مریضِ جاں

کچھ روگ جان لیوا بھی ہوتے ہیں !

مقامی شادی گھر میں پر مسرت تقریب کا ہنگامہ زوروں پر تھا ۔میرے نظریں اسی لڑکی پر جمی ہوئ تھیں۔پورے پنڈال میں وہ یقیناً منفرد نظرآرہی تھی ۔میرے نگاہوں کی تپش کو اپنے چہرے پر محسوس کرتے ہوئے اس لڑکی نے مڑ کر میری طرف دیکھا۔وہ مومل نہیں تھی ۔شرمندہ سی ہو کر میں نے اپنی نگاہیں چرا لیں ۔اب تو کئی سالوں سے یہی میرا حال تھا ۔جہاں کہیں کسی نازک اندام ،سرو قامت اور سرخ و سپید لڑکی کو دیکھا وہیں اس پر نگاہیں اٹکا کر زمان و مکان سے بے خبر ہو کر ماضی کا سفر شروع کر دیتا ۔میری اس غائب دماغی کی وجہ مومل ہی تھی ۔حالانکہ اس دغاباز لڑکی کی دوستی کو چھٹے ہوئےاب تو عرصہ ہی ہو چلاتھا ۔پھر بھی نجانے کیسے وہ میرے روح کے سناٹوں میں سرگوشیاں کرنے آبیٹھتی ۔
مومل نے کب اور کیسے میرے دل پر گھاؤ لگایا اس کے لیے میں آپ کو تھوڑا پیچھے لیے چلتا ہوں۔ان دنوں میں پشاور یونیورسٹی میں لائبریری سائنس میں ماسٹرز کی ڈگری کے حصول کے لیے کوشاں تھا ۔میرے والد صاحب آرمی میں کرنل تھے۔اور ہماری رہائش کینٹ کے علاقے میں تھی ۔مومل ہمارے ساتھ والے گھر میں اپنی دو چھوٹی بہنوں اور والدین کے ساتھ رہتی تھی ۔میری اور اس کی بڑی گہری دوستی تھی ۔ہم چونکہ بچپن سے اکھٹے کھیلے اور پڑھے تھے تو ہم نے کبھی ایک دوسرے کو کسی اور نظر سے نہ دیکھا تھا۔اپنی چھوٹی بہنوں کے مقابلے میں وہ بے حد لاپرواہ اور کھلنڈری طبیعت کی مالک تھی ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یونیورسٹی سے واپسی پر گرمی اور ٹریفک کی وجہ ہوا خاصا جھنجھلایا ہوا گھر کے مین گیٹ میں داخل ہو رہا ہوتا ۔ادھر اچانک ہی سے آدھا کھایا ہوا امرود پٹاخ سے میرےسر پر آکے لگتا۔ساتھ ہی مومل کا اونچا سا قہقہ سنائی دیتا ۔وہ ہمارے دونوں گھروں کے درمیان کھنچی ہوئ دیوار پر بیٹھی ٹانگیں ہلا رہی ہوتی ۔
'' تم کس قدر کی نکمی لڑکی ہو ! سارا دن فضول وقت ضائع کرتی رہتی ہو!''
میں غصے سے چلا اٹھتا ۔ وہ پھر ایک اونچا سا قہقہ لگا کر کہتی :
''اشعر تم کس قدر سڑیل انسان ہو ۔ پڑھ پڑھ کر کے تم نے اپنا دماغ بلکل ہی خشک کر لیا ہے ! میں تو اپنی زندگی جینا جانتی ہوں ۔''
میں غصے سے بڑبڑاتا ہوا گھر میں داخل ہو جاتا ہوں۔شام کے وقت سو کر اٹھتا تو نیچے کچن سبے طرح طرح کی خوشبو ئیں آرہی ہوتیں ۔ تھوڑی دیر میں مومل صاحبہ چائے کے ساتھ پکوڑے اور شامی کباب تل کر میرے کمرے میں نازل ہو جاتی ۔یہ گویا دوپہر کی ہماری چھوٹی سی جھڑپ کے بعد اس کی طرف سے اعلان صلح ہو تا ۔پھر اس کے بعد ہماری گپ شپ شروع ہوتی تو کئی گھنٹے اسی میں بیت جاتے۔میں چونکہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا اس لیے مومل کا ساتھ میرے لیے غنیمت تھا ۔میرے زندگی کے تنہا لمحوں میں اس کی رفاقت امرت دھارا بن کر ٹپکتی رہتی ۔
