بہت مبارک ہو

قرآن مجید میں ازلی ابدی سعادتوں کی ایک فہرست کا تذکرہ ہے، مختصر سی فہرست ہے مگر ان سعادتوں کا حصول اور ان تک وصول کافی مشکل کام ہے خصوصاً ان تمام خوش بختیوں کا جامع ہونا۔ اس لیے انہیں پانے والوں کی فہرست بھی ہر زمانے میں مختصر سی ہی ہوتی ہے۔ آئیے آج اس فہرست کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کے ان قلیل بندوں میں سے ایک کی یاد سے اپنے دلوں کو منور کریں اور آنکھوں کو غسل دیں۔

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا !

باب سعادات یہی سعادت ہے، ایمان والا ہونا اور جہاں تک ہم جانتے ہیں وہ ایک سچے پکے مومن تھے۔ ایک ایمان ہے اللہ تعالیٰ کو مان لینا اور ایک ایمان ہے اللہ تعالیٰ کا ہو جانا۔ اونچے درجے کے مومن، سچے مومن بلکہ ایسے مومن جنہیں دیکھ کر ایمان کی حقیقت سمجھ میں آتی ہے وہ ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کو مان کر اسی کے ہو جاتے ہیں اور وہ ایسے مومن تھے، انہوں نے اللہ کو مانا تو یوں کہ پھر کس کو نہ مانا، وہ ایمان کے امتحانوں سے گزرے اور کامیاب ہوتے چلے گئے۔ قل آمنت باللّٰہ ثم استقم، یہاں استقامت دیکھی اور پرکھی جاتی ہے انہوں نے دکھا دی، وہ ہر طرح کے ایمان شکن علائق کے قریب سے گزرے مگر پائوں کی ٹھوکر پر اڑاتے چلے گئے، بے حساب دولت، آزادی، اونچا خاندان، بادشاہوں جیسی زندگی، یہ ساری چیزیں اللہ کا ہوجانے سے روکنے والی ہیں مگر
یہ دیوانہ اڑا دیتا ہے ہر زنجیر کے ٹکڑے

وہ ان سب کو تج کر اللہ کے ہوگئے۔ پھر فرعونوں سے ٹکر، خوف، آگ کی بارش، دربدری، بدنامی، اندرونی بیرونی سازشیں ایمان کا امتحان لینے آئیں مگر ہر وقت اللہ اکبر ہر جگہ اللہ اکبر، ہر ایک کے سامنے اللہ اکبر، جی ہاں مٹھی بند رہتی اور شہادت کی انگلی ہمیشہ ’’ایمان‘‘ کا اعلان کرتی نظر آتی۔ وہ نہ مال و دولت کی وجہ سے ایمان سے دور ہوئے نہ خوف ان کے پاؤں ہلا سکا، وہ نہ کسی لالچ کے نرغے میں آئے اور نہ ہی شہرت ان کے ایمان کو کھا سکی۔ بے شک انہوں نے سعادت ایمان کو پایا، انہیں بہت مبارک ہو۔

وَھَاجَرُوْا !

اللہ رب العزت کے دین کی سربلندی کے لیے گھر بار چھوڑ دینا بہت بڑی سعادت ہے، ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے آقا مدنی محمد رسول اللہﷺ تک انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت، اللہ رب العزت کی رضا کی علامت، اور غالباً دنیا میں پیش آنے والی سب سے بڑی مشقت۔ اور خاص طور پر جب یہ ہجرت ان مقدس جگہوں سے ہو جہاں بسنے کا خواب ہر مومن کے دل میں بسا اور آنکھوں میں سجا رہتا ہے تو مشقت اور صبر کا عالَم کیا ہوتا ہوگا؟

