‘قومی وسائل و قومی اثاثے نیست و نابود کرے‘آئین و قانون کو اپنی جاگیر بنا لے‘اور جس سے خدا فروش و خود پرست فرعونوں کی رعونت جھلکتی ہو ”آمر“ ہی کہلائے گا خواہ وہ کسی جمہوری طرز عمل یا چھڑی کے جادو سے تخت سجائے۔ ملکی تاریخ کے اوراق اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ(جہیز میں) کسی نے رائفل کا کلچر عطاء کیا‘کسی نے خود کش بمبار(عدلیہ پر تو قریباً سب نے ہی اپنے اپنے انداز میں ضرور وار کیا)‘کسی نے فرقہ واریت کو عروج دیا تو کوئی ذاتی مفاد کی خاطر نسلی و لسانی جماعتو ں کی حد بندی میں مصروف عمل رہا۔بس فر ق صر ف اتنا ہے کہ کسی کے چہرہ انور پر وقت نے نشان ثبت کر دیا تو کوئی مجرم ہونے کے باوجو د ملزم ٹھہرا۔صرف موجودہ جمہوری دور ہی ایسا ہے کہ جس میں کوئی سیاسی قیدی نہیں ہے وگرنہ ماضی کی حکومتوں کا مقد م مشغلہ ہی سیاسی مخالفو ں کو سبق سکھانا ہو تا تھا۔موجو دہ دور میں اگر اپوزیشن مثبت کردار ادا کرتی رہی اور وفاق بھی اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کر تا رہا تو قوی امید ہے کہ جہیز کی اس گھٹیا روایت سے خلاصی ممکن ہو جائے گی۔

حاصل گفتگو یہی ہے کہ جہیز کی فرسودہ روایت کی ہر نوعیت کو ناپید کر دیا جائے اور معاشرے و ملک کی بقاء بھی اسی میں ہے۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 173803 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.