آرایس ایس اور مسلم تنظیموں کا تاریخی پس منظر قسط 8, مجموعی تبصرہ

ہمارے لیے یقیناً یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ جس میڈیا کے سہارے آر ایس ایس اور بی جے پی پورے ملک کے مسلمانوں کو رسواوبندام کرنا چاہتے ہیں،بد قسمتی سے بیس کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کی نمایندگی کرنے والی ان مسلم تنظیموں کے پاس اپنی اور اپنے عوام کی بات رکھنے کے لیے بھی خود کا کوئی ٹی وی چینل نہیں ہے، جس پر وہ اپنے مذہب و مسلک کی بات کرسکیں،یا اس کی تبلیغ و تشہیر کرسکیں؛ بلکہ ان کے پاس خود کا کوئی اشاعتی ادارہ بھی نہیں ہے، جس کے تحت وہ اپنی فکر اور نظریہ کی تبلیغ کرسکیں۔ چلو اپنا نہ سہی، لیکن انہی میں سے کسی ایک کے ساتھ معاملہ طے کرکے میڈیا میں اپنا تو کوئی ترجمان بنا لیتے۔ لیکن صد افسوس کہ ہم نے شروع ہی سے اپنی ساری کوششیں انہی مسائل کو حل کرنے میں صرف کیں کہ تصویر کشی جائز ہے یا نہیں اور اگر یہ ناجائز ہے، تو پھر ان ناجائز چیزوں سے اسلام کی تبلیغ و تشہیر کا کیا حکم ہے؟ جبکہ آرایس ایس نےانہی ذرائع ابلاغ کواپنا کر انھیں ہمارے خلاف استعمال کیا اور اپنے مقصدکے حصول کے لیے جس دیدہ وری اور حیران کن طریقوں سے اپنے مشن کو عملی جامہ پہنایا، وہ یقیناً قابل رشک ہے۔
رمیض احمد تقی، انڈیا
Rameez Ahmad Taquee, India

آر ایس ایس کے زیرِ اثر میڈیا کی دوغلی پالیسی :
جہاں تک میڈیا کی بات ہے، تواس وقت ملک میں سیکڑوں ٹی وی چینلس اورنیوز ایجنسیاں ہیں جو 24 گھنٹے نیوز ٹیلی کاسٹ کرتے ہیں، تاہم مجموعی طور پر ان کی تعداد 116 ہے، جن میں ہندی نیوز چینلس22 ، انگلش 11 ، آسامیز8 ، بنگالی 10 ،کنڑ 8 ،ملیالم 10،مراٹھی 8 ، اوڑیا 10،پنجابی 3،تامل 10اور تیلگو 16 نیوز چینلس ہیں۔ میڈیا دراصل چار شعبوں: ٹی وی، نیوز،ریڈیو اور فلم کے مشترکہ پروگرامس کا نام ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں سے ملک کے سیاسی پس منظر میں میڈیا کاجو رول رہاہے،وہ کسی پر مخفی نہیں،کہ کس طرح اس نے جھوٹی خبریں پھیلا کر ہندومسلم کے درمیان اختلاف و انتشار کو ہوادیا،اورپورے ملک میں مسلمانوں کو رسوا و بدنام کیا۔ ہمیشہ صرف ایک نظریہ اور فکر کی ترجمانی کی اور انتخابات سے قبل بی جے پی کے لیے اقتدار میں آنے کی راہیں ہموار کی۔2018 کے اوائل میں کوبرا پوسٹ نےملک میں ایسے تمام ٹی وی چینلس، نیوز ایجنسیاں اور ہندی انگلش اخبار و میگزین کا ایک اسٹنگ آپریشن کیا تھا، جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ کس طرح سے مختلف نیوز اور ٹی وی چینل والے پیسے لے کر ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے تیار ہوگئے۔اس آپریشن میں کوبرا پوسٹ اسٹنگ آپریشن کے قابل صحافی پشپ شر ما نے شری مد بھگوت گیتاپرچار سمیتی کے پرچارک بن کر ملک کے ٹی وی چینلس، نیوز ایجنسیاں اور اخبار ورسائل کے مالکان اور ان کے مینیجروں سے ملاقات کی او رجب دوارنِ گفتگو ان سےبی جے پی اور ہندتوا کے ایجنڈا کو فروغ دینے کی بات کی،توحیرت کی بات یہ ہے کہ تقریباً سبھوں نے ہی اس بات کا اعتراف کیا کہ سنگھ اور بی جے پی کے ساتھ ان کے ذاتی تعلقات ہیں اوروہ ان کے ایجنڈا کو فروغ دینے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ کوبر اپوسٹ نے اپنے پروگرام 136 کے پہلے حصے میں ان نیوز چینلوں اور اخباروں کے مالکان کے بارے میں انکشاف کیا ہے جو آر ایس ایس اور بی جےپی کے ساتھ ساٹھ گانٹھ کرکے ہندوتوا ایجنڈے کی تشہیر کے لیے راضی ہوئے تھے۔ اس میں انڈیا ٹی وی، دینک جاگرن،پنجاب کیسری، ہندی خبر،سب گروپ، ڈی این اے، امر اجالا،نیوز ایجنسی یو این آئی، 9 ایکس ٹشن، سماچار پلس، ایچ این این لاییو 24، سوتنتر بھارت، ویب پورٹل اسکوپ ووپ، ریڈف ڈاٹ کام، انڈیا واچ، آج تک اور سادھنا پرائم نیوز وغیرہ کے نام ملتے ہیں،جو بلا شبہ ملک کی بڑی نیوز ایجنسیاں اور ٹی وی نیٹ ورک ہیں۔ ان کے علاوہ دوسرے حصے میں کوبرا پوسٹ نے ان چینلوں کے نام کا انکشاف کیا ہے، جن میں سب سے پہلے ٹائمس آف انڈیا، انڈیا ٹوڈے، ہندوستان ٹائمس، زی نیوز، نیٹ ورک 18، اسٹار انڈیا، اے بی پی نیوز، ریڈیو وَن، ریڈ ایف ایم، لوک مت، اے بی این آندھرا جوتی، ٹی وی 5، دن ملار، بگ ایف ایم، کے نیوز، انڈیا وائس، دی نیوز ایکسپریس، ایم وی ٹی وی، ٹی آئی اور اوپین میگزین وغيرہ ٹی وی چینل اور نیوز ایجنسیاں اس سازش میں ملوث نظر آئیں۔یہ ملک کے وہ مختلف کے مشہور ومعروف ٹی وی چینل، نیوز ایجنسیاں، اخبار اور ویب پورٹلس ہیں، جنہوں نے پسِ پرد ہ ہندوستان کے 134کروڑ عوام کے مستقبل کا بی جے پی اور آر ایس ایس کے ساتھ سودا کیا ہے۔ انہوں نے پیسوں کے عوض ہندوستان کی سرزمین کو ہندوتوا کے لیے ہموارکرنے، ان کی فکر اور نظریہ کی تشہیر کرنے،پھر اس کو سیاسی رنگ دے کر مخالف لوگوں اور پارٹیوں کی کردار کشی کرنے اور نئی نسل کے نوجوانوں کے ذہنوں میں مسلمانوں کے تیئیں نفرت و عداوت کی بیج بوکر ہندو مسلم فسادات کو ہوا دینے جیسے امور میں بی جے پی اور آر ایس ایس کے ساتھ مکمل حمایت کا وعدہ کیا ہے۔ کوبرا پوسٹ نے کورٹ کے اسٹے کے باوجود ان سارے میڈیا چینلوں کا کٹا چٹھاان کے ناموں کے ساتھ یوٹیوب پر اپلوڈ کردیا ہے،جن کو بڑی آسانی سے اب وہاں دیکھا جا سکتا ہے اور ضرور دیکھنا چاہیے۔ ان کی ایک لمبی فہرست ہے اوران تمام کو یہاں ذکر کرنا ممکن بھی نہیں ہے، تاہم اس مسئلہ کی حساسیت اور میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ حرکت کو بتانے کے لیے ایک دو واقعہ کو ذکرنا بہت ضروری ہے،تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ پیسے کے عوض کس طرح میڈیا جھوٹی خبروں کو کوریج دیتاہے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ جب رپورٹر پشپ شرما سادھنا پرائم نیوز کے ڈائریکٹر آلوک کمار بھٹ سےملے،تو دورانِ گفتگو اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ’وہ پیدائشی سنگھی ہیں اور کہا کہ ہندتوا کے ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے ہم سے جہاں تک ہوگا ہم کریں گے اور کرتے آرہے ہیں۔ آپ صرف اپنی ضرورت بتایے،اگر ہم نہ کریں تب نا! ـ‘‘ اس کے علاوہ پشپ شرما نے انڈیا ٹوڈے انپیکٹ کے مینیجر ہشام علی خان سے بھی ملاقات کی ۔بات چیت کے دوران ہشام علی خان نے کہا :
"My only motive is, my only vision is and my only objective is that BJP has to come in power."