ہم اور آپ کیا جانیں۔ کوئی بات تو تھی کہ آقا مدنی ﷺ کی آنکھیں مکہ مکرمہ کو چھوڑتے ہوئے برس پڑی تھیں ۔اور انہیں تو کئی ہجرتوں کی سعادت ملی، دارالھجرۃ مدینہ طیبہ سے ہجرت، سوڈان سے ہجرت، الجزائر سے ہجرت اور پھر افغانستان سے ہجرت، ایک طویل ہجرت، ایک صبر آزما ہجرت، خوف والی ہجرت اور تنگیوں والی ہجرت۔ انہوں نے اللہ رب العزت کے اس خاص انعام سے بہت وافر حصہ پایا اور اس انعام والے راستے پر چلتے ہی رہے نہ بیماری انہیں تھکا سکی اور نہ بڑھاپا، نہ سخت حالات ان کے پائے استقلال میں لغزش برپا کر سکے اور نہ قدم قدم پر منہ کھول کر کھڑے خطرات۔ جب بھی ہجرت کا موقع آیا اللہ کے اس بندے کا سامان تیار پایا گیا۔ بے شک ہجرت در ہجرت اللہ رب العزت کا خاص انعام ہے جو خاص بندوں کو نصیب ہوتا ہے اور انہوں نے اس انعام کو خوب پایا انہیں مبارک ہو۔

وَجٰھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ !

اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنے مال اور جانیں خرچ کر کے اس کے دشمنوں سے لڑنا۔

اس سعادت کے تو کیا کہنے، وہ کونسی سعادت ہوگی جو اس کے برابر ہوجائے، انسانوں کو فرشتوں سے اونچا کر دینے والا عمل، بندے کو لمحوں میں رب سے ملا دینے والا کام، بلندی ہی بلندی، عظمت ہی عظمت۔ اور پھر اس بندے کا کیا کہنا جس کا تعارف ہی یہ عمل بن جائے۔ جہاد کا ایک لمحہ، صرف اتنا وقت جتنے میں اونٹنی کے تھنوں میں دودھ واپس آجاتا ہے مغفرت اور جنت کے واجب ہونے کا پروانہ بن جاتا ہے تو اس مجاہد، کل وقتی مجاہد کی عظمت کا پیمانہ کیا ہوگا جس کا نام زبان پر آئے تو حوالہ صرف اور صرف جہاد ہو، جہاد اور وہ لازم و ملزوم بن چکے ہوں، ہاتھ ہر وقت گھوڑے کی لگام پر اور کان دشمن کی طرف متوجہ ، جدھر سے حی علی الجہاد کی آواز سنے اس طرف لپک پڑے، کیا اس مجاہد کا مقام ماپنے، اندازہ کرنے کا کوئی آلہ ہو سکتا ہے؟

اور پھر اس میدان میں کسی کا محض مال قبول ہوتا ہے اور کسی کی محض جان۔ کچھ بہت خاص سعادتمند ایسے ہوتے ہیں جن کا سب کچھ قبول کر لیا جاتا ہے۔ سارا کا سارا مال، اکثر اولاد، اپنی جان، زندگی کا بیشتر وقت، سبحان اللہ سبحان اللہ، ایسا شخص سعید نہیں اسعد السعداء ہوتا ہے یعنی سب سے بڑا خوش بخت۔ اور جیسا کہ دنیانے دیکھا ہم سب نے دیکھا وہ ایسے ہی تھے انہیں مبارک ہو۔

وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْآ !

اللہ کے راستے کے مہاجرین کو پنا دینا، مجاہدین کو ٹھکانہ فراہم کرنا۔

اس سعادت کی تفصیل کیا بیان کی جائے۔ اتنا کافی ہے کہ مدینہ طیبہ اور مدینہ والے اللہ کے نبی حضرت محمدﷺ کی نظر میں اسی عمل کی بدولت اتنے محبوب ہو گئے کہ آپ نے اسی شہر کے شہروالوں کو ہمیشہ کے لیے اپنا لیا۔ یوں مدینہ آپ ﷺ کا شہر بن گیا، آپ آقا مدنی ﷺ کہلاتے ہیں اور اہل مدینہ آپ کے اہل بن گئے۔ اور ان کے لیے زبان مبارک سے یوں ارشاد ہوا ’’اگر لوگ ایک وادی میں چلیں گے اور انصار دوسری میں تو میں انصار والی وادی میں ہی چلوں گا‘‘۔