ابو کی فوج سے ریٹائرمنٹ کے مر حلے کے ساتھ ہی ہم پنڈی اپنے آبائی گھر میں منتقل ہو گئے ۔جدائی کی ایک لمبی دیوار میرے اور مومل کے درمیان آ کھڑی ہوئی۔مجھے پنڈی ہی میں ایک کالج میں لائبریرین کی نوکری مل گئی۔میں یہاں اپنے کرئیر کو جمانے میں مصروف ہو گیا ۔اچانک ہی مومل کا رشتہ طہ ہو جانے کی دھماکہ دار خبر ملی ۔ میرے والدین کا خیال تھا کہ شاید ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور مناسب وقت آنے پر بتائیں گے ۔میں نے ان کی بات ہنس کر ٹال دی ۔لیکن میری روح کے سناٹوں میں چھناکے سے کچھ ضرور ٹوٹا تھا۔میں ان بیوقوف لڑکوںمیں سے تھا جن کو اپنے خود کے جذبات کی ہی سمجھ نہیں آتی تھی ۔ ادھر مومل اپنی شادی کی تیاریوں میں مگن تھی ۔میں بھی اپنے والدین کے ساتھ پشاور کے لیے روانہ ہو گیا ۔خوشیوں کے سنہرے رنگوں نے مومل کے گھر میں چار چاند لگا دیے تھے۔مومل کے ہونے والے دولہا بینک میں کسی اچھے عہدے پر فائز تھے ۔بھر ا پرا خاندان تھا ۔شادی کی تمام تقریبات نہا یت شاندار طریقے سے انجام پائیں ۔
شادی کے بعد مومل کی زندگی بلکل بدل گئی ۔ وہ اب ایک ذمہ دار قسم کی گھریلو خاتون بن گئی تھی ۔گھر گرہستی کی تمام ذمہ داریاں نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتی ۔یہاں تک کہ جیٹھانیوں اور نندوں کے بچے سارا دن اس کے کمرے میں اودھم مچائے رکھتے مگر وہ ماتھے پر شکن بھی نہ لاتی ۔اس دوران وہ ایک بیٹی کی ماں بن گئی ۔بظاہر تو ایسے ہی لگتا تھا کہ زندگی ایک پرسکون دریا کی طرح بہتی جائے گی ۔اس دریا میں پہلا پتھر اس وقت پڑا جب بیٹی کی پیدائش کچھ دیر بعد سےہی وہ جوڑوں کے درد میں مبتلا ہو گئی ۔جو بیماری بو ڑھے لوگوں کو ہوتی ہے وہ شاید زچگی میں کسی پیچدگی کی بنا پر اسے لگ گئی تھی ۔ ابھی اس کے بہت سے میڈیکل ٹیسٹ ہونے تھے۔کچھ عرصہ بیت گیا اور ہمیں مومل کی کوئی خبر نہ ملی ۔پھر اچانک ہی مری میں اس سے ملاقات ہو گئی۔اسے دیکھ کر مجھے اپنے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسکتی معلوم ہوئی۔وہ بے انتہا کمزور دکھائی دے رہی تھی اور اپنی نند کا سہارا لے کر چل رہی تھی ۔
''اتنی بیماری کی حالت میں تمہیں مری آنے کی کیا ضرورت تھی ؟'' میں نے غصے سے اسے پوچھا۔
اس سے پہلے کہ وہ میرے کسی بات کا جواب دیتی ، پیچھے سے اسےکے سسرالی رشتے داروں کا جلوس آگیا ۔میں اور میرے والدین ان سب سے علیک سلیک میں مصروف ہو گئے۔اس دوران مومل میری امی کا ہاتھ تھامے رہی اور اپنی بیماری کے بارے میں بتاتی رہی ۔ساتھ ہی اپنے سسرال کے لیے تعریفوں کے پل بھی باندھتی رہی کہ کس طرح وہ اس کا خیال رکھ رہے تھے۔کتنا خلوص اور پیار تھا اس لڑکی کے اند ر ! وہ کسی کے بارے میں برا سوچ ہی نہیں سکتی تھی ۔
مری میں ہونے والی اس ملاقات کے بعد میرا دھیان ہر وقت مومل کی طرف ہی لگا رہتا تھا۔ہم سب نے اس وقت سکھ کا سانس لیا جب مومل دوایئوں کے باقاعدہ استعمال کے بعد بہت بہتر محسوس کرنے لگی ہے۔اس کے جسم کا دفا عی نظام اس کے جسم کے خلاف کر رہا تھا ۔ڈاکٹروں کے مطابق وہ چار پانچ سال میں مکمل رو بصحت ہو سکتی ہے ، لیکن اس دوران کسی دوسرے بچے کی پیدائش سے مومل کی جان کو سخت خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ایسے لگا کہ میرے سر سے ایک بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہو ۔ مجھے یقین تھا کہ مومل کا بیاہ ایک پڑھے لکھے گھرانے میں ہوا ہے اس لیے اس کے گھر والے ہر قسم کا ٰخیال رکھیں گے ۔
