عید کارڈ

دو صدیوں پہلے ہم دوبھائیوں کو بڑے ہی خوبصورت اور دلکش انداز میں سادہ سے کاؤنٹر پر سجا دیا گیا، مسلمان اپنے رب کریم اور خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق روزوں میں مصروف تھے، جب سورج نکلتا وہ پہلی کرن ہمارے اوپر آن پڑتی سردی میں تو ٹھیک تھا لیکن گرمی میں کافی مشکل تھا۔روزوں کا آخری عشرہ چل رہا تھا، افطار ی کے بعد دو بچے اپنے والدین کے ساتھ دکان پر تشریف لائے۔ انہوں نے اپنے بابا سے ضد کرتے ہوئے ان میں سے ایک نے ہم سے ایک کو خرید لیا۔دکاندار نے مجھے بچے کے ہاتھ میں پکڑا دیا، تو میں اداس ہو گیا کہ میرا دوسرا بھائی اب اکیلا، خیر میں خوشی خوشی بچے کے ساتھ اس کے گھر پہنچا، تو اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی بڑے پر جوش انداز میں اپنی ماما کو کہا دیکھو میں کیا لایا ہوں،میں ڈرگیا پتہ نہیں اب میرے ساتھ کیا ہو نے جا رہاہے اور ساتھ دوسرے بھائی کی اداسی بھی۔بچے نے اپنے بیگ میں سے کلر پنسل باکس اور پن نکالااور اپنے بابا سے کہنے لگا کہ اس کے اوپر لکھو۔۔۔
چلتی ہے گاڑی اڑتی ہے دھول میرے دوست کا دل ہے گلا ب کا پھول
بابا نے بڑا ہی خوشخط کرکے لکھ دیا، بچے نے پھر کچھ لکھنے کو کہا۔۔
گرم گرم روٹی توڑی نہیں جاتی آپ سے دوستی چھوڑی نہیں جاتی
پھر بچے نے سرنامہ لکھا اور ڈاکخانہ کے باہر لگے لیٹر باکس میں ڈالا دیا۔ عید میں چند دن باقی تھے تو ایک بچہ اپنی ماما کے ساتھ دکان پر آن پہنچا، اس کی نظر میرے دوسرے بھائی کے اوپر کہیں پڑ گئی اس نے میرے بھائی کو خرید لیا۔ اس نے بھی گھر آتے ہی آسمان سر پراُٹھا لیا اور اپنی ماما سے کہنے لگا ماماجی! اس کے اوپر کچھ اس طرح لکھو۔۔۔۔
ڈبے میں ڈبہ ڈبے میں کیک میرا دوست لاکھوں میں ایک
ماما نے لکھ کر میرے حوالے کرنا چاہا۔۔ لیکن میں اور لکھنے کو کہا۔۔
عید کی خوشی نے سب کو دیوانہ بنا دیا درزی کو دی پینٹ اس نے پاجامہ بنا دیا
اس طرح دوسرے بچے نے میرے بھائی کو بھی لیٹر باکس میں ڈال دیا۔ عید کے ایک دن پہلے ہمارے دروازے پر دستک ہوئی میں نے بھاگ کر دروازہ کھولا تو خاکی وردی میں ڈاکیہ نے میرے ہاتھ میں ایک لفافہ تھما دیا۔ ماما کو بتایا تو ماما نے اسے کھولا تو اندر سے میرا بھائی جس کے لیے میں اداس تھا مجھے بہت خوشی ہوئی عید سے پہلے عید ہوئی۔ دوسرا بھائی سوچ میں پڑ گیا۔ عید سے ایک دن پہلے والے بچے کے گھر پر ڈاکیہ پہنچا۔ ایک لفافہ دیا اور چلا گیا۔ جلدی سے بابا سے کہا بابا یہ دیکھو کیا آیا ہے۔ بابا نے جلدی سے اسے کھولا تو میرا وہ بھائی تھا جو وہاں دکان پر ہی تھا۔ جب اسے میں نے پڑھا تو بہت زیادہ خوشی ہوئی کہ ہم دونوں دوستوں نے ان دونوں کو دکان سے وقفے کے ساتھ خریدکیا تھا۔ دو صدیوں سے چلنے والی یہ ریت، رواج، اور روایت اب بالکل دم توڑ چکی ہے۔ عید کارڈ اور دستی خط و کتابت ایک دوسرے کے جذبات اور احساسات کے اظہار کا بہترین ذریعہ تھا۔ رنگ برنگے اور مختلف سائز اور ڈیزائنوں میں عید کارڈ سجے ہوئے رمضان کے آخری عشرے میں دکانوں پر رش لگ جاتا، بچے اپنے والدین کے ساتھ عیدکارڈ خریدنے کے لیے تشریف لاتے اور اپنی پسند کے مطابق کارڈ خرید کر دو دو دن گھر میں بیٹھ کر دوستوں کو لکھتے، ایک دوسرے کی طرف سے عید کارڈ کے ملنے کا شدت سے انتظار رہتا، اگر نہیں ملتا تو گلہ شکوہ رہتا اور نماز پر ملتے ہی پوچھتے کہ میں نے آپ کو عید کارڈ بھیجا تھا مل گیا، پھر آپ نے مجھے کیوں نہیں بھیجا وغیرہ وغیرہ۔ عید کے موقع پر تقریباً گھر میں سب ہی عیدکارڈ بھیجتے، کاروباری حضرات اپنے نام کے عید کارڈ چھپواکر اپنے دوستوں اور ملازمین کو دیتے،اگر کسی کو نہ ملتا تو وہ اس بات کو محسوس کرتا کہ مجھے نظر انداز کیوں کیا گیا۔ وقت کے بدلنے کے ساتھ ساتھ جدت نے جگہ لے لی لیکن اس نے جذبات اور احساسات کا اظہار چھین لیا۔ ایک دوسرے کے گھر چل کر عید ملنے جاتے، اب ٹیکسٹ کر دیتے ہیں، وٹس اپ یر فیسبک پر تصویر شیئر کر دیتے ہیں، اس جدت سے معاشرے میں معاشرتی استحصال شروع ہو گیا، نزدیک والے دور اور دور والے ویڈیو لنک کے ذریعے نزدیک ہوگئے۔ میری تو رائے ہے اگر ہم پھر سے اس ریت،رسم و رواج کو اگر شروع کرتے ہیں اس سے اپنے جذبات کا اظہار اور ہاتھ سے تحریر لکھنے کا شوق پیدا ہو گا، گو کہ اس دور میں عید کارڈ لکھنے کو یہ کہہ کر بھی ٹال دیا جاتا تھا کہ یہ انگریز کی رسم ہے۔ لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ اس کی کمی ضرور محسوس ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، میری طرف سے تمام اہل اسلام کو ایڈوانس عید مبارک۔ پسند آئے تو شیئر ضرور کیجئے گا۔ شکریہ

 

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 156519 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More