اسی عمل نے پوری امت کے دلوں کو حضرات انصار کی محبت اور احسان مندی سے بھر دیا، آج ان کی محبت صرف ایمان کی نشانی ہی نہیں ایمان کی شرط بھی ہے۔ اور اللہ کے اس بندے پر تو عجیب کرم ہوا۔ اسے خود مہاجر ہوتے ہوئے زمانے بھر کا انصار ہونے کی سعادت ملی۔ وہ خود دربدر رہا مگر دنیا بھر کے دربدر لوگوں کا ٹھکانہ ان کا مأوی اور ملجأ بنا رہا۔ شاید شاعر نے ایسے ہی اضداد کے جامع کسی شخص کے بارے میں کہا ہوگا۔

ولیس علی اللّٰہ بمستنکر
ان یجمع العالم فی واحد

ان کی ذات میں بھی خلاّق عالَم نے اسی طرح عالَم کو جمع کر دیا۔ ساری دنیا سے جو شخص دین کے نام پر ہجرت کرکے ان کے پاس آجاتا دروازہ کھلا پاتا اور دسترخوان وسیع۔ وہ سوڈان میں تھے تب بھی یہی عالَم تھا اور اس سے پہلے جب افغانستان میں روس کے خلاف جہاد ہو رہا تھا تب بھی، اور جب خود انہیں امیر المؤمنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ اور طالبان جیسے وسیع القلب انصار مل گئے تو ان کا مہمان خانہ بہت وسیع ہوگیا۔ وہ دنیا بھر کو مطلوب ترین ’’مجرم‘‘ تھے لیکن اس بات کو کبھی خاطر میں نہ لائے کہ ’’انصار‘‘ کا یہ کردار ان کی ’’فرد جرم‘‘ میں اور اضافہ کرتا جا رہا ہے، اسے مزید سنگین بنا رہا ہے۔ وہ تو سعادتوں کے پیچھے بھاگنے والے بندے تھے اور ہر سعادت سے اپنی جھولی خوب بھرنا چاہتے تھے سو وہ بے پرواہ ہوکر اپنے کام میں لگے رہے۔ اور بندہ لینے والا ہو تو رب کریم کے پاس دینے کی کوئی حد نہیں، سو وہ ہجرت کے ساتھ ’’نصرت‘‘ کی سعادت سے بھی خوب نوازے گئے انہیں مبارک ہو۔
آئیے اسی فہرست کو ایک دوسری آیت میں پڑھتے ہیں۔

وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ

اپنے گھروں سے نکالے گئے۔

وہ ایک بار نہیں کئی بار اس امتحان سے گزرے ، انہیں مبارک ہو۔

وَاُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ

اور میرے راستے میں ستائے گئے۔

اللہ کے راستے میں سب سے زیادہ انبیاء کرام علیہم السلام ستائے جاتے ہیں اور ان میں ہمارے آقا مدنی ﷺ سب سے زیادہ اور سخت انداز میں ستائے گئے۔

لقد اوذیت فی اللّٰہ وما اوذی احد مثلی

اور پھر جو انبیاء کرام علیہم السلام کے راستے کے جتنا قریب ہوتا ہے اسی قدر اس سنت سے حصہ پاتا ہے۔ سو انہوں نے اس سعادت س بھی خوب حصہ پایا۔ وہ جسمانی اذیتوں سے بھی خوب گزرے اور زبانی اذیتوں سے بھی، کافر تو ان کے درپے تھے ہی مگر ہر کچھ عرصے کے بعد مسلمانوں میں بھی ان کے بارے میں ایسے شکوک و شبہات پھیل جاتے جن کا ذکر بھی شرمناک ہے۔ کئی اہل علم اور دیندار لوگ بھی ان کے بارے میں اپنی زبانوں اور قلموں کو محفوظ نہ رکھ سکے۔ اور ایسا محض ان کے ساتھ تو نہ ہوا بلکہ اس دنیا کے ہر حقیقی اور اصلی بڑے انسان کے ساتھ ہوتا آرہا ہے۔

لحی اللّٰہ ذی الدنیا مناخالراکب
فکل بعید الھم فیہا معذب

سو ان کے ساتھ بھی ہوا اور وہ خوب ستائے گئے مگر دین کی خاطر اور یہ بات انہیں بہت مبارک ہو۔

وَقاتَلُوْا !