ادھر والدین کے بے حد اصرار پر میں نے آخر کار شادی کے لیے ہاں کر دی تھی ۔میرے ماں باپ کی خوشی کا کو ئی ٹھکانہ نہ تھا ۔مجھے اچھی طرح یادہے کہ اپنی شادی کا دعوت نامہ دینے کے لیے میں نے بطور خاص مومل کے میاں کو فون کیا ۔اس وقت بھی وہ گھر کے کاموں میں بری طرح الجھی ہوئی تھی ۔
''شمس بھائی! پلیز مومو کا خیال رکھیں ۔ یہ تو لاپرواہ ہے ۔ آپ اسے ذیادہ گھر کے کام نہ کرنے دیا کریں۔'' میں نے گویا ان سے التجا کر دی۔
'بھیا ! ہماری اماں جان کہتی ہیں کہ کام کاج سے انسان کی صحت ٹھیک رہتی ہے۔'مومل کے میاں نے تنک کر مجھے جواب ٹکا دیا۔
اس کے بعد مومل سے بات ہوئی تو کہنے لگی ۔
'' شمس بہت اچھے انسان ہیں۔ میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔دراصل میرے بیماری کے بارے میں لوگوں کے مشورے سن سن کر چڑ جاتے ہین۔جلد ہی ایک کام کرنے والی کا بندوبست ہو جائے گا۔"
آخر کار میری شادی کے ہنگامے شروع ہو گئے۔ مومل بھی شریک ہوئی۔ مگر وہ کچھ اکھڑی اور پریشان دکھائی دی ۔مجھے اس کے چہرے پر سوجن بھی نظر آرہی تھی ۔ میں نے اس سے پوچھا :
''مومو ! کیا بات ہے تم کچھ اپ سیٹ سی ہو ! خیریت تو ہے ؟"
میرے بہت ذیادہ اصرار کرنے پر بھی اس نے کچھ نہ بتایا۔بعد میں مجھے امی سے پتا چلا کہ مومل کے شوہر کو بیٹے کی بہت خواہش ہے ۔ مومل کی ساس اور دوسرے گھر والے بھی یہی چاہتے ہیں کہ شمس کی کوئی اولاد نرینہ ہو جائے۔مومل کے میکہ والے اسے سمجھا رہے تھے کہ وہ ابھی بچہ پیدا کرنے کا خیال چار پانچ سال کے لیے ترک کر دے ۔جان ہے تو جہان ہے۔
کئی ماہ گزر گئے اور میں اپنی نئی زندگی کی شروعات میں مصروف ہو گیا۔بہت عرصہ ہو گیا تھا مومل کی کوئی خیر خبر نہ آئی تھی ۔ پھر وہی ہو ا جس کا ڈر تھا ۔ پتا چلا کہ وہ دوبارہ امید سے ہو گئی تھی ۔اس بیوقوف لڑکی نے شوہر اور سسرال والوں کی خوشنودی کی خاطر اپنی جان کی بازی لگادی۔اس کی بیماری مزید بگڑ گئی تھی ۔ اس نے ایک بیٹے کو جنم تو دے دیا مگر خود بھر ی جوانی میں موت کے منہ میں چلی گئی ۔ اس کا بیٹا بچند روز زندہ رہا اور پھر وہ بھی اللہ کو پیارا ہو گیا۔
مومل کے والدین اپنی لاڈلی بیٹی کی یادوں کو سینے سے لگائے آج بھی تڑپتے رہتے ہیں ۔کئی سال بیت گئے ہیں لیکن اس کی موت کا غم بھلایا نہیں جاتا ۔وہ زندگی سے بھر پور تھی ۔دوسروں کو دینے کے لیے اس کے پاس ہمیشہ چاہتوں اور مسکراہٹوں کا بیش بہا خزانہ ہو ا کرتا تھا۔وہی میری پہلی محبت تھی جسے میں نے پہنچاننے میں دیر کر دی تھی ۔

 

Atiya Adil
About the Author: Atiya Adil Read More Articles by Atiya Adil: 19 Articles with 23670 views Pursing just a passion of reading and writing ... View More