ٹائیگر فورس۔۔۔متنازع کیوں؟؟؟

کورونا وائیرس ریلیف ٹائیگر فورس بنانے کا وزیراعظم نے عندیہ ہی دیا تھا کہ اس رضاکار فورس پر معترضین نے اعتراض کیے مخالفین۔نے مخالفت کی۔ اپوزیشن کے بڑے بڑے رہنماوں نے اس منصوبے کو احمقانہ اور سیاسی قرار دیا۔ وزیراعظم کی جانب سے جاری کردہ اس منصوبے کا حصہ بننے کے لے بڑی تعداد میں نوجوانوں نے خود کو رجسٹر کروایا۔ رجسٹریشن کے لے citizen portal ڈاؤن لوڈ کر کے رجسٹریشن فارم فل کرنا ضروری ہے جس میں رضاکار کے تمام کوائف درج کئے جاتے ہیں۔ اب تک سات آٹھ لاکھ نوجوان رجسٹر ہو چکے جبکہ رجسٹریشن کا وقت ۱۵اپریل تک بڑھایا جا چکا ہے۔ وزیراعظمکے شعبہ یوتھ افئیر کے ترجمان صالح خان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے تمام اعتراضات بے بنیاد ہیں ۔ ٹائیگر فورس علاقے کے ڈی پی او کو جواب دہ ہو گی اور ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرے گی تاہم انہیں کسی قسم کی مراعات نہپں دی جائیں گیں۔

لیکن!!! سوال یہ ہے فورس غنائے جانے سے پہلے ہی متنازع کیوں ہوئی؟؟ اور اس سے بھی اہم سوال کہ جو حکومت گھر گھر بل پہنچا سکتی ہے مردم شماری کروا سکتی ہے اسے اتنی بڑی تعداد میں رضاکاروں کی ضرورت ہے بھی؟؟ اور یہ ضرورت کیوں محسوس ہوئی جبکہ لال ڈاؤن کی وجہ سے بڑی تعداد میں سرکاری عملہ گھروں میں بیٹھا ہے اور حکومت سے basic pay وصول کر رہا ہے۔ کیا یہ کام کرنے کے لیے ہم سرکاری سکول ٹیچرز کو ہائیر نہیں کر سکتے تھے؟؟ یا سکاؤٹس اور گرلز گائیڈ کی تنظیمیں جو ہر کالج میں موجود ہیں اور انہیں مقاصد کے لیے تیار کی جاتی ہیں ان سے یہ کام نہیں لیا جاسکتا؟؟ اور یہی نہیں اگر آپ اپنے اساتذہ اور طلبہ سے یہ کام نہیں لے سکتے سرکاری عملے کو تعینات نہیں کرتے یا اعتبار نہیں کرتے؟؟؟ تو کیا الخدمت فاونڈیشن اور ایدھی جیسی این جی اوز کے رضاکاروں سے بھی مستفید نہیں ہو سکتے تاکہ وقت کے ضیاع سے بچا جا سکتا؟؟

آج لاک ڈاؤن کو بیس دن ہو چلے لیکن ٹائیگر فورس کہاں ہے؟کیا حکمت عملی ہے؟ کب بنے گی؟ کتنے دنوں میں راشن تقسیم کرے گی؟ مستحقین کس طرح اپنی رجسٹریشن کروا سکیں گے؟ جبکہ جس گھر میں روٹی نہیں ؤہاں موبائل کا کیسے گمان کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر رجسٹریشن کروا بھی کیں تو وریفکیشن کا طویل سفر طے کرنا محال ہے۔ فنڈ کس کے ہاتھ جائے گا؟ بدنظمی یا بے ضابطگیوں سے بچنے کے لیے کیا قانون ہو گا؟؟ انگوٹھے کے وریفکیشن ہو بھی جائے تب بھی کرپٹ عناصر اپنا کام دکھا کر رہیں گے۔ رآقم الحروف کی ادنی رائے میں ایک سرکاری ملازم۔کو اپنی نوکری بچانے کے لے ایمانداری دکھانی پڑتی ہے جبکہ ایک سیاسی تنظیم کے حکومتی رضاکار کیسے ایمانداری کے ساتھ منصفانہ اور عادلانہ تقسیم کر سکتا ہے؟

اٹھتے سوالوں میں اس فورس کا نام بذاتِ خود ایک سوالیہ نشان ہے۔ کیا اس کا نام ٹائیگر فورس رکھنا ضروری تھا؟ یہ بات مخفی نہیں کہ عمران خان اپنی سیاسی تقاریر میں بیشتر مرتبہ اپنے کارکنان کو میرے ٹائیگرز ہی کہا کرتے تھے۔ پی ٹی آئی کے کارکنان بھی انصاف ٹائیگر فورس کے نام سے سوشل میڈیا پر انتخامی مہیم چلایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ حکومت نے بھی اس نام پر اعتراض کیا اور سید ناصر شاہ نے اس کانام پاکستان والنٹئیر فورس رکھنے کی تجویز دی ۔

دوسری جانب میاں رضاربانی اور فضل الرحمٰن نے اسے سیاسی قرار دیتے ہوئے مکمل مسترد کر دیا ہے۔ میاں رفا ربانی کے مطابق قومی ہم۔آہنگی وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن کوئی قومی تعاون پالیسی نظر نہیں آ رہی۔ ان کے مطابق حکومت کو سندھ حکومت کی طرح "محلہ کمیٹیاں " تشکیل دینی چاہئیے تھی۔ سیاسی قائدین اور مخالفین تو ایک طرف خود عوام میں بھی اس متعلق یاسیت اور نومیدی پائی جاتی ہے۔ ہو کوئی اس شش و پنج میں مبتلا ہے کہ اور کتنا وقت لگے گا؟ کیا اس وقت تک غریب اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لے؟ ایسے میں الخدمت اور دیگر سماجی تنظیمیں لائق تحسین ہیں۔ سراج آلحق صاحب کی یہ بآت من و عن درست ہے کہ حکومت کو پہلے ہفتے میں ہی مستحقین تک پندراں دنوں کا راشن پہنچا دینآ چاہئیے تھا تاکہ لاک ڈاون کے اصل مقاصد اور فوائد حاصل کیے جا سکتے۔

اب کیا غریب لاچار ماں اپنے بھوکے بچوں کو یہ کہہ کر سلائے کہ بیٹا کچھ دن اور ٹہر جاو ٹائیگر فورس بنے گی پھر ہم رجسٹر ہوں گے پھر راشن ملے گا پھر ہم بھی کھانا کھائیں گے۔ ؟؟؟

Hafsa Saqi
About the Author: Hafsa Saqi Read More Articles by Hafsa Saqi: 49 Articles with 43276 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.