انہوں نے اللہ کے راستے میں قتال کیا۔ نوجوانی سے بڑھاپے تک، صحت سے بیماری تک اور جہاد سمجھ میں آنے سے دم واپسیں تک وہ میدان میں رہے ، انہیں مبارک ہو۔

وَقُتِلُوْا !

اور اللہ کے راستے میں قتل کر دئیے گئے۔

تمام سعادتوں کی انتہا اور تکمیل یہی تو ہے۔ تفصیل کیا عرض کریں قرآن پاک پڑھ کر دیکھ لیجئے ایک مضمون کیا احاطہ کر سکتا ہے۔ ہمیں تو اب تک یقین نہیں آتامگر دشمنوں کا اصرار ہے کہ اس ازلی سعید نے اس سعادت کو بھی پالیا۔ اگر ایسا ہے تو انہیں بہت بہت مبارک ہو۔ اس راہ کے تھکے ہارے مسافروں کے لیے آرام و سکون کی یہی تو ایک صورت ہے۔ دربدر پھرنا، ملکوں ملکوں کی خاک چھاننا، پہاڑوں، وادیوں، صحرائوں، سمندروں اور میدانوں میں دیوانہ وار جھپٹنا پلٹنا، سب اسی لیلیٰ کی تلاش میں تو ہوتا ہے۔
سو اگر ایسا ہوا ہے تو انہیں بہت مبارک ہو۔

ہاں! امریکی صلیبی خوش نہ ہوں۔ انہیں پتا ہونا چاہیے کہ اس آخری سعادت کو پالینے والے کبھی نہیں مرتے۔ انہوں نے اپنے دشمن کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا ہے۔ وہ اسے مارنا چاہتے تھے مگر الٹا کام کربیٹھے۔ ہمیں یقین ہے سو فیصد یقین کہ نتیجہ بھی ان کے گمان سے الٹا ہی نکلے گا۔ مجاہدکے خون کی خوشبو روئے زمین کی ہر سعید روح کو میدانِ جہاد کی طرف کھینچ لاتی ہے اور یہ تو مجاہدین کے ایک محبوب ترین قائد کا خون ہے، یہ کیسے طوفان اٹھائے گا اس کا معاملہ مستقبل کے مشاہدے پر چھوڑتے ہیں۔ خوش نہ ہو، جشن نہ منائو، دنیا میں تمہارے لیے خوشیوں کے دن ختم ہوتے جارہے ہیں۔ تمہاری یہ خوشیاں کتنے دلوں کو جلا رہی ہیں اور جب ان کا غبار نکلا تو تم جل کربھسم ہو جائو گے۔

یاد رکھنا! جس شخص کی عارضی اور مستعار زندگی تمہارے لیے خوف اور دہشت کا نشان بن گئی تھی اسکی حقیقی اور دائمی زندگی تمہارے لیے کتنی خطرناک ہوگی یہ تم سوچ بھی نہیں سکتے۔

اس پوریے قضیے میں یہ سب کچھ سمجھ میں آتا ہے، واللہ خوب سمجھ میں آتا ہے، پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ سمجھ میں آتا ہے۔ بس ایک بات ہے جو سمجھ میں نہیں آرہی اور باوجود ہزار کوشش کے نہیں آرہی۔

جب ہم انہیں مبارک باد پیش کر رہے ہیں تو ہم رو کیوں رہے ہیں؟

آنسو کیوں نہیں تھم رہے؟

ان کا خوبصورت سراپا نظروں میں گھومتا ہے اور پیاری سی آواز کی یاد کانوں میں رس گھولنے لگتی ہے تو چیخیں کیوں نکل جاتی ہیں؟ جب سے یہ خبر سنی ہے ہم خلوت میں کیوں نہیں بیٹھ پا رہے ؟

ہاں! یہ بات بالکل سمجھ نہیں آرہی۔

ازحال خود آگاہ نیم جزایں قدردانم کہ تو
وانگاہ بخاطر بگزری اشکم زداماں بگزرد
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 194733 views A Simple Person, Nothing Special.. View More