’’میرا صرف ایک ہی مقصد ہے، صرف ایک مطمح نظر اور دلی تمنا ہے کہ بی جے پی اقتدار میں آجائے۔‘‘
آج جو پورے ملک میں مودی لہر،بی جے پی اور آرایس ایس کا شور و غوغا ہے، اس کے پسِ پردہ دراصل اسی گودی اور بکاؤ میڈیا کا جادو ہے،جس کا حقیقت سے کوئی دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ دَ وائر کی ایک تحقیق کے مطابق پوے ملک میں اسمبلی کی تقریباً 4139 نششتیں ہیں،جن میں بی جے پی کے پاس صرف 1516 نششتیں ہی ہیں،مگر گودی اور بکاؤ میڈیا نے بی جے پی اور مودی لہر کو اس طرح پیش کیا کہ گویا پورا ملک بی جے پی کی گود میں ہو۔

دراصل گذشتہ چند دہائیوں سےمیڈیا نے اپنے اوپر ایک خاص نظریہ کا خول چڑھا لیا ہے، اور ہر رطب و یابس کو وہ اسی نظر سے دیکھتا ہے،جس میں اسے اس دنیا کا ایک شریف انسان بھی دنیائے ظلم کا بادشاہ نظر آتا ہے،اور پھر اسے تختۂ دار تک پہنچانے میں وہ کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ سبھاش گتاڑے اپنی کتاب’گوڈسے کی اولادبھارت میں بھگوا دہشت گردی ‘‘کے صفحہ:195پرلکھتے ہیں:’’میڈیا سے واقعے کے بارے میں اطلاعات فراہم کرنے کی توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان تفصیلات کو سامنے لائے گا جن کا ذکر نہیں کیا گیا ہے اور ان مختلف کڑیوں کو جوڑے گاجن کا اس کیس سے تعلق ہوگا،لیکن ایسے بہت سے مواقع آئے ہیں،جب میڈیا نے ڈیموکریسی کے ایک رکھوالے کے طور پراپنے فرائض ادا کرنے کی بجائے واقعے کو دوسرے طریقے سے کَوَر کرنے کا راستہ اختیار کیا۔‘‘ آگے وہ مزید لکھتے ہیں: ’’میڈیا بھی پولیس کے نقش قدم پر چلتا نظر آتا ہے۔ اس کا پورا زور بجرنگ دل سے توجہ ہٹانے اور دوسری اصلی یا خیالی دہشت گرد تنظیموں اور بنگلہ دیشی مزدوروں کو نشانہ بنانے پر رہا۔ اگر کوئی اس مخصوص تاریخ کے آس پاس شائع ہونے والے اخبارا ت کا جائزہ لیتا ہے،تو یہ صاف ہوجاتا ہے کہ میڈیا دھماکوں کو کس طرح دکھاناچاہتا ہے۔‘‘

بہر کیف ہمارے لیے یقیناً یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ جس میڈیا کے سہارے آر ایس ایس اور بی جے پی پورے ملک کے مسلمانوں کو رسواوبندام کرنا چاہتے ہیں،بدقسمتی سے بیس کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کی نمایندگی کرنے والی ان مسلم تنظیموں کے پاس اپنی اور اپنے عوام کی بات رکھنے کے لیے بھی خود کا کوئی ٹی وی چینل نہیں ہے، جس پر وہ اپنے مذہب و مسلک کی بات کرسکیں،یا اس کی تبلیغ و تشہیر کرسکیں؛ بلکہ ان کے پاس خود کا کوئی اشاعتی ادارہ بھی نہیں ہے، جس کے تحت وہ اپنی فکر اور نظریہ کی تبلیغ کرسکیں۔ چلو اپنا نہ سہی، لیکن انہی میں سے کسی ایک کے ساتھ معاملہ طے کرکے میڈیا میں اپنا تو کوئی ترجمان بنا لیتے۔لیکن صد افسوس کہ ہم نے شروع ہی سے اپنی ساری کوششیں انہی مسائل کو حل کرنے میں صرف کیں کہ تصویر کشی جائز ہے یا نہیں اور اگر یہ ناجائز ہے،تو پھر ان ناجائز چیزوں سے اسلام کی تبلیغ و تشہیر کا کیا حکم ہے؟ جبکہ آرایس ایس نےانہی ذرائع ابلاغ کواپنا کر انھیں ہمارے خلاف استعمال کیا اور اپنے مقصدکے حصول کے لیے جس دیدہ وری اور حیران کن طریقوں سے اپنے مشن کو عملی جامہ پہنایا، وہ یقیناً قابل رشک ہے۔ آرایس ایس اور اس سے منسلک دوسری بھگوا دہشت گرد تنظیموں نے ایک ٹارگیٹ اور اس کے لیے پورا پلان تیار کرکے ہندوستان سے مسلمانوں کے خاتمہ اور ہندوراشٹر کا خواب سجایا، جبکہ ہماری ان تنظیموں کا سرے سے کوئی ٹارگیٹ اور ہدف تھا ہی نہیں، تو وہ کس چیز کے لیے لائحۂ عمل تیار کرتیں، البتہ انہوں نے جلسۂ وجلوس ہی کو امت کے حق میں بہتر سمجھا، سو اس میدان میں صدسالہ اور چالیسویں تقریبات منعقد کرکے خوب واہ واہیاں لوٹیں۔ انھوں نےاس بات کی پرواہ نہیں کی وہ جس ملک میں قیام پزیر ہیں، اس میں ان کا وہ طریقہ کتنا کامیاب ہوسکتا ہے؟ بلکہ آزادی کے بعد سے اب تک اس ملک کے لاکھوں مسلمان یہی نہیں سمجھ سکے ہیں کہ آخر ان کا مقصدِ حیات کیاہے؟ آج بھی اس ملک میں سیکڑوں مسلم نوجوان ایسے ہیں جنہیںاسلام کے بنیادی اصولوں کے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں۔یہ تو بہت دور کی بات ہے، ہزاروں لوگ ،بلکہ اسکولوں میں پڑھنے والے سیکڑوں ایسے بچے مل جائیں گے ،جنہیں اپنےنبی محمد ﷺ کے نام تک کا بھی علم نہیں ہوگااور ہماری ان تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اس ملک میں بڑے بڑے معرکے سر کیے ہیں۔ اگر واقعی انہوں نے اس معاملے میں اپنا اخلاص دکھلایا ہوتا، توآج اس ملک کے ساٹھ فیصد مسلمان تعلیم سے نا آشنا نہیں ہوتے؛ بلکہ ملک کی موجودہ سیادت و قیادت میں ان کا ایک وقار ہوتا اور اپنے حقوق کی حصول یابی کے لیے وہ کبھی مجبورِ محض نہیں ہوتے، بلکہ حکومتیں خود ان کے پاس آتیں اور ان کے مطالبات پوری کرتیں، مگر مسلمانوں کی موجوہ صورتِ حال سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے کتنا کام کیا ہے، یا صرف وہ کتابی جملے ہیں۔۔۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Rameez Ahmad Taquee
About the Author: Rameez Ahmad Taquee Read More Articles by Rameez Ahmad Taquee: 89 Articles with 65798 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.