حضرت مولاناحسین علی ؒمیانہ

سرزمین میانوالی کو علمی و ادبی حوالوں سے بہت زرخیز مانا جاتاہے، اس مٹی نے کئی نامور سپوتوں کو جنم دیا۔ اسی مٹی کی ایک عظیم پہچان مولانا مولانا حسین علی ہیں،آج آپ کومولانا حسین علی ؒ کے علمی سفر کی مکمل روداد سناتے ہوئے ان کی شخصیت بارے آگاہ کرتے ہیں۔

مولانا حسین علی ؒ 25مارچ1867ء بمطابق 19ذیقعد1283ھ بروز ہفتہ واں بھچراں کے زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔والد کا نام محمد تھا جو حافظ قرآن تھے مولانا حسین علی ؒکا شجرہ نسب کچھ اس طرح ہے۔مولانا حسین علی ؒبن حافظ محمد بن حافظ عبداللہ بن حافظ الیاس بن حافظ زکریابن حافظ امام دین۔اس لحاظ سے ان کا خاندان کئی پشتوں سے حافظ قرآن چلا آ رہا ہے اور شاید یہی وجہ ان کے خاندان کے میانہ مشہور ہوجانے کی ہے۔پنجاب میں مولوی اور حفاظ گھرانوں کو میانے کہتے ہیں۔میانے راجپو ت بھٹی خاندان کی ذیلی شاخ ہے۔اس زمانے میں عربی اور فارسی نظام تعلیم کارواج تھا۔ چنانچہ آپ کے والد نے فارسی اور نحو کی کتابیں گھر پر ہی پڑھائیں،منطق و حمداللہ وغیرہ کی کتابیں شادیہ کے مدارس میں مولانا غلام نبی اور مولانا سلطان احمد سے پڑھیں۔اٹھا رہ سال کی عمر میں دورہ حدیث کیلئے ہندوستان کا سفر کیا۔حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے 1302ھ (1885ء) میں دورہ حدیث کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی۔سہارن پور سے کانپور تک کے سفر میں مختلف علماء سے سیکھتے رہے 1887ء یعنی1304ھ میں بیس کتابوں کا امتحان دیا اور پانچ ممتحنین کے سوالات کے جوابات دیے۔مدرسہ کانپور میں آپ نے اول پوزیشن حاصل کی۔

1889ء میں اپنے آبائی وطن واں بھچراں میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔آپ کے پاس اردگرد کے اضلاع سے بھی شاگرد آنے لگے۔شروع شروع میں آپ صرف و نحو کی کتب پڑھایا کرتے تھے۔مگر کچھ عرصہ بعد خود کو قرآن پاک کے ترجمہ و تفسیر اور تدریس حدیث کے لیے وقف کر دیا۔بیس سال کی عمر میں تلاش مرشد کی فکر ہوئی تو مجددی نسبتوں کے امین حضرت خواجہ محمد عثمان دامائی متولی و نگران خانقاہ احمدیہ سعیدیہ موسٰی زئی شریف کے پاس گئے جن کے بارے میں خواب میں اشارے ہوئے تھے۔

مولانا حسین علیؒ کو نام و نمود قطعا پسند نہ تھا۔طبیعت میں سادگی تھی۔ان جان شخص انہیں معمولی کسان سمجھتا تھا۔مقامی زبان میں گفتگو انہیں بھلی لگتی تھی۔زمینوں میں خود ہی ہل جوتتے،جانوروں کا چارہ تیار کرتے اورمکانوں کی لپائی تک خود کرتے تھے۔ہمیشہ طالب علموں میں بیٹھ کر کھانا کھاتے۔
آپ کی تصانیف کی تعدادکا صحیح اندازا تو نہیں لگایا جا سکتا تاہم آپ نے تفیسر و اصول تفسیر،حدیث،فقہ،عقائداورتصوف و سلوک جیسے اہم موضوعات پر کئی اہم مضامین اور نایاب کتابیں لکھیں۔ ان میں بلغتہ الحیران فی ربط آیات القرآن۔البیان فی ربط القرآن (تفسیر بے نظیر)۔عربی میں لکھی گئی تلخیص الطحاوی،تحریرات حدیث،تقریر الجنجوہی علی صحیح البخاری، تقریر الجنجوہی علی صحیحصحیح المسلم۔ عون المعبود علٰی سنن ابی داؤد۔رسالہ جرید تین۔رسالہ خمس اوسق۔رسالہ رفع سبابہ،تحفہ ابراہیمیہ اور حواشی فوائد عثمانی کے علاہ درجنوں اور بھی ہیں۔مولانا کی یہ کتابیں عربی فارسی اور اردو میں ہیں،بہت سا غیر مطبوعہ مواد اب بھی موجود ہے جسے کتابی شکل بوجوہ نہیں دی جا سکی۔مولانا صاحب کے خاندان اور شاگردوں سے گزارش ہے کہ غیر مطبوعہ مواد کو کتابی شکل دی جائے تاکہ آنے والی نسلیں اس سے مستفید ہو سکیں۔ مولانا حسین علی ؒنے اپنی پوری زندگی اسلام کی تعلیمات کے لیے وقف کر دی تھی، انہوں نے ہمیشہ عام، سادہ طرز زندگی کو اختیار کیا۔ وہ مسائل اور ان کے جوابات کو عام فہم زبان میں بیان کرتے تھے۔

حضرت مولانا کے پسماندگان میں اہلیہ محترمہ کے علاوہ پانچ صاحبزادگان تھے۔جن کے نام یہ ہیں مولوی صدر الدین،مولانا محمد صادق،مولانا حافظ عبدالرحمن،مولانا حافظ عبداللہ اور مولانا عبدالرازاق۔مولوی صدر الدین اور حافظ عبداللہ تو غالبا حضرت صاحب کی زندگی میں ہی انتقال فرماگئے تھے۔مولانا محمد صادق صاحب نے اس درسگاہ کو قائم رکھا اور عمر بھر اپنے والد کے مشن کی تبلیغ و اشاعت میں گزار دی۔25جون 1944بمطابق 4رجب 1363ھ واں بھچراں کی صحرائی درسگاہ میں اس عالم ربانی وقف اسرار حقانی،داعی توحید اور مفسر قرآن نے انتقال فرمایا،اگلے روز نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں علاقہ اور گردو نواح کے بڑے بڑے عباد و زہاد نے شرکت فرمائی۔
حضرت مولانا کے شاگرد خاص شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان نے نماز جنازہ کی امامت کی۔نماز کے بعد اسی درسگاہ (ڈیرہ حسین علی والاواں بھچراں میانوالی) کے احاطہ میں انہیں سپرد خاک کر دیا گیا۔
 

Qaiser Iqbal
About the Author: Qaiser Iqbal Read More Articles by Qaiser Iqbal : 6 Articles with 6063 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.